مسلمانوں کی ترقی میں تلنگانہ حکومت ملک میں سرفہرست ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی سے انٹرویو

محمد ریاض احمد
ریاست تلنگانہ کا شمار ملک کی ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے اور مسلمان بادشاہ گر کا موقف رکھتے ہیں ۔ بادشاہ گر کا موقف رکھنے کے باوجود مسلمان کئی ایک مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ۔ تعلیمی اور معاشی پسماندگی مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جبکہ سرکاری ملازمتوں میں بھی ان کا تناسب سب سے کم ہے ۔ ان حالات میں مسلم اقلیت کی ترقی و خوشحالی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ آج اگر ملک میں زندگی کے تمام شعبوں میں تحفظات کے سب سے زیادہ حقدار کوئی ہیں تو وہ مسلمان ہی ہیں ۔ متحدہ ریاست آندھرا پردیش میں جتنی بھی حکومتیں آئیں ان سب میں مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا ۔ سرکاری ملازمتوں سے لیکر ریاستی کابینہ میں بھی انھیں کوئی اہمیت نہیں دی گئی ۔ ٹی آر ایس سربراہ کے سی آر نے جب ریاست میں علحدہ تلنگانہ کا نعرہ بلند کیا اور عوامی تحریک شروع کی اس تحریک میں مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ حسن اتفاق سے علحدہ تلنگانہ تحریک کے ابتداء ہی میں شہادت حاصل کرنے والا نوجوان بھی ایک مسلمان ہی تھا ۔ اس طرح مسلمانوں کو علحدگی تلنگانہ کیلئے سب سے پہلے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا اعزاز حاصل رہا ۔
بہرحال زبردست جد وجہد کے بعد علحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل عمل میں آئی اور ٹی آر ایس کو اقتدار حاصل ہوا ۔ اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران مسٹر کے چندرا شیکھر راؤ نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات سے لیکر زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کے ثمرات سے بہرہ ور کرنے ، موقوفہ جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنانے ، سرکاری ملازمتوں کیلئے مسلم لڑکے لڑکیوںکو تربیت فراہم کرنے جیسے بے شمار وعدہ کئے ۔ انھوں نے ایک مسلم قائد کو ڈپٹی چیف منسٹر بنانے کا وعدہ بھی کیا تھا انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد کے سی آر نے اپنے بااعتماد رفیق محمود علی کو ڈپٹی چیف منسٹر بناتے ہوئے مسلمانوں سے کیا گیا اپنا ایک وعدہ پورا کیا ۔ کے سی آر اکثر حضور نظام نواب میر عثمان علی خان بہادر کی رعایا پروری انسانیت دوستی اور انصاف پسندی کی تعریف کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ آصفجاہی دور میں مہاراجہ کشن پرشاد کو کافی اہمیت دی جاتی تھی چنانچہ آج ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمود علی کے سی آر اور ٹی آر ایس کے مہاراجہ کشن پرشاد سمجھے جاتے ہیں ۔ راقم الحروف نے ان سے ایک تفصیلی انٹرویو لیا ہے جس کے اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں ۔
سوال ۔ علحدہ تلنگانہ کی جد و جہد اور پھر اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران کے سی آر نے مسلمانوںسے بے شمار وعدے کئے ۔ آیا انھوں نے اپنے وعدوں کو پورا بھی کیا ہے یا پھر ماضی کے چیف منسٹروں کی طرح مسلمانوں کو تسلی ہی دے رہے ہیں ؟

جواب : سب سے پہلے تو میں آپ کو یہ بتادوں کہ کے سی آر صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ تحریک تلنگانہ میں مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جب علحدہ ریاست کی تشکیل کے بعد اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے ان انتخابات میں بھی مسلمانوں نے ٹی آر ایس کی زیردست تائید و حمایت کی نتیجہ میں اسمبلی میں اسے واضح اکثریت حاصل ہوئی ۔ کے سی آر نے مسلمانوں سے جو وعدے کئے انھیں مرحلہ وار پورا کیا جارہا ہے ۔ سب سے پہلا وعدہ انھوں نے ایک مسلم قائد کو ڈپٹی چیف منسٹر بنانے کا کیا تھا جسے اقتدار ملتے ہی پورا کیا گیا ۔ چیف منسٹر نے مسلمانوں کیلئے ایسے کئی اسکیمات بھی شروع کیں جس کا انھوں نے وعدہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی ان وعدوں کو کے سی آر کے انتخابی منشور میں شامل کیا گیا تھا ۔
سوال ۔ جیسا کہ آپ نے کہا ہے کہ کے سی آر نے مسلمانوں کی بہبود کیلئے بناء وعدوں کے کئی اسکیمات شروع کی ہیں ۔ کیا آپ ان اسکیمات پر روشنی ڈالیں گے ؟
جواب ۔ ٹی آر ایس حکومت نے غریب مسلم ماں باپ کو راحت پہنچانے کیلئے شادی مبارک اسکیم شروع کی ۔ اس اسکیم کے تحت مسلم لڑکیوں کو شادی کیلئے فی کس 51 ہزار روپئے کی مالی امداد فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ مسلمانوںکیلئے اس طرح کی انوکھی اور منفرد بلکہ اختراعی اسکیم ہندوستان کی کسی ریاست میں شروع نہیں کی گئی ۔ تاحال ہزاروں مسلم لڑکیوں نے اس اسکیم سے استفادہ کیا اور 5 برسوں میں ایک لاکھ مسلم لڑکیوں کو اس غیر معمولی اسکیم سے مستفید کرانے کا ہدف مقرر کیا ہے اور انشاء اللہ حکومت صد فیصد نشانہ کی تکمیل کرے گی ۔ مسلمانوں کی بہبود کیلئے کے سی آر حکومت نے جو انقلابی اسکیم شروع کی ہے وہ پیشہ وارانہ کورسس کرچکے مسلم نوجوانوں کو بیرونی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کیلئے 10 لاکھ روپئے کی مالی امداد کی فراہمی سے متعلق ہے ۔ اس اسکیم کا بھی کے سی آر نے تحریک تلنگانہ اور اسمبلی انتخابات کے دوران وعدہ نہیں کیا تھا ۔ اب امریکہ ، برطانیہ ، آسٹریلیا ، کناڈا اور سنگاپور کی مشہور و معروف یونیورسٹیز میں اعلی تعلیم کے خواہاں مسلم لڑکے لڑکیوں نے آن لائن درخواستیں داخل کرنی شروع کردی ہیں اور اس معاملہ میں ، میں سیاست اور ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں کی کاوشوں کی ستائش کرتا ہوں کہ ہمارے تعلیمیافتہ نوجوانوں کو وہ حکومت کی متعدد اسکیمات سے استفادہ کرانے کی کامیاب ترغیب دے رہے ہیں ۔ بیرون ملک اعلی تعلیم کیلئے حکومت نے 25 کروڑ روپئے منظور کئے ہیں ۔ ملک بھر میں اس طرح کی اسکیم صرف درج فہرست طبقات و قبائل کے طلبہ کیلئے شروع کی گئی تھی اس معاملہ میں بھی ریاست تلنگانہ سب سے آگے ہے ۔ کسی اور ریاست میں اقلیتوں کیلئے ایسی اسکیم نہیں ہے حکومت نے اقلیتی طالبات کو بااختیار بنانے کی خاطر مذکورہ اسکیم میں انھیں 30 فیصد تحفظات فراہم کئے ہیں ۔ امید ہیکہ اس اسکیم سے اقلیتوں بالخصوص مسلم خاندانوں میں ایک صحتمند معاشی و تعلیمی انقلاب برپا ہوگا ۔

سوال ۔ کے سی آر نے مسلمانوںکو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور یہ ایسا وعدہ ہے جس پر عمل آوری بہت مشکل نظر آتی ہے اس لئے کہ سابق وائی ایس آر حکومت نے مسلمانوں کو تعلیم اور ملازمتوں میں جو چار فیصد تحفظات فراہم کئے وہ بھی پیچیدگیوں کا شکار ہیں ۔ ایسے میں حکومت کس طرح مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرسکتی ہے ؟
جواب ۔ کے سی آر نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا اور ٹی آر ایس حکومت ہر حال میں اپنے اس وعدہ کو پورا کردکھائے گی ۔ اسمبلی میں ہمیں واضح اکثریت حاصل ہے ۔ اسمبلی میں اس تعلق سے بل بھی پاس کردیا جائے گا مگر پارلیمنٹ میں اسے منظور کئے جانے میں جو رکاوٹیں ہیں اس بارے میں سب واقف ہیں ۔ کے سی آر اس ضمن میں کوئی جلد بازی نہیں کرنا چاہتے وہ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کو دیئے جانے والے تحفظات  قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہوں اس لئے وہ بہت ہی سوچ سمجھ کر اس جانب اپنے قدم آگے بڑھارہے ہیں ۔ ٹاملناڈو میں  69 فیصد تحفظات ہے اس طرح ہماری بھی یہی کوشش ہے کہ جملہ تحفظات 69-70 فیصد رہیں ، درج فہرست قبائل کو ریاست میں 6 فیصد  تحفظات دیئے جارہے ہیں اور مسلمان 4 فیصد تحفظات سے استفادہ کررہے ہیں ایسے میں کے سی آر حکومت ایس ٹیز کو دئے جانے والے تحفظات کو 6 فیصد سے بڑھاکر 12 اور مسلمانوں کو دئے جانے والے 4 فیصد تحفظات کو بڑھا کر 12 فیصد کرنے کی خواہاں ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان تحفظات میں سید اور پٹھانوں کو بھی شامل کیاجائے گا ۔ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کیلئے منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور اس کیلئے کچھ وقت درکار ہے ۔ حکومت کی امکنہ اسکیم میں بھی مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کو یقینی بنایا جائے گا ۔

سوال ۔ مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی پسماندگی دور کرنے حکومت کیا اقدامات کررہی ہے ؟
جواب ۔ حکومت نے اقلیتوں کی بہبود کیلئے  1105 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا ہے ۔ 450 کروڑ روپئے اقلیتی طلبہ و طالبات کی فیس باز ادائیگی کیلئے مختص کئے گئے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں کیلئے تیاری اور انھیں روزگار کے قابل بنانے حکومت نے فروغ مہارت کا پروگرام شروع کیا ہے اس پروگرام کیلئے 7 کروڑ روپئے منظور کئے گئے ۔ مسلمانوں میں بہت زیادہ معاشی پسماندگی پائی جاتی ہے ۔ ایسے میں 1000 آٹوز فراہم کرنے کی کارروائی پر عمل کیا جارہا ہے ۔ اس اسکیم میں ریاستی اقلیتی مالیاتی کارپوریشن 50 فیصد سبسیڈی دے گا ۔ دوسری جانب حکومت نے آٹو ٹیکس مکمل طور پر معاف کردیا ہے جس سے سرکاری خزانہ پر 73 کروڑ روپئے کا زائد بوجھ عائد ہوا ہے ۔ اقلیتی بیروزگار نوجوانوں کو کاروبار شروع کرنے قرض دئے جارہے ہیں ۔ اس پر بھی غیر معمولی سبسیڈی دی جارہی ہے ۔ ہم نے آمدنی کی حد 1.5 سے بڑھا کر دو لاکھ کردی ہے ۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ بینکس 60 ہزار آمدنی بتانے پر قرضوں کی فراہمی سے گریز کرتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہوگا بینکوں کو ہر حال میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو قرض دینا ہی ہوگا ۔

سوال ۔ متحدہ ریاست میں موقوفہ جائیدادوں کو بہت لوٹا گیا ۔ لاکھوں کروڑ مالیتی جائیدادوں پر قبضہ یا پھر حکومت کی جانب سے کوڑی کے مول فروخت کئے جانے کے باعث بلند وبالا عمارتیں تعمیر کرلی گئیں ۔ اس طرح مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا ۔ اب کے سی آر حکومت موقوفہ جائیدادوں کے تحفظ کا کوئی منصوبہ بھی رکھتی ہے یا نہیں ؟
جواب ۔ کے سی آر نے تحریک تلنگانہ کے دوران ہی کہہ دیا تھا کہ وہ موقوفہ جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے ۔ حکومت نے موقوفہ جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنانے اقدامات شروع کردئے ہیں ۔ ابھی تک وقف بورڈ تقسیم نہیں ہوا ہے ۔ اس سلسلہ میں میں خود کئی بار دہلی ہو آیا ہوں ۔ اللہ چاہے تو جلد ہی وقف بورڈ تقسیم ہوجائے گا ۔ مرکز کی ایک ٹیم بھی دورہ کرکے جائزہ لے چکی ہے ۔ حکومت وقف بورڈ اوراقلیتی اداروں میں عملہ کی کمی کے مسئلہ کو بھی بہت جلد حل کردے گی ۔ سب سے اہم بات یہ ہیکہ وقف ٹریبیونل ججس کا تقرر کیا جائے گا ۔ اور وقف بورڈ کی آمدنی میں اضافہ کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے گا ۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے سی ای او اور اسپیشل آفیسر کے عہدوں پر دیانت دار عہدہ داروں کا تقرر کیا ہے ۔ اس کے علاوہ تلنگانہ کے تمام اضلاع میں حج ہاوز کی طرح دفاتر قائم کئے جائیں گے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ کے سی آر مسلم دوست اور حیدرآبادی تہذیب کے دلدادہ اور اردو زبان کے شیدا ہیں وہ مسلمانوں کو ترقی و خوشحالی کی سمت گامزن کرنے میں غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ انھیں مسلمانوں کی غربت کا اچھی طرح اندازہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کے سی آر حکومت غریب مسلم خاندانوں کو راحت پہنچانے کیلئے ہراسمبلی حلقہ میں دو دو شادی خانے تعمیر کروارہی ہے ۔ یہ اسکیم بھی سارے ملک میں اپنی نوعیت کی منفرد اسکیم ہے ۔
سوال ۔ حکومتوں نے ہمیشہ جس طرح مسلمانوں کو نظر انداز کیا اسی طرح پرانا شہر کو بھی نظر انداز کیا گیا ۔ سہولتوں کے معاملہ میں پرانے اور نئے شہر میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ ان حالات میں کے سی آر حکومت پرانے شہر کی ترقی کیلئے کیا منصوبہ رکھتی ہے ؟
جواب ۔ حکومت پرانا شہر کو نئے شہر کے مانند بنانے میں سنجیدہ ہے ۔ علاقہ کی صاف صفائی پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے کچرہ نکاسی کیلئے گھر گھر ڈبے دئے جائیں گے ۔ شہر اور ساری ریاست میں برقی مسدودی کا مسئلہ درپیش تھا اس مسئلہ پر قابو پالیا گیا ۔ شہر میں لا اینڈ آرڈر کے مسئلہ کو بھی حل کردیا گیا ۔ ہر طرف امن و سکون کا ماحول ہے ۔ رمضان المبارک میں تو پرانا شہر نے نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا کو گنگا جمنی تہذیب کا ناقابل فراموش سبق دیا ہے ۔ ہندوستان میں قومی یکجہتی کی ایسی مثالیں ہندوستان کی کسی ریاست میں نہیں ملتی ۔
سوال ۔ آپ نے پرانا شہر کی صاف صفائی پر خصوصی توجہ دینے کی بات کہی ہے لیکن موسیٰ ندی کو ایک نالے میں تبدیل کردیا گیا ۔ اس پر غیر مجاز قبضہ کرتے ہوئے غیر قانونی مذہبی ڈھانچہ تعمیر کردئے گئے ہیں ۔ موسیٰ ندی میں گندگی کے باعث اطراف و اکناف کے علاقوں میں مچھروں کی بہتات ہے ؟
جواب ۔ جہاں تک موسیٰ ندی کا سوال ہے ۔ موسیٰ ندی کو حکومت بڑے پیمانے پر فروغ دے رہی ہے ۔ اس میں سے ایک وسیع و عریض روڈ نکالی جارہی ہے اور اس کیلئے 12000 کروڑ روپئے کا تخمینہ ہے ۔ حکومت اسے یقیناً ایک تفریحی مرکزی کے طور پر فروغ دے گی ۔
سوال ۔ اردو کو بھی ہمیشہ نظر انداز کیا گیا کے سی آر حکومت آیا اردو کو فروغ دینے میں سنجیدہ ہے ؟
جواب ۔ حکومت اردو زبان کی ترقی میں بہت سنجیدہ ہے ۔ اردو کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستانی زبان ہے جس نے آزادی کی لڑائی میں انگریزوں کے مقابل ایک بہت بڑے ہتھیار کا رول ادا کیا ۔ حکومت نے جہاں اردو کے فروغ کا تہیہ کیا ہوا ہے ۔ وہیں سینئر اردو صحافیوں ، شعراء اور ادیبوں کو ماہانہ وظیفہ مقرر کرنے کی تجویز بھی رکھتی ہے ۔
سوال ۔ آئمہ اور موذنین کو ماہانہ ایک ہزار روپئے پنشن دیتے ہوئے کہیں حکومت مساجد کے امور میں مداخلت کا ارادہ تو نہیں رکھتی؟
جواب ۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ حکومت کو مساجد کے امور سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور یہ کوئی پنشن یا وظیفہ بھی نہیں ہے بلکہ ائمہ اور موذنوں کیلئے ایک ہدیہ ہے ۔ کے سی آر کی مسلم دوستی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رمضان المبارک میں 195 مساجد میں افطار کا اہتمام کرایا گیا ۔ 195000 غریبوں میں کپڑوں کے جوڑے تقسیم کئے گئے ۔ ہندوستان کی کسی ریاست میں ایسی مثال نہیں مل سکتی ۔ ہندوستان کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ کیلئے 9.60 کروڑ روپئے منظور کئے گئے ۔
سوال ۔ مسلمانوں کے نام آپ کیا پیام دینا چاہیں گے ؟
جواب ۔ مسلمان سب سے پہلے تعلیم پر توجہ مرکوز کریں ۔ اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ پڑھائیں  ۔ حکومت ان کی مالی مدد کے لئے تیار ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلکی و فروعی اختلافات سے دور رہیں ۔ دوسروں کے سامنے خود کو ایک مثالی نمونہ کے طور پر پیش کریں ۔ ساتھ ہی حکومت کی ہر اسکیم سے استفادہ کریں ۔ آپ کو بتادوں کہ میری زندگی کا مقصد مسلمانوں کی ہر سطح پر ترقی ہے اور اللہ عز و جل نے مجھے اس کا جو موقع عطا کیا ہے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاؤں گا اور یہ فائدہ صرف اور صرف ملک و ملت کی ترقی کیلئے ہوگا ۔
mriyaz2002@yahoo.com