محمد ریاض احمد
ملک میں جب سے مودی برسر اقتدار آئے ہیں سادھو اور سادھویوں نے زیادہ سے زیادہ بچہ پیدا کرنے کے نعرے لگانے شروع کردیئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ سادھو اور سادھوئیاں خود بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں کیونکہ ان کی زندگی ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ وہ شاید شوہر بیوی بچوں پیار و محبت اور رشتوں کے بارے میں سوچ نہیں سکتے۔ بی جے پی میں موجود سادھوؤں اور سادھویوں نے حالیہ عرصہ کے دوران ہندوؤں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا ہے ایک سادھوی نے تو ہندوؤں کو یہاں تک مشورہ دے دیا کہ وہ 25 پلے پیدا کرنے کی بجائے کم از کم چار بچے پیدا کریں جس سے ملک میں ہندوتوا اور ہندوؤں کی حفاظت ہوگی۔ اس سادھوی نے ہندوؤں کو پلوں کی بجائے بچے پیدا کرنے کا مشورہ ایسا دیا جیسے ہندو اب تک بچے نہیں بلکہ پلے پیدا کررہے تھے۔ سادھو نے اس قسم کا بہودہ مشورہ دیتے ہوئے ہندوؤں کی توہین کی ہے۔ جس کی پاداش میں اسے ایسی سزا دینی چاہئے کہ پھر وہ دوبارہ بچے پیدا کرنے کی بات نہ کرسکے۔ اگر اسے دردزہ اور بچے کی پیدائش کے وقت عورت کو جس درد و کرب سے گذارنا بڑتا ہے
اس کا اندازہ ہو جاتا تو شاید وہ خواتین کو زیادہ بچے پیدا کرنے کا مشورہ نہیں دیتی شاید اسے صرف جنسی لذت کے بارے میں ہی معلوم ہوگا۔ بچے کی پیدائش کے موقع پر ہونے والی تکالیف سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوگا۔ سطور بالا میں ہم نے کہا ہے کہ بی جے پی اور نریندر مودی کے اقتدار میں سادھوؤں اور سادھویوں نے بچے پیدا کرو کے نعرے بلند کئے ہیں۔ ان کے نعروں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی دیگر تنظیموں کا صرف ایک ہی ایجنڈہ ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی کو روکا جاسکے۔ اس کے علاوہ ہندوؤں میں ذات پات کے لڑائی جھگڑوں، اونچ نیچ ، ادنی اعلیٰ کے امتیاز و عدم مساوات سے توجہ، ہٹانے کے لئے بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف جان بوجھ کر نفرت کی لہر پیدا کی جارہی ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کو ہندو بنایا جائے گا کیونکہ ان کے آبا و اجداد ہندو ہی تھے اس کے لئے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی ناک کے نیچے ہندوتوا کی تنظیمیں گھر واپسی پروگرام پر عمل آوری کررہی ہیں۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ ان بیوقوفوں اور امن کے دشمنوں کو اندازہ ہی نہیں کہ مسلمان چاہے وہ کتنا ہی غریب اور پسماندہ کیوں نہ ہو اپنے مذہب سے غیر معمولی طور پر جڑا رہتا ہے۔ وہ زندہ بھی رہتا ہے ایک مسلمان کی حیثیت سے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے ہی موت کو گلے لگاتا ہے۔ بہرحال لوجہاد، گھر واپسی ’’رام زادہ حرام زادہ‘‘ کے نعرے لگانے والوں نے اب ملک میں برتھ کنٹرول کا نیا نعرہ لگانا شروع کردیا ہے۔
حال ہی میں اترپردیش میں چند سادھوؤں بشمول دو مہامنڈیلشوروں کے علاوہ مغربی اترپردیش میں رہنے والی ہندوؤں کی 36 ذاتوں کے لیڈروں کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں نریندر مودی کی این ڈی اے حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ ملک میں پیدائش پر کنٹرول کا قانون نافذ کریں ۔ یہ مطالبہ ایک ایسے وقت کیا گیا جب بمشکل ایک ماہ قبل بی جے پی رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے ہندو خواتین کو کم از کم چار بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا تھا تاکہ ہندومذہب کا تحفظ ہوسکے بقول ان کے فی الوقت ہندو مذہب کے وجود اور اس کی بقاء کو خطرہ لاحق ہے۔ اتوار کو غازی آباد کے داسنا دیوی مندر میں ان سادھوؤں اور ہندوتوا کے نام نہاد لیڈروں کی ایک پنچایت منعقد ہوئی جس میں ان لوگوں نے کہا کہ وہ ملک میں آبادی پر کنٹرول کے لئے ایک قانون کو قطعیت دینے حکومت پر دباؤ ڈالیں گے اس کے لئے بڑے پیمانے پر عوامی تحریک شروع کی جائے گی۔ ان سادھوؤں اور لیڈروں کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں ایک کمیونٹی (مسلمانوں) کو کئی بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے لیکن ہندوؤں کو ہمیشہ یہ بات یاددلائی جاتی ہے کہ انہیں صرف دو بچے پیدا کرنے ہیں۔ پنچایت میں ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ ملک میں آبادی پر قابو پانے کے لئے سخت ترین قانون وضع کیا جانا ضروری ہے تاہم اس قانون کے وضع کئے جانے تک ہندو خواتین کو چاہئے کہ کم از کم 4 بچے ضرور پیدا کریں۔ مہا پنچایت منعقد کرنے والے سادھوؤں اور ذات پات کے لیڈروں کا دعوی ہے کہ وہ بی جے پی کے حامی ہیں لیکن انہیں این ڈی اے حکومت کے ’متوازن اقدام‘‘ سے اس کے بارے میں جو طلسم تھا وہ ٹوٹ گیا ہے۔
مہنت پتی نرسگھانند سرسوتی کے مطابق مہاپنچایت میں سادھوؤں کے علاوہ تیاگی، یادو، گجر، برہمن، جاٹ، راجپوت، ویشیا، سائنی، ہریجن، کھاتک، والمیکی، گرادیہ، کوری، موہیال، گالو اور جیسوال ذاتوں سے تعلق رکھنے والے نمائندوں نے شرکت کی جن کا تعلق مغربی اترپردیش کے 100 مواضعات سے بتایا جاتا ہے۔ مہا پنچایت میں متحدہ طور پر یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ برتھ کنٹرول کے لئے قانون کی تدوین سے گریز پر مرکز کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی تحریک شروع کی جائے گی تاکہ مودی حکومت پر ایسا قانون وضع کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جاسکے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ان سادھوؤں اور ان کے چیلوں نے آر ایس ایس سربراہ موہن بھگوت اور وشوا ہندو پریشد لیڈر اشوک سنگھل کو اپنے خون سے تحریر کردہ مکتوب روانہ کئے جس میں کہا گیا ہے کہ اس مہم کی تائید کریں یا پھر ہندو طبقہ سے اخراج کے لئے تیار ہو جائیں۔ نرسنگھا نند کے مطابق مہا پنچایت نے 25 اور 26 اپریل کو ہر دوا میں ایک ہندو پارلیمنٹ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور موہن بھگوت و اشوک سنگھل سے اس پارلیمنٹ میں شرکت کی درخواست کی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کانگریس کی زیر قیادت سابقہ یو پی اے حکومت کی توسیع لگتی ہے۔ جس کا واحد ایجنڈہ صرف اقلیتوں کو خوش کرنا تھا۔ موجودہ حکومت کے موقف سے بی جے پی کے حامیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مہا پنچایت نے بی جے پی صدر امیت شاہ کو مکتوب لکھتے ہوئے سادھوؤں و ہندو ذاتوں کی نمائندگی کرنے والے قائدین کا اجلاس طلب کرنے پر زور دینے کا بھی فیصلہ کیا تاکہ بی جے پی قیادت کو ان لوگوں کی خواہشات و امنگوں کے بارے میں پتہ چل سکے جنہوں نے پارٹی کو اقتدار دلایا اور مودی کو عہدہ وزارت عظمی پر فائز کیا۔
mriyaz2002@yahoo.com
مودی کے 300 یومی اقتدار میں 600 فسادات
بی جے پی کے اقتدار حاصل کرنے اور نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے 300 دنوں میں ملک کے مختلف مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات کے 600 واقعات پیش آئے ہیں جو ایک بدترین ریکارڈ ہے۔ اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملوں میں مئی 2014ء سے اس وقت اضافہ ہوگیا جب مودی عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوئے۔ اب لگتا ہے کہ مودی حکومت نے فرقہ پرست ٹولوں کو ملک میں گڑبڑ پیدا کرنے کی مکمل چھوٹ دے رکھی ہے۔ تب ہی تو ملک میں ہر روز اوسطاً فرقہ وارانہ فسادات کے دو واقعات ہوئے ہیں، بندوتوا کے بدمعاش و شرپسند عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے بھی کچھ نہیں کہا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ ہاوز کے قریب انسانی حقوق کی کئی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے ایک روزہ بیٹھے رہو احتجاج منظم کیا۔ یہ احتجاج مودی مودی حکومت کے 300 دن کی تکمیل پر کیا گیا۔ حقوق انسانی کی تنظیموں نے ایسے دستاویزات منظر عام پر لائے جس سے پتہ چلتا ہے کہ 300 دنوں کے دوران پیش آئے 600 فسادات میں کم از کم 43 بے قصور افراد مارے گئے۔ ان واقعات میں 149 واقعات ایسے رہے جس میں عیسائیوں اور گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے برعکس باقی 449 واقعات میں فرقہ پرست دہشت گردوں کا نشانہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان تھے یہ فسادات مئی 2014ء سے لے کر جاریہ سال مارچ تک پیش آئے۔ حقوق انسانی کے ممتاز جہد کار اور عیسائی لیڈر ڈاکٹر جان دیال نے بیٹھے رہو احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت میں 300 دنوں میں 600 فرقہ وارانہ فسادات کا پیش آنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حکومت فرقہ پرستوں کے تئیں نرم رویہ رکھتی ہے اور اس نے اشرار کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔اس کے علاوہ مودی کی خاموشی ملک میں حالات کے خطرناک رخ اختیار کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ ڈاکٹر جان دیال کا کہنا تھا کہ عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 168 واقعات پیش آئے۔ عیسائیوں کے خلاف جرائم کے معاملہ میں چھتیس گڑھ سرفہرست ہے جہاں 28 مقامات پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دوسرے نمبر پر مدھیہ پردیش ہے جہاں عیسائیوں پر مظالم کے 26 واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اترپردیش میں 18 اور تلنگانہ میں 15 مقامات پر عیسائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 2015 ء کے پہلے سہ ماہی کا سب سے بدترین واقعہ مغربی بنگال کے رانا گھات میں واقع کانونٹ اسکول میں پیش آیا وہ واقعہ رہا جس میں ایک عمر رسیدہ عیسائی راہبہ کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی۔ اس احتجاجی مظاہرہ کے منتظمین نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں پرزور انداز میں کہا کہ مودی کی حکمرانی کے 300 دنوں میں ملک کے جمہوری ڈھانچے، تعلیم اور نظام تعلیم، حقوق انسانی کی تنظیموں اور انسانی حقوق کے جہد کاروں پر حملوں کے بے شمار واقعات پیش آئے۔ سماج کے محروم طبقات بالخصوص دلتوں، قبائیلیوں، ماہی گیروں اور خواتین کی بہبود کے لئے کام کرنے والوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایاان قائدین نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ان کابینی رفقاء کی سرزنش اور سنگھ پریوار کے ارکان کی شر انگریزی سے روکنے سے انکار کردیا۔ اس احتجاجی دھرنا سے خطاب کرنے والوں میں کانگریس کے اجئے ماکن، رگھوونش یادو (آر جے ڈی) اور علی انور انصاری (جے ڈی یو) کے علاوہ شبنم ہاشمی، رام پنیانی اور نوید حامد شامل تھے۔