مسلمانوں میں طلاق کا تناسب بہت کم

لڑکی کی پیدائش پر لڑائی جھگڑے
ہندوؤں میںبچپن کی شادیاں لمحہ فکر

محمد نعیم وجاہت
جہاں تک طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دینے اور طلاق دینے والے شخص کیلئے تین سال کی سزا مقرر کرنے کا سوال ہے، یہ صرف اور صرف سیاسی مفادات پر مبنی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کی محاذی تنظیمیں جو مسلمانوں کیلئے کبھی مثبت سوچ نہیں رکھتیں ان کے لئے مسلم بہنوں کی حق تلفی کیلئے آواز اٹھانا صرف ڈرامہ ہے جبکہ وزیر اعظم اور مرکز کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومتوں کو بچپن کی شادیوں کو روکنے کے اقدامات کرنا چاہیئے۔ رضاکارانہ تنظیم ایم وی فاؤنڈیشن کی جانب سے بچپن کی شادیوں سے متعلق کیا گیا سروے ہندوتوا طاقتوں اور تمام حکومتوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ گزشتہ تین سال کے دوران سارے ملک میں 1.5 کروڑ 13تا16 سال عمر کی لڑکیوں کی بچپن کی شادیاں ہوئی ہیں۔ مرکزی حکومت خواتین کوعزت کی زندگی گذارنے کا موقع فراہم کرنا چاہتی ہے تو پہلے ہندو بیوہ خواتین کو دوسری شادی کرنے کا موقع فراہم کرنے کا قانون بنائے، صرف سیاسی مفادات کیلئے طلاق تلاثہ پر قانون سازی کرتے ہوئے مسلم خواتین کے ساتھ انصاف کرنے کا جو تاثر دیا جارہا ہے وہ بے بنیاد ہے۔ اگر نریندر مودی اور بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے چیف منسٹرس مسلم خواتین سے انصاف کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں تو انہیں تعلیم اور ملازمتوں کے علاوہ سیاسی شعبہ میں خصوصی تحفظ فراہم کرتے ہوئے اپنی دیانتداری کا ثبوت پیش کریں۔ اُتر پردیش کے انتخابات میں کامیابی کیلئے بی جے پی نے طلاق ثلاثہ کو موضوع بنایا ۔ 14 اکٹوبر 2016 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے بندیل کھنڈ میں ریالی سے خطاب کرتے ہوئے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ کو قومی موضوع بنادیا ، مسلم خواتین کے ساتھ ناانصافی اور حق تلفی کی وہ شخص بات کررہا تھا جس نے خود اپنی شریک حیات کو ان تمام حقوق سے محروم کردیا۔اگر مودی طلاق ثلاثہ کے بجائے ہندو خواتین کے حقوق ، ہندو بیواؤں کی دوبارہشادیاں ، دیوی داسی نظام کے خاتمہ، ہندو معاشرے میں پائی جانے والی توہم پرستی پر مبنی فرسودہ رسومات، لڑکیوں کا مادر رحم میں قتل کے انسداد ، خواتین پر جنسی حملوں کی روک تھام اور سیاسی شعبہ میں خواتین کو حقیقت میں 33 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے اقدامات کرتے اور سب سے بڑھ کر اپنی پریشان حال اور محبت کیلئے ترسنے اور تڑپنے والی بیوی کو اپنالیتے تو بہت بہتر تھا۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ طلاق کے ’ ط ‘ سے واقف نہ رہنے والے ارون جیٹلی، راجناتھ سنگھ، سشما سوراج پر کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے طلاق ثلاثہ کا بل تیار کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ بے وقوف عوام کو مزید بے وقوف بنانے کی خاطر طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون بنایا جارہا ہے جس کو کابینی منظوری بھی حاصل ہوگئی اور آئندہ ہفتہ پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کا قوی امکان ہے۔
اسلام میں اگر کسی چیز کو سخت ناپسند کیا گیا ہے تو وہ طلاق ہے۔ نکاح ایک مقدس معاہدہ ہے یہی وجہ ہے کہ شادی شدہ زندگی کو بچانے کیلئے خاندانی سطح پر ممکنہ کوششیں کی جاتی ہیں۔ کروڑہا آبادی رکھنے والی مسلم اقلیت کے چند انگلیوں پر گنے جانے والے طلاق ثلاثہ واقعات کو ظالمانہ مذاق بناتے ہوئے قانون تیار کیا جارہا ہے جو حکومت کی جانب سے شریعت میں زبردست مداخلت ہے۔ ہم خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی بھی تائید نہیں کررہے ہیں، اگر کسی مسلم خاتون کے ساتھ اس طرح کا کوئی ظلم ہوا ہے تو اس کو انصاف ملنا چاہیئے۔ مردم شماری 2011 کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ مسلمانوں میںطلاق کا تناسب بہت کم ہے۔ اس کے برعکس معمولی مسئلہ پر بیویوں کو چھوڑنے کا تناسب مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں میں پایا جاتا ہے۔ خوشگوار ازدواجی زندگی گذارنے والے مسلم جوڑوں کی تعداد 87.8 فیصد ہے جبکہ ہندوؤں میں 86.2 فیصد، کرسچنوں میں 83.2 فیصد اور دوسری مذہبی اقلیتوں میں 85.8 فیصد ہے۔ اس طرح مسلمانوں میں بیواؤں کی تعداد 11.1 فیصد ہے جبکہ آبادی 14 فیصد ہے۔ ہندوؤں میں 12.9 فیصد جبکہ آبادی 85 فیصد بتائی جاتی ہے۔ عیسائیوں میں 14.4 فیصد اور دیگر مذہبی اقلیتوں میں 13.3 فیصد پائی جاتی ہے۔ حکومت اس حقیقت سے بھی باخبر رہتے ہوئے بھی بے خبر ہے کہ مسلمانوں میں اکثر بیواؤں کی دوبارہ شادی کردی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلم معاشرہ خواتین کے جذبات و احساسات کی قدر کرتا ہے۔ اس کے برعکس ہندو معاشرہ میں بیواؤں کو نہ صرف منحوس تصور کیا جاتا ہے بلکہ ان سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی وجہ سے اتر پردیش کا برنداون ہندو بیواؤں سے بھرا ہوا ہے۔ہندوؤں میں بے یارومددگار چھوڑی ہوئی عورتوں کی تعداد 0.69فیصد سے زیادہ ہے جبکہ مسلمانوں میں اس کا تناسب 0.67 فیصد ہے۔ راشٹرا وادی مسلم مہیلا سنگھ اور خواتین کے حقوق کا رونا رونے والی دوسری تنظیمیں حکومت کی آلہ کار کے طور پر کام کررہی ہیں۔
رضاکارانہ تنظیم ایم وی فاؤنڈیشن نے سارے ملک میں گزشتہ تین سال کے دوران ہوئی بچپن کی شادیوں کا سروے کیا ہے۔ اس کی رپورٹ مرکزی حکومت کے علاوہ ملک کی تمام ریاستوں کی حکومتوں اور طلاق ثلاثہ کو سیاسی مسئلہ بنانے والی سیاسی جماعتوں کے منہ پر طمانچہ ہے اورمیڈیا کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ سارے ملک میں دیڑھ کروڑ 13 تا 16 سال عمر والی لڑکیوں کی شادیاں انجام پائی ہیں اور غور کرنے والی بات یہ ہے کہ متاثرین میں 43فیصد کا تعلق بی سی طبقہ سے ہے اور 36 فیصد کا تعلق ایس سی طبقہ سے ہے اور 15 فیصد کا تعلق ایس ٹی طبقہ سے ہے۔ یہ انکشافات وزیر اعظم ، بی جے پی اور طلاق ثلاثہ کو موضوع بحث بنانے والوں کیلئے کیا بہت بڑا چیلنج نہیں ہے۔ کیا ان سماج کے ٹھیکہ داروں کو پسماندہ طبقات کی ان کمسن لڑکیوں کی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے یا سن کر اَن سنی کی جارہی ہے، کیا بچپن کی شادیوں کی روک تھام کیلئے 2006 میں تیار کردہ قانون سے وہ واقف نہیں ہیں۔
طلاق ثلاثہ کو بنیاد بناکر اتر پردیش میں کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی مسلم خواتین سے ہمدردی کا ظاہر کررہی ہے۔ مگر ہندو سماج میں بچپن کی شادیوں کے نام پر کمسن لڑکیوں کے ساتھ جو ظلم و زیادتی اور ناانصافیاں ہورہی ہیں اسے کیوں نظرانداز کررہی ہیں۔ ایم وی فاؤنڈیشن کے سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ 13 تا 16 سال کے درمیان ملک میں شادی ہونے والی لڑکیوں کا تناسب 19.4 فیصد ہے جبکہ سڑکوں کا تناسب 47 فیصد ہے۔ آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ریاست تلنگانہ میں بھی گزشتہ 3 سال کے دوران 4 لاکھ بچپن کی شادیاں ہوئی ہیں۔ متحدہ اضلاع میں ضلع محبوب نگر جس میں سرفہرست ہے جس کا تناسب 26.2 فیصد ہے۔ نلگنڈہ کو دوسرا مقام حاصل ہوا ہے جس کا تناسب21.5 فیصد رنگاریڈی میں 21.1 فیصد کھمم اور میدک میں 21 فیصد، ورنگل میں 18 فیصد، عادل آباد میں 17.8 فیصد نظام آباد میں 16.3 فیصد، کریم نگر میں 14.2 فیصد بچھن کی شادیاں انجام پائی ہیں۔ سروے میں یہ حیرت ناک بات کا بھی پتہ چلا ہے کہ جن لڑکیوںکی بچپن میں شادیوں پر ہوئی ہیں ان بیشتر لڑکیاں دشوار کن حالات سے گذر رہی ہیں۔ جو لڑکیاں ٹھیک طرح سے اپنا بچپن نہیں جی سکیں انہیں بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھا جارہا ہے۔ اسکول جانے کی عمر میں کمسن لڑکیوں پر ازواجی زندگی ، خاندانی ذمہ داری اور بچوںکی پرورش کا بوجھ عائدہوگیا تو دوسری طرف ان کی اپنی صحت بھی متاثر ہورہی ہے۔کئی کمسن لڑکیاں اپنی صحت کے بارے میں اپنے شوہروں سے بھی تبادلہ خیال نہیں کرپارہی ہیں۔ جبکہ انہیں مختلف مزدورں کے علاودوسرے کام کاج کے ساتھ خاندان کے تمام ارکان کی خدمت کا بھی بھاری بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔ ان ذمہ داریوں سے انکار کرنے والی کمسن لڑکیوں کو شوہروں اور ساس و سسر کے ظلم و ستم کو بھی سہنا پڑ رہا ہے۔ اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ چند کمسن لڑکیاں ارکان خاندان کی جنسی ہراسانیوں کا بھی شکار ہورہی ہیں۔ انسانی اسمگلنگ اور مسائل کو پارکر کے کئی کمسن لڑکیوں نے خودکشی بھی کرلی ہے۔ بچپن کی شادیاں رچانے والی 67 فیصد لڑکیاں اپنے مسائل کو اپنے شوہروں کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ 90فیصد لڑکیاں اپنے مسائل کو انپے شوہروں کے سامنے پیش کرنے قاصرہیں۔90 فیصد متاثرہ لڑکیاں کئی امراض میں مبتلاء ہیں جن کا علاج بھی نہیں کروایا جارہا ہے۔73 فیصد لڑکیوں کے شوہر روزانہ نشہ کرتے ہیں اور ان سے مار پیٹ کرتے ہیں۔91 فیصد شوہر رات 12 بجے بعد گھر لوٹتے ہیں۔ 35 لڑکیوں کو اپنے مائیکے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ 89 فیصد لڑکیوں کو مختلف مزدوری کرنے کے بعد بھی اپنے شوہروں کا ظلم و ستم سہنا پڑتا ہے۔ 71فیصد لڑکیاں سسرالی ہراسانی کا شکار ہیں۔ 78 فیصد لڑکیاںحاملہ ہونے کے مسائل سے دوچار ہیں۔ ان میں 15 فیصد لڑکیاں ذہنی تناؤ کھوچکی ہیں۔ 37 فیصد لڑکیاں تنہا زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔51 فیصد لڑکیاں بچپن کی شادیوں سے قبل محنت مزدوری کیا کرتی تھیں ، شادی کے بعد 41 فیصد لڑکیاں دبارہ وہی کام کررہی ہیں ۔13 تا 16 کی عمر میں شادیاں کرنے والی لڑکیوں میں صرف 3 فیصد لڑکیوں کو آگے تعلیم جاری رکھنے کی اجازت ملی ہے۔ بچپن کی شادی کرنے والی 81فیصد لڑکیاں اپنے شوہروں کے ساتھ ہیں۔ 11 فیصد لڑکیاں تنہا زندگی گذار رہی ہیں۔ 4 فیصد لڑکیوں کو طلاع ہوگئی ہے اور 2 فیصد لڑکیاں بیوہ ہوئی ہیں۔
لڑکی کی پیدائش پر بھی لڑائی جھگڑے ہوئے ہیں، بچپن کی شادیاں کرنے والی 62 فیصد لڑکیوں کی پہلی زچگی میں لڑکیاں تولد ہوئی ہیں۔ ایسی لڑکیوں کے 74فیصد سسرالی رشتہ داروں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور 50 فیصد لڑکیوں کے شوہروں نے اپنی ناراضگی جتائی ہے۔ زچگی کے 4 تا5 ماہ بعد لڑکیوں سے محنت مزدوری کروائی گئی جو بھی مزدوری ملی ہے اسے شوہروں یا ساس، سسر نے حاصل کرلیا ہے۔ بچپن کی شادیوں کی روک تھام کیلئے 2006 میں سخت قانون بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جونیول جسٹس قانون ہے۔ لڑکیوں کے جسمانی استحصال و ہراسانی کے خلاف قانون بنایا گیا ہے۔ حق تعلیم قانون موجود ہے۔ اس طرح کے کئی قوانین ہونے کے باوجود بچپن کی شادیاں بڑے پیمانے پر انجام دی جارہی ہیں جو ہمارے وزیر اعظم اور ہندوتوا طاقتوں اور میڈیا کو دکھائی نہیں دیتا۔ کیا اس کے خلاف سخت قدم اٹھانا اور کمسن لڑکیوں کے ساتھ انصاف کرنا حکومتوں کی ذمہ داری نہیں ہے؟ جو قوانین پہلے سے ہیں اس پر ہی عمل نہیں کیا جارہا ہے، مگر طلاق ثلاثہ پر قانون بنانے کیلئے ساری توانائی جھونک دی جارہی ہے۔
infonayeem@gmail.com