ظفر آغا
ایک اور یوم آزادی گزر گیا۔ ہندوستان 1947ء سے اب تک بہت بدل گیا، لیکن ملک میں افلاس، جہالت اور صحت کے مسائل آج بھی ختم نہیں ہوئے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج ملک ترقی کے معاملے میں بہت آگے نکل چکا ہے۔
راقم السطور کی پیدائش 1950ء کی دہائی میں ہوئی، لیکن ہم کو اُس دور کا ہندوستان آج بھی یاد ہے۔ وہ دور ایسا تھا کہ دیہات کے علاوہ شہروں میں بھی مٹی کے کچے مکان ہوا کرتے تھے۔ خود ہمارے محلہ میں برسات کے موسم میں کئی مکانات بارش کی تاب نہ لاکر گرجاتے تھے۔ اس کے علاوہ بجلی بھی چند ہی گھروں میں ہوا کرتی تھی۔ شہر میں چند کاریں بڑے افسروں اور دولت مند افراد کے گھروں کی زینت ہوا کرتی تھیں۔ ٹیلیفون کے نام سے غریب ڈر جاتا تھا۔ لیکن آج ہندوستان کا نقشہ ہی بدل چکا ہے۔ پکی سڑکوں کا جال بچھ چکا ہے اور پکے مکانات صرف شہروں ہی میں نہیں، بلکہ دیہاتوں میں بھی بن چکے ہیں۔ بجلی چند گھنٹے ہی ملے، لیکن کم از کم شہروں کے ہر گھر کو روشن کر رہی ہے۔ اب پاکستان سے آنے والا کوئی رشتہ دار ہم کو یہ طعنہ نہیں دیتا کہ آپ کے گھر میں ٹی وی اور فریج نہیں ہے۔ عموماً گیس چولھے پر کھانا پکتا ہے۔ ہر ہاتھ میں ایک موبائل فون موجود ہے۔ الغرض اس ملک کی ترقی نے ہر گھر کو کچھ نہ کچھ ضرور فائدہ پہنچایا ہے اور ہر ہندوستانی کی زندگی میں تبدیلی لائی ہے۔ اس کے باوجود آج بھی ہندوستان میں کچھ مسائل ایسے ہیں، جو 1947ء میں بھی تھے۔ 1947ء کا سب سے سنگین مسئلہ فرقہ پرستی تھا۔ ملک کا بٹوارہ ہو چکا تھا، لیکن ہندو۔ مسلم فسادات کی آگ میں ہندوستان جھلس رہا تھا۔ حکومت وقت کے سامنے سب سے سنگین مسئلہ یہ تھا کہ فرقہ پرستی کو کس طرح کنٹرول کیا جائے۔ ایسے سنگین وقت میں جواہر لال نہرو نے ملک کو سیکولرازم کا سبق سکھایا اور فرقہ پرستی پر قابو حاصل کی۔ لیکن آج فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ فسادات ملک کے لئے پھر خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ اتر پردیش بالخصوص فرقہ پرستی کا گہوارہ بن چکا ہے۔ مظفر نگر، سہارنپور اور میرٹھ جیسے اضلاع آئے دن فسادات کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔ کب اور کس وقت فساد بھڑک اٹھے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لب لباب یہ کہ فرقہ پرستی کے خطرات نے ایک بار پھر ہم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
اس یوم آزادی کے موقع پر فرقہ پرستی ملک کے لئے ایک بار پھر سنگین خطرہ بن کر ابھری ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اگر ملک کے پندرہ کروڑ مسلمان ترقی کی راہ میں پیچھے رہ جائیں تو ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی اگر عدم تحفظ کی زندگی گزارے گی تو پھر ملک کس طرح ترقی کرے گا؟۔ یہی سبب ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی کثیر آبادی جہالت کا شکار ہے۔ وہ رکشا چلاکر، سڑک کے کنارے دوکانیں کھول کر، سائیکل اور موٹر سائیکل کا پنکچر بناکر دو وقت کی روٹی کما رہے ہیں۔ پھر ان کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ کس وقت فساد ہو جائے اور کوئی ان کا خوانچہ اور چھپر والی دوکان کو لوٹ کر چلتا بنے۔ ان حالات میں وہ اپنی ترقی کے بارے میں کس طرح سوچ سکتا ہے؟۔ یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب اس ملک کی اکثریت اور اس ملک کی حکومت کو تلاش کرنا چاہئے، کیونکہ بقول وزیر اعظم ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا، جب تک کہ ہر ہندوستانی خواہ وہ کسی بھی عقیدہ کا ہو، اس کو ترقی کے برابر مواقع فراہم نہ ہوں۔ یوم آزادی کے اس موقع پر اس ملک کو اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہئے، تب ہی ہندوستان صحیح معنوں میں ایک گلوبل پاور بن سکتا ہے۔
لیکن کسی قوم کی ترقی محض حکومت پر منحصر نہیں ہوتی۔ سچ تو یہ ہے کہ قومیں حکومتیں بناتی اور بگاڑتی ہیں، نہ کہ حکومتیں قوموں کی تقدیر بناتی ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمان اب بھی یہ بات سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جب مسلمانوں نے اس ملک پر حکومت قائم کی تھی تو ان کی تعداد یہاں مٹھی بھر بھی نہیں تھی۔ تقریباً 800 برس تک مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود ملک کی سب سے ترقی یافتہ قوم رہی۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ آج ہم مسلمان ترقی کی دوڑ میں دلتوں کی سطح سے بھی نیچے پہنچ چکے ہیں۔ اس ملک کا شمار دور مغلیہ میں ایک سپر پاور کے طورپر ہوتا تھا۔ بہادر شاہ ظفر کے دور میں بھی ہندوستان کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ لیکن آج اسی ہندوستان کے مسلمان اس قدر لاچار اور مجبور ہیں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ فسادات کا سامنا کیسے کریں؟ تعلیم کس طرح حاصل کریں؟ اور اپنی ترقی کے لئے کیا قدم اٹھائیں؟۔
یہ مسلمانوں کا اپنا قومی مسئلہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ حکومت وقت کی بھی ذمہ داری ہے، لیکن حکومتیں قوموں کے مسائل نہیں حل کرتیں، بلکہ بنیادی طورپر مسلمانوں کو خود اپنی ترقی کی راہیں تلاش کرنی ہوں گی، جس طرح اس نے کبھی قرون وسطی میں تلاش کی تھیں اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا، جب مسلمان خود اس مسئلہ پر غور کریں کہ ان کی اپنی ترقی میں کیا چیزیں رکاوٹ بن رہی ہیں اور کونسی شے ایسی ہے، جو انھیں ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔ اگر اس نقطہ نظر سے مسلم معاشرے پر نظر ڈالیں تو سب سے پہلی خامی مسلم سماج کی یہ نظر آئے گی کہ ہم آج بھی ماضی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ہر قوم اپنی زندگی کی چند بنیادی قدریں مرتب کرتی ہے اور وہ قدریں تغیر زمانہ کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں، لیکن ہم مسلمانوں کی بنیادی خامی یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کو جن زمیندارانہ قدروں کے ارد گرد قائم کیا تھا، وہ قدریں آج بے معنی ہو گئی ہیں، اس کے باوجود آج بھی ہم مدارس کی تعلیم کو اپنے لئے کافی سمجھ رہے ہیں، جب کہ اس آئی ٹی دور میں مدارس کی تعلیم ہمارے لئے کافی نہیں ہے۔
ہم آج بھی زمیندارانہ معیشت میں پھنسے ہوئے ہیں، جب کہ یہ سرمایہ داری کا دور ہے۔ یعنی اگر آپ سرمایہ اکٹھا کرسکتے ہیں تو آپ اس ملک کے عظیم پریم جی بن سکتے ہیں۔ ہم آج بھی بینک کے لین دین کو حرام سمجھ رہے ہیں، جب کہ اس دور میں بینک کا لین دین زندگی کا لازمی جز بن چکا ہے۔ یعنی مسلمان صرف جدید تعلیم حاصل کرنے سے ہی ترقی نہیں کرسکتا، بلکہ اس کو اپنی ترقی کے لئے اپنے نظریۂ حیات کو بھی بدلنا ہوگا۔ نظریہ حیات بدلنے کا معنی یہ نہیں ہے کہ اس کو اپنا مذہب بھی بدلنا ہوگا، تاہم ہم جن زمیندارانہ قدروں کے حصار میں زندگی گزار رہے ہیں، ان میں تبدیلی لانی ہوگی، یعنی مسلمانوں کو ترقی کے لئے جدید قدروں کو تسلیم کرنا پڑے گا اور یہ کام حکومت کا نہیں بلکہ خود اس کا اور اس کے قائدین کا ہے، ورنہ ہم ترقی کی اس دوڑ میں پیچھے ہوتے جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ حکومت وقت فرقہ پرستی جیسے مسائل کو حل نہ کرے، حکومت کا جو کام ہے وہ حکومت کو کرنا چاہئے اور قوموں کے جو مسائل ہیں، انھیں خود قوموں کو حل کرنا چاہئے، تب ہی ہندوستان کی آزادی کا رنگ چوکھا ہوگا۔