مسجد اقصیٰ کی مرمت و تحفظ ریاست حیدرآباد کا تعاون

آرکائیوز کے ریکارڈ سے ڈاکٹر سید داؤد اشرف
بیت المقدس کو تین ہزار سال سے دنیا کے ایک مقدس ترین مقام کی حیثیت سے جو عظمت و اہمیت حاصل ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے ۔ یہ مسلمانان عالم کا قبلہ اول بھی ہے ۔ مسجد اقصیٰ بیت المقدس ہی میں موجود ہے ۔ بیت المقدس کی اسرائیل سے بازیابی کو مسلمانان عالم نے اپنا عزیز مقصد حیات بنالیا ہے ۔ مسجد اقصیٰ کی عمارت کی مرمت ، اسے پائیدار بنانے اور اس کی عمارت یا احاطہ کی جدیدکاری کے لئے بین الاقوامی سطح پر مالیہ فراہم کرنے کی زبردست مہم باقاعدہ طور پر 1923 میں چلائی گئی تھی ۔ اس زمانے میں میر عثمان علی خان ریاست حیدرآباد کے حکمران تھے ۔ اس اہم اور نیک کام کے لئے انہوں نے ایک لاکھ روپے کا گراں قدر عطیہ دیاتھا ۔ آج ایک لاکھ کی قدر بہت گھٹ گئی ہے لیکن اس زمانے میں اس کی قدر آج کے کروڑوں روپیوں کے برابر تھی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست حیدرآباد کی حکومت اور حکمران اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں ، انسانی تہذیب و تمدن کی بقا اور ارتقاء کے لئے اپنے رول سے نہ صرف یہ کہ پوری طرح آگاہ تھے بلکہ اس سلسلے میںنہایت فراخ دلانہ اور حد درجہ عملی مظاہرہ بھی کیا کرتے تھے ۔ مسجد اقصیٰ کی درستی ، تحفظ اور استحکام کے لئے ریاست حیدرآباد کے عطیے کی تفصیلات ریاستی اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے محافظ خانے میں بکھری ہوئی اور دبی ہوئی دستاویزات میں درج ہیں ۔ ان کی چھان بین کے نتائج کو اس مضمون میں پیش کرنے سے قبل بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے تاریخ اور تمدنی پس منظر کے متعلق کچھ لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ ذیل میں اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، لاہور سے حاصل کردہ معلومات ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔

بیت المقدس جو دنیا کے قدیم ترین شہروں میں گنا جاتا ہے یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے یکساں طور پر مقدس ہے ۔ قدیم ترین تاریخی شہادت سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ یہاں مصریوں کی عملداری تھی حضرت یعقوب علیہ السلام نے ایک عرصے کے بعد بیت المقدس کی بنیاد ڈالی جس کی وجہ سے بیت المقدس کی آبادی وجود میں آئی ۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے ایک ہزار سال قبل مسیح میں بیت المقدس کو فتح کیا اور ان کے جانشین حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد اور شہر کی تعمیر جدید کروائی ۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے اوائل میں بابل کے حکمران بخت نصر نے یروشلم کو فتح کرنے کے بعد نہ صرف ہیکل سلیمانی کو جلادیا اور یروشلم کو تہس نہس کردیا بلکہ یہودیوں پر سخت ظلم و ستم کئے بعد ازاں فلسطین ایرانیوں اور یونانیوں کے زیر اقتدار رہا ۔ ھیرود اعظم کے عہد میں ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر ہوئی اور پھر بیت المقدس میں رونق نظر آنے لگی ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ کا مرکز بھی بیت المقدس اور اس کے قرب وجوار کا علاقہ تھا ۔ عہد رسالت میں بیت المقدس کی عظمت و تقدیس برقرار رہی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سولہ ماہ تک بیت المقدس کی سمت نماز ادا کرتے رہے اور مدینہ منورہ کو ہجرت کرنے کے کچھ عرصہ بعد مسجد الحرام کی طرف نماز پڑھنے لگے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سفر معراج کا تعلق بھی بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ ہے ۔ یہی وجہ ہے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد بیت المقدس مسلمانوں کا تیسرا مقدس شہر ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خلافت کے دور میں عرب افواج فلسطین میں داخل ہوئیں ۔ 13ھ م 634 ء میں قیصر کی افواج کو شکست ہوئی ۔ یہاں کے قلعہ بند شہر ایک ایک کرکے عربوں نے حاصل کرلئے ۔ عیسائیوں نے چند روز مدافعت کے بعد صلح کے لئے رضامندی ظاہر کی مگر یہ شرط رکھی کہ امیر المومینین حضرت عمرؓ خود آکر صلح کا معاہدہ لکھیں ۔ حضرت عمرؓ نے اس شرط کو منظور فرمایا اور وہ رجب 16ھ میں بیت المقدس روانہ ہوئے جہاں معاہدہ تحریر پایا ۔ حضرت عمرؓ نے بیت المقدس میں صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب جہاں اپنے ہمرائیوں سمیت نماز ادا کی تھی ، ایک مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا ۔ یہی مسجد بعد میں مسجد اقصیٰ کہلائی ۔ اموی خلافت کے دور میں بیت المقدس کو خاص اہمیت حاصل ہوئی ۔ عبدالملک کے عہد میں اس شہر کی عظمت و وقار میں مزید اضافہ ہوا ۔ اس کے جانشین ولید نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی تکمیل اور تزئین کی ۔

مسجد اقصیٰ کی مرمت و تجدید کے لئے چندہ جمع کرنے کی غرض سے فلسطین سے جو ایک وفد ہندوستان بھیجا گیا تھا وہ حیدرآباد بھی آیا تھا ۔ یہ وفد اپنے ساتھ ریاست حیدرآباد کے فرمان روا میر عثمان علی خان آصف سابع کے نام ہندوستان کے دائرے اور گورنر جنرل لارڈ ریڈنگ کا ایک تعارفی خط اور حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری کا تعارفی معروضہ ساتھ لایا تھا ۔ اس وفد میں وفد کے صدر محمد مراد سپریم مسلم کونسل فلسطین کے رکن کے علاوہ مفتی حیفہ بھی شامل تھے ۔ ان حضرات نے اپنے مکتوب مورخہ 8 دسمبر 1933 ء کے ذریعہ مذکورہ بالا خط اور معروضے کے علاوہ وفد کی اپیل امین جنگ بہادر ، صدر المہام پیشی کو روانہ کی تاکہ ان معروضات کو آصف سابع کی خدمت میں پیش کیا جاسکے ۔ لارڈ ریڈنگ نے آصف سابع کے نام اپنے مکتوب مورخہ 9 نومبر 1923 ء میں وفد کے ارکان کا تعارف کرواتے ہوئے ان کے دورے کا مقصد و اغراض بیان کئے تھے ۔ حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے معروضے مورخہ 12 نومبر 1923 میں لکھا تھا کہ مرمت کی غرض سے جتنی رقم درکار ہے آصف سابع تنہا جملہ رقم مرحمت فرماسکتے ہیں اور ان کی روایتی فیاضی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کی قوی امید ہے کہ وفد کی اپیل پر نہایت ہمدردی کے ساتھ غور کیا جائے گا ۔ فلسطینی وفد نے اپنی اپیل میں لکھا تھا کہ مشہور عالم مسجد اقصیٰ کے علاوہ بیت المقدس میں دو اور مساجد 75ھ میں تعمیر کروائی تھیں ۔ یہ مساجد تیرہ سو سال گزر جانے کے باوجود بھی اپنی ناقابل بیان خوبصورتی کے ساتھ محفوظ ہیں ۔ اس طویل عرصے میں پانچ مسلم خلفاء عبدالملک بن مردان ، المامون ، سلطان صلاح الدین ، سلطان سلیم اور سلطان سلیمان نے ان مساجد کی ترمیم و مرمت کروائی ۔ پہلی جنگ عظیم سے دو سال قبل خلیفہ محمد پنجم نے ان مساجد کی مرمت کروانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا ۔ کیونکہ ان کو اطلاع دی گئی تھی کہ یہ اسکیم ملتوی ہوگئی ۔ 1922 ء کے آغاز پر فلسطین کے مسلمانوں کے مقامات کی نگہداشت اور مذہبی امور کی یکسوئی کا اختیار فلسطینی مسلمانوں کی منتخب کردہ جماعت سپریم مسلم کونسل کو دیا گیا ۔

اس کونسل نے قائم ہوتے ہی ان مساجد کی مرمت کروانے پر توجہ دینی شروع کی ۔ اس کونسل نے خلافت کی وزارت وقف سے درخواست کی کہ ایک قابل آرکیٹیکٹ کو روانہ کیا جائے تاکہ وہ ان مسجدوں کی موجودہ حالت کے بارے میں رپورٹ پیش کریں ۔ اس درخواست پر نامور مسلم آرکیٹکٹ کمال الدین چار مددگاروں کے ساتھ بیت المقدس بھیجے گئے ۔ جنہوں نے تفصیلی معائنہ کے بعد جلد از جلد مرمت کا مشورہ دیا۔ انھوں نے مرمت کا تخمینہ ایک لاکھ پچاس ہزار مصری پاؤنڈ بتائے ۔ اپیل کے آخر میں لکھا گیا کہ فلسطین کے مسلمانوں نے اس سلسلے میں اپنا حصہ ادا کرنے کے بعد اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی غرض سے مسلم دنیا کے نام مالی امداد کی اپیل جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس وفد کے دورۂ ہندوستان کا مقصد یہی ہے ۔ ان کاغذات (لارڈ ریڈنگ کا خط ، حکیم اجمل خان و ڈاکٹر مختار احمد انصاری کا معروضہ اور وفد کی اپیل) کے ملاحظے کے بعد آصف سابع نے فرمان مورخہ 9 دسمبر 1923ء کے ذریعے دریافت کیا ’’ہماری طرف سے جو چندہ دینا مناسب ہے ، اس کی مقدار کیا ہوگی ۔ کل کونسل (کابینہ) میں طے کرکے جلد مجھے اطلاع دی جائے ۔ میرے خیال میں چندہ ایک لاکھ کلدار سے کم نہ ہونا چاہئے مگر اس کا اطمینان بھی ضروری ہے کہ جس کام کے واسطے رقم دی جائے گی وہ اس کام میں جائز طور پر صرف ہوگی‘‘ ۔ اس فرمان کی تعمیل میں دوسرے روز باب حکومت کے اجلاس میں اس کارروائی پر غور کیا گیا اور یہ تجویز ہوئی کہ اس نیک کام کے لئے ایک لاکھ کلدار کا چندہ دینے کا آصف سابع نے جو خیال ظاہر کیا ہے اس سے جملہ اراکین باب حکومت اتفاق کرتے ہیں اور اس امر کا اطمینان کرنے کی نسبت کہ یہ رقم اسی کام میں جائز طور پر صرف ہوگی یا نہیں ، رزیڈنسی سے دریافت کرنے کے بعد کیفیت پیش کی جائے گی ۔ باب حکومت کی قرارداد پیش ہونے پر اسی روز آصف سابع کا یہ فرمان صادر ہوا ’’باب حکومت کی رائے درست ہے کہ اس نیک کام کے لئے ایک لاکھ کلدار کا چندہ دیا جائے مگر مناسب ہوگا کہ پہلے اس کی اطلاع ڈیپوٹیشن کو دی جائے اور ان سے یا ممکن ہو تو رزیڈنسی سے پہلے استفسار کرلیا جائے کہ جس کام کے واسطے یہ رقم دینے کا مقصد ہے اسے اس کام پر جائز طور پر صرف کرنے کا کیا طریقہ ہوگا ۔ اس کی اطلاع دی جائے تو رقم کے ایصال کا انتظام کیا جائے گا‘‘ ۔ فرمان میں دی گئی ہدایت کے مطابق فلسطین کے وفد سے دریافت کیا گیا کہ جس کام کے لئے ایک لاکھ کلدار چندہ دینے کی تجویز ہے اس کی انجام دہی اور رقم کے جائز طور پر صرف کرنے کا کیا طریقہ ہوگا ۔ نظامت جنگ بہادر صدر المہام (وزیر) سیاسیات نے اس سلسلے میں وفد کے اراکین سے بالمشافہ گفتگو کی ۔ وفد کے اراکین نے کہا کہ اگر چندے کی یہ رقم فلسطین کے برٹش ہائی کمشنر کے ذریعے بھیجی جائے تو انھیں اس میں کوئی عذر نہ ہوگا ۔ باب حکومت کی رائے میں بھی یہی طریقہ مناسب تھا کہ چندے کی یہ رقم رزیڈنسی کے توسط سے فلسطین کے ہائی کمشنر کے پاس ارسال کی جائے تاکہ اس بات کا اطمینان ہوسکے کہ وہ رقم مسجد اقصیٰ کی مرمت وغیرہ کے لئے جائز طور پر صرف کی جائے گی ۔ آصف سابع نے بذریعہ فرمان مورخہ 2 جنوری 1923 باب حکومت کی رائے کو منظوری دیتے ہوئے ہدایت کی ’’رقم مذکور بذریعہ رزیڈنسی فلسطین کے برٹش ہائی کمشنر کے پاس بھیج دی جائے اور لکھا جائے کہ تعمیر و ترمیم میں جیسے جیسے رقم صرف ہوتی جائے اس کی اطلاع ہم کو ملتی رہنی چاہئے‘‘ ۔ آصف سابع نے ان ہدایت کی تعمیل میں سر رشتہ ہائے فینانس اور سیاسیات کی جانب سے فوراً اقدامات کئے گئے ۔

مسجد اقصیٰ کی مرمت وغیرہ کے لئے آصف سابع نے ایک لاکھ کلدار کا جو چندہ مرحمت کیا اس کے لئے وفد کے اراکین اور سپریم مسلم کونسل فلسطین کی جانب سے دلی شکریہ ادا کیا گیا اور وفد کے اراکین نے یہ خیال ظاہر کیا کہ آصف سابع کا یہ فیاضانہ عطیہ ہندوستان کے مسلمانوں پر عمدہ اثر ڈالے گا ۔ وہ آصف سابع کی تقلید کرتے ہوئے کثیر مقدار میں چندہ دیں گے اور مسجد اقصیٰ کی ترمیم و تعمیر کی اسکیم کامیاب رہے گی ۔ وفد کے صدر محمد مراد نے یہ بھی لکھا کہ ہزمجسٹی ملک معتصم کے پیش کردہ عطیے کو سپریم مسلم کونسل نے جب قبول نہیں کیا تھا تو اسے اس امر کا پورا اطمینان تھا کہ فیاض حکمران آصف سابع ضروری رقم کا بندوبست کردیں گے ۔ اب انھوں نے جو فیاضانہ عطیہ مرحمت کیا ہے اس سے اس کی امیدوں کی تکمیل ہوئی ہے ۔