مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کیلئے کس کو ووٹ دیں … ؟

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
انسانوں میں چند کو متمول بنانے والی قدرت ان لوگوں سے یہ امتحان بھی لیتی ہے کہ آیا انہوں نے اپنی دولت کا استعمال کن پر کیا ہے ۔ دولت دے کر آزمانے کا مرحلہ بہت مشکل ہوتا ہے ۔ ان دولت مندوں کو جب غریبوں کی سرپرستی سونپی جاتی ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ ان متمول لوگوں میں اکثر پڑھے لکھے ہونے کے باوجود قدرت کے اس امتحان میں بری طرح ناکام ہوتے ہیں ۔ قدرت بعض انسانوں کو اپنے طبقہ کی صحیح رہنمائی کی ذمہ داری دیتی ہے اس میں بھی یہ لوگ درست رہنمائی میں ناکام ہوتے ہیں ۔ مسلم سیاسی قیادت ہو یا مذہبی گروپ سے وابستہ افراد جب اپنی ذمہ داریوں میں ناکام ہوں تو ان کے لیے سخت معاملہ ہوسکتا ہے ۔ آنے والے اسمبلی انتخابات تلنگانہ کے عوام بالخصوص مسلمانوں کے لیے اہم ہیں ۔ اس میں موجودہ حکومت کی مسلم وعدہ خلاف پالیسیوں کو خاص نشانہ بنانے کی ضرورت ہے لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ مسلم قیادت مسلمانوں کے مستقبل کی بہتری کے بجائے ان کے مستقبل کی سوداگر بن گئی ہے ۔ گذشتہ دنوں مسلم حلقہ میں جو بڑی تبدیلی دیکھی گئی اس میں یونائٹیڈ مسلم فورم کے ذمہ داروں کے درمیان اختلافات تھے ۔ اس فورم نے کانگریس پارٹی کے سامنے مسلمانوں کے مختلف مسائل پیش کئے اور فورم کی جانب سے کانگریس کی مکمل حمایت کا بھی وعدہ کیا گیا ۔ فورم کے اس فیصلہ سے بعض اراکین ناراض دکھائی دئیے خاص کر فورم کے نائب صدرنشین مولانا حسام الدین ثانی جعفر پاشاہ نے مسلم فورم میں جن خامیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے خود کو کنارہ کش کرلیا ۔ اس میں ان مفاد حاصلہ افراد کے لیے غور و فکر کا موقع بھی دیا گیا ہے ۔ مسلم طبقہ میں مختلف گروپس کام کرتے ہیں حیدرآباد کے مسلمانوں اور ان کے اہم افراد کے جو بھی فیصلے اور اقدامات ہوتے ہیں اس کا اثر بلا شبہ ساری ریاست کے مسلمانوں پر پڑتا ہے ۔ مسلم فورم واقعہ کے بعد سیاسی پارٹیوں اور مسلم جماعت کی قیادت کی طرز سیاست پر غور کرنے والے مسلمانوں کو آنے والے اسمبلی انتخابات ان کی فیصلہ سازی کا امتحان ہوں گے ۔وہ جو بھی فیصلہ کریں گے اس سے ان کی سیاسی خوبیوں کی جھلک واضح ہوجائے گی ۔ مفادات حاصلہ ٹولوں کا طواف کرنے والے مسلمان اپنا ووٹ ضائع کرتے ہیں یا جعفر پاشاہ کی طرح حوصلہ و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی حتمی نتیجہ پر پہونچکر اپنے اور آنے والی نسلوں کے لیے کوئی راہ استحکام کی جانب پیشرفت کرتے ہیں یہ غور طلب ہے ۔ جہاں تک حکمراں پارٹی یا اپوزیشن پارٹی کی سیاست کا سوال ہے ان کے منشور اور سیاسی منصوبوں میں سیاہ پہلو نمایاں ہے کہ مسلمانوں کے ووٹوں کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک وعدے کئے جائیں گے ۔

یونائٹیڈ مسلم فورم یا اس طرح کے دیگر گروپ کا سیاسی وزن کیا ہے اور ان کا مسلمانوں کے اندر کس حد تک محترم مقام ہے یہ الگ موضوع ہے ۔ اس وقت تلنگانہ کے سیاسی ماحول میں مسلمانوں کے ووٹوں پر نظر رکھنے والوں کے سامنے یہ واضح بات رکھی جانی چاہئے کہ اس مرتبہ انہیں صرف وعدوں سے بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا ۔ ٹی آر ایس نے وعدے کیے تھے اس سے بڑھ کر کانگریس بھی وعدے کرتے دکھائی دے رہی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ تلنگانہ میں حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کی سیاست ایسی الٹ پلٹ دکھائی دے رہی ہے کہ کسی پر بھی کامل یقین نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ان پارٹیوں نے ہی مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرنے والی مسلم جماعت اور اس کا ساتھ دینے والے چند مسلم گروپس کو ہمنوا بناکر مسلمانوں کو الو بنایا ہے ۔ سادہ لوح مسلمان بھی اپنی مسلم قیادت کی آنکھ یا کان زبان کے دھوکے میں آکر ان پارٹیوں کو ہی مضبوط بنایا جن کی جانب اس مسلم گروپ اور مقامی جماعت کا جھکاؤ ہوتا تھا ۔ اسی طرح ایک چالاک پارٹی بھانامتی کا کنبہ جوڑ کر حکمرانی کرتی رہی ہے ۔ اب بھی یہی چال چل کر اقتدار تک پہونچنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مسلمانوں کی قسمت کے فیصلے ووٹ کی ایک جنبش سے ہوتے ہیں ۔ ووٹ کے بعد ان مسلمانوں کی حیثیت صفر ہوجاتی ہے اوران کے بااعتبار نمائندوں کی دولت کے صفر میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ تلنگانہ کے حصول کے بعد جو بات باعث حیرت ہے وہ یہ کہ اس علاقہ کی سیاست میں کوئی نیا پن دیکھنے میں نہیں آیا ۔ ٹی آر ایس جس کی کامیابی کی شہنایاں اسی سُر میں بج رہی ہیں کہ اس کو 100 نشستوں پر کامیابی کا یقین ہے اس کے جواب میں کانگریس نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دینے کے دعویٰ کیے ہیں ۔ ایسی پارٹیوں کے درمیان اپنے پرانے سیاسی رشتوں کا بازار گرم کرتے ہوئے مسلم نام نہاد گروپ سرگرم ہوتے ہیں ۔ سیاسی حمایت اور طرفداری کی بندر بانٹ کا بازار اسی طرح گرم ہوا ہے ۔ ایسے بازار کو خیر باد کہہ کر ہی ایک جرات مند مذہبی رہنماء نے سیاسی چاپلوسی کے خلاف ایک چھوٹا سا احتجاج درج کیا تو اس واقعہ پر مسلم طبقہ اپنے ہونٹ پر انگلی رکھ کر بیٹھ گیا ہے اور خود کو ان سازشی ذہنوں کا شکار بننے کے لیے چھوڑ دیا ہے جو ان کے ووٹوں کو چھین لینے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں ۔ اس امر کا احساس اگر مسلمانوں کو نہیں ہوا ہے تو ان کا تعلیمی ، معاشی اور مستقبل مجہول کا شکار ہی ہوگا ۔ خود غرض کی کھلبلی مچانے والوں نے مسلمانوں کے مستقبل کو ہی مفلوج کر رکھا ہے ۔ ماضی کے تجربات اور موجودہ حکمرانی کی بے وفائی کی چوٹ کھا کر بھی مسلمانوں نے ہنوز کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے تو ٹی آر ایس ، بی جے پی اور اس کا درپردہ ساتھ دینے والی ان کی نام نہاد جماعت عین وقت پر ان کے ووٹوں کا سرقہ کرلے گی کیوں کہ یہ لوگ انتخابات کے موقع پر اپنی انتخابی مہم کے لیے مساجد کے منبر ، دینی مدارس کے مراکز اور مذہبی مقامات کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ مانگنے نکلتے ہیں ۔ مساجد جیسے مقدس مقام کے ذریعہ سادہ مسلمانوں کو کس طرح ٹھگ لیتے ہیں اس کا اس واقعہ کے ذریعہ آپ کو یاد دلاتا ہوں اور چوکنا کرنا چاہتا ہوں ، واقعہ یہ ہے کہ ایک مسجد میں امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے والے مصلی نے جیسے ہی امام صاحب نے سلام پھیرا کھڑے ہو کر امام صاحب کو مخاطب کیا اور کہا کہ مجھے آپ کے تابع نماز پڑھ کر بڑا سکون ملا ہے ۔ آپ نے جس خوش الحانی اور جس انداز سے نماز پڑھائی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا ایمان تازہ ہوگیا ہے لیکن مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ جس مسجد میں آپ امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں یہ مسجد بہت بوسیدہ ہوچکی ہے یہ اللہ کا گھر ہے ہم سب پر اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور یہ کہہ کر انہوں نے اپنی جیب سے 50 ہزار روپئے نکال کر امام صاحب کو دیدئیے اور کہا کہ مسجد میں ضروری مرمت اور رنگ و روغن وغیرہ کرالیا جائے پھر وہ مصلی سب نمازیوں کو سلام کر کے رخصت ہوگیا ۔ مسجد کے تمام مصلی اس شخص سے بہت متاثر ہوئے کہ اس نے مسجد کے لیے بڑی رقم عطیہ کردی ۔ چند دن بعد پھر وہ شخص نماز کے لیے مسجد پہونچا اور جیسے امام صاحب نے سلام پھیرا کھڑے ہو کر کہا کہ آج مجھے پھر اس مسجد میں نماز ادا کرنے کا موقع ملا ہے لیکن آج مجھے مسجد کو بہتر حال میں دیکھ کر خوشی ہوئی ہے ۔ میری پہل سے مسجد کی مرمت کی گئی ۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے کسی چیز کی کمی نہیں ہے ۔ اس کے بعد اس شخص نے پھر ایک مرتبہ جیب سے 50 ہزار روپئے نکالے اور امام صاحب کو دیدیا اور کہا کہ مسجد کی تزئین کروائیں ۔ اے سی یا کولر کا انتظام کرلیں یہ کہہ کر مسجد سے چلا گیا ۔ کئی مصلی اس شخص کی دریا دلی سے متاثر ہو کر اس کے پیچھے چلے گئے اور ان سے ملاقات کر کے دوستی کرلی ان کی ملاقاتیں بڑھتی گئی اس شخص نے مسجد کے مصلیوں کا اعتماد جیت لیا اور اپنی شاندار زندگی کی داستانیں سناکر انہیں مرعوب کردیا کہ اس کا کروڑہا روپئے کا کاروبار ہے جہاں مسلم بچوں کو روزگار دیا جاتا ہے تعلیم دلوائی جاتی ہے اور بلا سودی کاروبار کرتے ہوئے دولت کمائی جاسکتی ہے ۔ اس شخص سے مل کر محلے کے لوگوں سے خود کو خوش قسمت تصور کرنے لگے اور اپنی اوقات سے بڑھ کر اس شخص کی خدمت کرنے لگے اس کی باتوں میں آکر اس کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے لگے حتی کہ لوگوں نے اپنے گھر کے زیورات بیچ بیچ کر انہیں روپیہ دیا اور امید پیدا کرلی کہ ان کی سرمایہ کاری کا نتیجہ بہترین نکلے گا لیکن ایک دن وہ شخص محلے سے کروڑہا روپئے لے کر ایسا رفو چکر ہوا کہ اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں چل پایا ۔ لوگ اس کے دھوکہ میں آگئے ۔ صدمہ خیز بات یہ ہے کہ فراڈی شخص نے اپنے فراڈ کے لیے مسجد جیسی مقدس جگہ کا استعمال کیا ۔اس طرح کے مناظر آپ بھی اپنے ارد گرد دیکھتے ہوں گے ؟۔
kbaig92@gmail.com