مسلمانوں نے ملک کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں

غضنفر علی خان
وی ایچ پی کے انٹرنیشنل سکریٹری چمپت رائے نے نئی شرانگیزی کرتے ہوئے کہا ہیکہ مغل بادشاہوں سے موسوم سڑکوں کے نام بدل دیئے جائیں۔ انہوں نے وزیراعظم مودی سے اپیل کی ہیکہ وہ مغلیہ دور کی تمام علامتوں کو ختم کرکے اپنی وطن پرستی کا ثبوت دیں۔ عجیب بات یہ ہیکہ چمپت رائے عرصہ دراز سے امریکہ و برطانیہ میں رہتے ہیں۔ اگر وہ خود وطن دوست ہیں تو پھر کیوں انہوں نے مغربی ممالک کو اپنی رہائش گاہ بنایا۔ وطن پرستی کا تو اولین تقاضہ یہ ہیکہ آپ ہر صورت میں اپنے مادر وطن میں رہیں، اس کی خدمت انجام دیں، اس کے نشیب و فراز میں ثابت قدم رہیں۔ جیسا کہ ملک کی آزادی کی جنگ میں کئی سوماؤں نے کیا تھا۔ خود قومی رہنما گاندھی جی نے جنوبی افریقہ میں کچھ دن رہنے کے بعد وطن واپسی کی اور انگریزوں کی غلامی سے ہندوستانیوں کو نجات دیدی۔ پنڈت جواہر لال نہرو بیرونی ممالک میں اپنی تعلیم کا سلسلہ ختم کرکے ہندوستان واپس ہوئے آزادی کی جنگ میں ناقابل فراموش رول ادا کیا۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہیکہ جنہیں ملک سے محبت ہوتی ہے وہ وطن سے دور رہ کر وطن پرستی کا وعدہ نہیں کرتے ہیں۔ مغل بادشاہوں سے موسوم سڑکوں کی دوبارہ ’’نام رکھائی‘‘ ملک سے وابستگی کی مظہر نہیں ہوتی۔ تاریخ اپنے اندر بعض ایسی سچائیاں رکھتی ہے جس کو تسلیم کرنا ہی عقل و دانش کے موجود رہنے کا پتہ دیتی ہیں۔ سڑکوں کے نام بدلنے سے تاریخی حقائق نہیں بدل جائیں گے۔ اس حقیقت کو ساری دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی کہ مغلوں نے صدیوں اس ملک پر حکومت کی تھی۔ اس ملک کو نئی تہذیبی اقدار دیئے تھے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ایسے مظاہر مغلیہ دور میں ہوئے کہ جن کی کوئی مثال موجودہ جمہوری دور میں نہیں مل سکتی۔ اگر بالفرض محال چند سڑکوں کے ناموں کو تبدیل کردیا بھی گیا تو کیا یہ ثابت ہوگا کہ مغلیہ خاندان نے کبھی ہندوستان پر حکمرانی نہیں کی تھی۔ وشوا ہندو پریشد ہروقت کوئی نہ کوئی متنازعہ بات کہتی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ یہی ہیکہ اس سرزمین نے کئی حکمرانوں کو موقع دیا۔ خاندان غلامان بھی یہاں حکمرانی کرچکے ہیں۔ خلجی، تغلقی اور کئی ایک نے حکومت کی ہے۔ اگر سڑکوں کے ناموں کی تبدیل سے یہ تاثر وشوا ہندو پریشد دینا چاہتی ہے یا اس کی خواہش رکھتی ہے تو یہ صرف علم تاریخ سے اس کی ناواقفیت کی دلیل ہے۔ جن مغلوں سے انتہاء پسند ہندو تنظیموں کو اتنی نفرت ہے وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ملک میں انتہائی خوشحالی کا دور بھی ان ہی مغلوں نے پیدا کیا تھا۔ تاریخ کی تعریف یوں کی گئی ہیکہ ’’تاریخ صرف واقعات کی کتاب بندی ہوتی ہے‘‘۔ اب واقعات کے اسباب علل پر بحث ضرور ہوسکتی ہے لیکن ان واقعات کو ان events کو تاریخ کی تہہ کو کھرج کر بھی مٹایا نہیں جاسکتا۔ یہ ایک سعی لاحاصل ہوگی۔ اس کے بجائے اگر تاریخ کو اس کے صحیح پس منظر میں دیکھا جائے تو حقائق کی تہہ تک پہنچایا جاسکتا ہے لیکن تعصب اور تنگ نظری کی عینک نکال کر تاریخ کا مطالعہ کئے بغیر ایسا ناممکن ہے۔ مغلوں کے نام کی سڑکیں کوئی آج کی بات نہیں ہے کبھی آزادی کے بعد وی ایچ پی کویہ خیال نہیں آیا کہ شاہجہاں، روڈ اورنگ زیب روڈ، منٹوبریج، آصف علی روڈ (دہلی کی مشہور سڑکیں کیوں مغل حکمرانوں سے موسوم کی گئیں

اور کیوں آج وشوا ہندو پریشد کو ان کے نام بدلنے کا خیال آیا۔ یہ خیال خام اس لئے ان کے ذہنوں میں آیا کہ آج ملک میں فرقہ پرست حکومت (بی جے پی) برسراقتدار ہے جو فرقہ پرستوں کی بات سنتی ہے۔ وشوا ہندو پریشد یا ہندوتوا کے حامیوں نے ایسی کوشش آزادی کے بعد 68 برس کے دوران نہیں کی۔ جس سے یہ محسوس ہوتا ہیکہ موجودہ حکومت ہندوتوا کے خفیہ ایجنڈے کو فوقیت دینا چاہتی ہے کیونکہ وہ ایسا نہیں کرسکتی اسلئے ہندوتوا کی ٹھیکے دار جماعتوں کو ایسا سب کچھ کہنے کی چھوٹ رہتی ہے جس سے ان کا ایجنڈہ روبہ عمل لایا جاسکے۔ سڑکوں کے نام ہی کیا بات ہے ایسی کئی علامتیں ہیں جو ملک کی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ کہاں تک ان علامتوں کو مٹایا جائے گا اور اگر ایسا ہوا بھی تو اس سے تاریخ نہیں بدلے گی۔ مسلمان حکمرانوں کی ملک کیلئے گرانقدر خدمات رہی ہیں۔ ان کے علاوہ خود علماء دین اور علمی سورماؤں نے ملک کی بے حد و حساب خدمات کی ہیں۔ تو کیا آئندہ وی ایچ پی جیسی تنگ نظر تنظیمیں یہ مطالبہ کریں گی کہ ملک کی تاریخ سے جدوجہد آزادی کا باب خارج کردیا جائے کیونکہ اس میں مسلمانوں کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ کتنے علمائے دین نے جان و مال کی قربانی دے کر ملک کو آزادی دلائی۔ اپنے سر کٹائے

لیکن انگریزوں کے آگے کبھی سر جھکایا نہیں۔ کہیں کئی دینی درسگاہوں کے تحصیل یافتہ آزادی کے متوالوں نے جان عزیز نذروطن کردی پھانسی کے پھندے اپنی گردنوں میں باحسرت ڈال لئے۔ تاریخ ایک تسلسل کا نام ہے۔ اس میں موجود مختلف ادوار کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ مغل دور کی تاریخ بھی اس سلسلہ کی کڑی ہے۔ زمانہ قدیم میں توسیع پسندی عام تھی۔ آج کے دور میں اس کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جنگ و جدال کے ذریعہ فتوحات کی جاتی تھیں۔ اب وہ دور ختم ہوگیا لیکن تاریخ کے کسی دور کی علامت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ٹھیک اسی اصول کے تحت تاریخ ہند کے اس حصہ کو بھی تاریخ کی کتابوں سے قلم زد نہیں کیا جاسکتا جب مغل حکمراں تھے۔ اصل بات یہ ہیکہ حال ہی میں دہلی کی اورنگ زیب روڈ کو سابق صدرجمہوریہ عبدالکلام سے موسوم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اسی سے حوصلہ پاکر وی ایچ پی کے انٹرنیشنل سکریٹری چمپت رائے نے ان تمام سڑکوں کے نام بدلنے کا مطالبہ کیا جو مغلیہ حکمرانوں کے نام معنون کی گئی ہیں۔ خدا کا شکر ہیکہ چمپت رائے یا ان جیسے لوگوں نے اس بات پر اعتراض نہیں کیا کہ دہلی کی اس سڑک کو ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام سے بھی موسوم نہ کیا جائے کیونکہ وہ بھی مسلمان تھے۔ اگر انہوں نے میزائل اور اس سے جڑی ٹیکنالوجی کو ترقی دی تھی تو کیا ’’تھے تو وہ مسلمان ہی‘‘ ان کی آخری رسومات بھی اسلامی طریقہ پر ادا کی گئیں۔ یہ بات کہنے کی اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ فرقہ پرست ذہن جو صدیوں قدیم تاریخی حقائق کو تسلیم نہیں کرتا وہ عصری تاریخ کو کیوں تسلیم کرے گا۔ یہ سلسلہ اگر شروع ہوجائے تو پھر مغلیہ علامتوں کو ختم کرنے کی ایک تحریک شروع ہوجائے گی۔ ہوسکتا ہیکہ تاج محل، ہمایوں کا مقبرہ کے سلسلہ میں بھی ایسے مطالبات ہوں۔ اس ذہنیت کو فوراً کچل دینا چاہئے۔ اس کو فروغ دینے یا اس کی ہمت افزائی کرنے سے ملک کی یکجہتی کو نئے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اس ذہنیت کو ’گریہ کشتن روزاول‘‘ کے مصداق فوراً اور سختی کے ساتھ لگام دینی چاہئے لیکن اندیشہ یہ ہیکہ موجودہ مودی حکومت برملا نہ سہی لیکن درپردہ اس ذہنیت کو بڑھاوا دے گی۔ کیوں ایسی آوازیں اسی کے دور میں سنی جارہی ہیں۔ شہروں کی ہوکہ ملک کی تاریخ ہو، ان کو بدلا نہیں کرتے بلکہ تاریخ ہمیں ایسے ادوار بھی فراہم کرتی ہے جن پر ایک قوم کی حیثیت سے ہم فخر کرسکتے ہیں۔