محمد ریاض احمد
ہندوستان میں ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرست عناصر کی تعداد ان آوارہ کتوں سے زیادہ گئی ہے جو سڑکوں پر بھونکتے اور اچھے خاصے لوگوں کو کاٹ لیتے ہیں۔ یہ کتے سڑکوں کے کنارے قائم کردہ ان عارضی جھونپڑیوں میں رہنے والے اس غریب مزدور کے شیر خوار کو بھی نوچ نوچ کر زخمی کر جاتے ہیں جو اپنی اور ارکان خاندان کی زندگی کی بقاء کے لئے خون پسینہ ایک کردیتا ہے۔ جہاں تک کتوں کا سوال ہے ان کے بارے میں حیوانات کے ڈاکٹروں اور ماہرین حیوانات کا کہنا ہے کہ کتے کو اگر آپ شیر کی کھال بھی اڑھا دیں تو وہ کتا ہی رہتا ہے اس کی عادت و فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھونکنے والے کتے کترتے نہیں اور کترنے والے کتے بھونکتے نہیں ایسا لگتا ہے کہ کتوں کی یہ فطرت فرقہ پرستوں میں بھی آگئی ہے
اس بارے میں قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ یہ فرقہ پرست کتوں کی صحبت میں رہے یا پھر کتوں کو اپنے کیمپ میں طلب کرکے ان کی عادت اطوار کو اپنا لیا اور یہ سب کچھ شاید میڈیا اور عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی جنہوں نے ایک چائے والے کی حیثیت سے سفر کرتے ہوئے عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ ان کے اس اعزاز حاصل کرنے کے بعد سے ہی کشمیر سے لے کر کنیا کماری غرض ملک کے کونے کونے سے فرقہ پرست کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ حال ہی میں حقوق انسانی کے جہد کاروں کا نئی دہلی میں ایک جلسہ عام منعقد ہوا جس میں فرقہ پرست کتوں کی حرکات و سکنات بلکہ کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ملک میں مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے ساتھ ہی فرقہ پرست کتوں کی طاقت میں اضافہ ہوگیا جس کے نتیجہ میں صرف 300 دن یعنی 10 ماہ کے دوران 600 فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوئے ان میں بے شمار مسلمان اور عیسائی مارے گئے۔ گرجا گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ ہمارے وزیر اعظم بیرونی دورہ پر ہندوستان کی ایک ایسے ملک کی حیثیت سے تصویر پیش کررہے ہیں جہاں تمام مذاہب کا احترام کیا جاتا ہے کسی کے ساتھ کوئی امتیاز برتا نہیں جاتا، مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف کوئی فساد یا دنگا برپا نہیں کیا جاتا
لیکن گزشتہ 11 ماہ کے دوران ملک میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں اس بارے میں امریکی صدر بارک اوباما کے وہ بیانات ہی کافی ہیں جن میں انہوں نے 10 لاکھ کا سوٹ زیب تن کرتے ہوئے ان کے ساتھ چائے نوش کرنے والے مودی اور ان کی حکومت کو ایک طرح سے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مشورہ دیا کہ ہندوستان کو ایک اور تقسیم سے بچانے کے لئے مذہبی عدم رواداری کے خطرناک رجحان پر قابو پایا جائے۔ ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائی کو درپیش خطرات کا بظاہر حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر نے مودی سے یہ تک کہہ دیا کہ اگر آج مہاتما گاندھی ہوتے تو انہیں ہندوستان کی حالت زار کا مشاہدہ کرکے صدمہ ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ مرکز اور ملک کی چند ریاستوں میں بی جے پی کے اقتدار پر آنے کے باعث سنگھ پریوار کے کچھ قائدین اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں وہ اول فول بکے جارہے ہیں اور یہ سب کچھ حکومت میں اہم مقام و مرتبہ حاصل کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ آر ایس ایس قیادت اور وزیر اعظم نریندر مودی کی توجہ حاصل کرتے ہوئے سادھوی نرنجن سمرتی ایرانی اور گریراج سنگھ کی طرح مرکزی کابینہ میں جگہ حاصل کریں یا پھر کم از کم کسی بورڈ کی صدارت پر ہی فائز ہو جائیں۔ ایسے ہی عقل کے ماروں میں ریاڈیکل ہندو گروپ ہندو مہا سبھا کی نائب صدر سا دھوی دیوا ٹھاکر کے نام کا اضافہ ہوا ہے۔ سادھوی کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ شکل و صورت اور ہیت کے لحاظ سے وہ مرد لگتی ہے نا عورت بلکہ تیسری صنف کی نمائندگی کرنے والی لگتی ہے۔ دوسرے تنگ نظر سادھوؤں اور سادھویوں کی طرح اس نے بھی اپنی زبان کھولی ہے۔ عام طور پر سادھو اور سادھویوں کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ دنیا اور دنیا والوں سے دور رہ کر گیان دھیان میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ انسانوں جانوروں سب کے ساتھ بہتر سلوک کرتے ہیں ان میں خود غرضی ، مفاد پرستی کا عنصر نہیں پایا جاتا، لیکن اس کے برعکس آج کل برساتی مینڈکوں کی طرح کچھ مرد و خواتین نکل آئیں ہیں جو خود کو سادھو اور سادھوی قرار دیتے ہوئے اپنے آپ کو اور سارے ہندو سماج کو دھوکہ دے رہے ہیں جو لوگوں کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرتے ہیں ۔ فسادبرپا کراتے ہوئے اپنے مفادات اور ناپاک عزائم کی تکمیل کرتے ہیں وہ کسی بھی طرح مذہبی نہیں ہوسکتے چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان یا پھر سکھ یا عیسائی۔
ایسے لوگ تو سارے ملک کے دشمن ہوتے ہیں۔ ان کا شمار ملک کے غداروں میں کیا جانا چاہئے۔ ہم بات کررہے تھے سادھوی دیوا ٹھاکر کی۔ اس کا کہنا ہے کہ ملک میں ہندوؤں کی بہ نسبت مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ جس سے ہندوؤں کی بقاء کوخطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی پر کنٹرول کے لئے نریندر مودی حکومت کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے مسلمانوں اور عیسائیوں کی نسبندی کرنی ہوگی۔ جند ہریانہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس سادھوی نے اشتعال انگیزی کی حد کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں دن بہ دن مسلم اور عیسائی آبادی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اس رجحان پر کنٹرول کے لئے مرکز کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنی ہوگی اور پھر مسلمان و عیسائیوں کو نسبندی کے لئے مجبور کیا جانا چاہئے تاکہ وہ اپنی آبادی میں اضافہ نہ کرسکیں۔ سادھوی نے جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی پر کنٹرول کی بات کہی وہیں ہندو خاندانوں پر زور دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں جس سے دنیا پر ہندوؤں کا دبدبہ قائم ہو۔ سادھوی دیواٹھاکرنے صرف اسی بکواس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ مسجدوں اور گرجا گھروں میں ہندو دیوتاؤں اور دیویوں کی مورتیاں رکھی جانے کی وکالت کی جائے۔ سادھوی نے مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کا مجسمہ نصب کرنے پر بھی زور دیا ہے۔ سادھوی کے ان نفرت آمیز ریمارکس پر تبصرہ کرنے والوں نے اس سادھوی کے بارے میں بہت ساری باتیں کیں جس میں کہا گیا ہے کہ اتنی خوبصورت ہونے کے باوجود سادھوی دیوا ٹھاکر نے ایک لڑکے کی شکل اختیار کررکھی ہے اور شادی شدہ زندگی سے لطف اندوز ہونے کی بجائے خود کو شادی کے منڈپ سے دور رکھا ہے
اور حیرت اس بات کی ہے کہ وہ ہندو عورتوں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا مشورہ دے رہی ہے اگر اسے ہندوؤں کی آبادی اور ہندوتواء کی اتنی ہی فکر ہے تو پہلے اپنا گھر بساتی جبکہ حقیقت میں وہ اپنے نفرت انگیز بیانات کے ذریعہ ہندوستان جیسے ایک عظیم اور خوبصورت گھر کو تباہ و برباد کرنے کے مشورہ دے رہی ہے۔ اس جاہل سادھوی کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس خوبصورت گھر ہندوستان میں ہندو مسلم سکھ عیسائی نام کے حسین پھول کھلتے ہیں اور یہ گھر وہی تباہ کرسکتا ہے جو اس گھر کا دشمن ہوتا ہے۔ سادھوی کو کم از کم اس بارے میں غور کرنا چاہئے کہ اس کے بیانات ہندوستان کی تباہی کا سامان تو نہیں کررہے ہیں۔ اس کے مقاصد اور عزائم کے بارے میں وہ خود جانتی ہے لیکن خود بچے پیدا کرکے ان کی ذمہ داریاں نبھانے سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے وہ دوسری خواتین کو بچے پیدا کرنے کا مشورہ دے رہی ہے۔ اس سوکھی کوک کو یہ جان لینا چاہئے کہ زراعت صرف زرخیز زمین پر ہوتی ہے چٹانوں پر نہیں، ہاں چٹانوں پہاڑوں اور پہاڑی سلسلہ کو صرف توڑا اور پھوڑا جاتا ہے۔ اور جہاں تک شادی کے منڈپ کا سوال ہے ایسی خصلت کی لڑکیوں اور عورتوں کی قسمت اس قدر خراب ہوتی ہیں کہ شادی کا منڈپ بھی ان سے نفرت کرنے لگتا ہے۔
یہ نہ صرف اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے بلکہ ساری زمین کے لئے بوجھ بن جاتی ہیں۔ ان کا ذہن بھی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ کبھی مثبت سوچ ہی نہیں سکتے۔ ایک تبصرہ نگار نے بہت خوب تبصرہ کیا ہے اس کا کہنا ہے کہ اس سادھوی کی رگوں میں فرقہ پرستی کا ایسا زہر دوڑ رہا ہے جس کے نتیجہ میں وہ بچے پیدا کرنے اور ان کی پرورش کے قابل بھی نہیں۔ بابو گوتم نامی تبصرہ نگار نے شنتانو نامی تبصرہ نگار کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے پرزور انداز میں کہا کہ اس طرح کی بکواس کرنے والے سادھوی اور سادھویاں دراصل معاشرہ کی گندگی ہوتے ہیں۔ اس ترقی یافتہ دنیا میں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ ان حالات میں ہندوستان کو ایک ایسا سماجی اور قانونی میکانزم وضع کرنا چاہئے جس سے اس طرح کے کیڑوں، مکوڑوں پر قابو پایا جاسکے، لیکن خراب بات یہ ہے کہ ہماری حکومت انہیں ووٹوں کے تھیلوں کی حیثیت سے دیکھ رہی ہے۔ سادھوی دیوا ٹھاکر جیسے عناصر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ملک میں ضرور ایمرجنسی کا نفاذ کیا جانا چاہئے لیکن اس طرح کی گندگی کی صفائی کے لئے ایمرجنسی نافذ کی جائے تو اچھا رہے گا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کی نسبندی کے بارے میں شیری پی سی نامی ایک تبصرہ نگار نے کہا کہ سادھوؤں اور سادھویوں کے ایسے نظریات کی نسبندی کی جانی چاہئے۔ ریگی جارج نامی تبصرہ نگار نے سادھوی دیواٹھاکر کے بیان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے ایک ہجڑہ قرار دیا اور کہا کہ سادھوی دیواٹھاکر خود ایک انسان کا بچہ پیدا نہیں کرسکتی، دوسروں کو بچہ پیدا کرنے کا مشورہ دے رہی ہے۔ وہ کبھی ماں بننے کا اعزاز حاصل نہیں کرسکتی اس لئے کہ وہ ایک ہجڑہ ہے اور ہجڑہ عورتوں میں شمار ہوتا ہے اور نا مردوں میں اس کا تو صرف فرقہ پرستوں میں شمار ہوسکتا ہے۔ بنوائے نماس نامی ایک تبصرہ نگار کے مطابق اس سادھوی کو فوری پاگل خانہ منتقل کیا جانا چاہئے۔
mriyaz2002@yahoo.com