مستقبل کے عصری سرکاری دواخانے

ڈاکٹر مجید خان
نئی تلنگانہ کی حکومت پوری سنجیدگی کے ساتھ عوام کے علاج کیلئے نہ صرف نئے دواخانے کھولنے کی اسکیمات بنارہی ہے بلکہ پرانے دواخانوں کو عصری بنانا چاہتی ہے ۔ کیا یہ ممکن ہے ۔ حکومت کی جو مالی حالت ہے اس سے یہ ممکن نظر نہیں آتا ۔
آج کی جو صورتحال ہے وہ سارے ہندوستان کی ہے ۔ بروقت اور اچھا علاج اگر آپ چاہتے ہیں تو خانگی دواخانوں کا رخ کرنا مجبوری ہے ۔ اس میں بھی زمرہ بندی ہے ۔ اوسط گھرانوں کیلئے کچھ دواخانے ہیں جو قرب و جوار میں ہیں مگر جب مشہور دواخانوں کا رخ کرتے ہیں تو ان دواخانوں کے اخراجات ادا کرنے پڑتے ہیں ۔ یہیں سے ڈاکٹری کی پرانی عظمت و وقعت ختم ہوتی ہے اورکاروباری دھندے شروع ہوتے ہیں ۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آوٹ پیشنٹ کے مریضوں کے چارجس شریک ہوئے مریضوں سے کم ہیں ۔جب میں نے تفصیلات معلوم کی تو پتہ چلا کہ کئی مریض کسی نہ کسی اسکیم کے تحت شریک ہوتے ہیں اور ان اسکیمات کے چارجس مقرر ہیں خاص طور سے انشورنس کمپنیوں کے ۔ اسی وجہ سے وہ مریض جسکا کوئی بیمہ نہ ہو یا کوئی اسکیم نہ ہو خسارے میں رہتا ہے ۔ بیمار ہونے سے پہلے اپنی مالی استطاعت پر غور کیجئے ۔ اگر آروگیہ شری اسکیم کے تحت آتے ہیں تو ان کی شرائط پر توجہ ضرور دیں ۔ ہر بڑے دواخانے میں آروگیہ شری مِتر رہا کرتا ہے مگر وہ مختصر اور غیر تشفی بخش جواب دیتے میں ماہر ہوتا ہے کیونکہ اس کو اپنے سیل فون سے فرصت کہاں۔ مگر میری درخواست مسلمان فلاحی اداروں سے ہے ۔ آروگیہ شری اور اسی طرح کی حکومتوں کی اسکیمات سے عوام واقف کیوں نہیں ہیں ۔ ان اسکیمات کی خوب اور مسلسل تشہیر ہونی چاہئے ۔ کوشش کرنے کے باوجود میں نے اردو میں کوئی ایسا معلوماتی کتابچہ نہیں دیکھا ۔ اخبارات میں بھی تفصیلات شائع ہونی چاہئے ۔
اوسط طبقہ خاص طور سے وہ لوگ جو غیر سرکاری ملازم ہیں یا کاروبار کرتے ہیں ان کے لئے کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ اسی لئے انشورنس کروانا ناگزیر ہوتا جارہا ہے ۔ ان جب کہ حکومت اس انشورنس شعبے میں اور زیادہ مراعات دے رہی ہے اس کا فائدہ اٹھانا مناسب ہے ۔
کافی اچھی رقم کا انشورنس کروانا چاہئے ۔ میاں بیوی اور دو بچے کم از کم 5 لاکھ کا انشورنس آجکل کی بڑھتی ہوئی گرانی اور ڈالر کی مہنگائی دواخانوں کی بلوں میں بے تحاشہ اضافہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کروانا چاہئے اور ایک بات یاد رکھئے Cashless Insurance ہی لیجئے اور ہمیشہ پابندی سے قسطیں ادا کرتے رہئے ۔ انشورنس کے ایجنٹ سے مراسم اچھے رکھئے وہی خدانخواستہ ضرورت پڑے تو دواخانہ جا کر آپ کے اخراجات کے تعلق سے آپ کی مدد کرے گا ۔
یہ سب چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن پر باریک بینی سے غور کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ کسی بھی اقرار نامے Agreement میں بہت باریک اور چھوٹی عبارت میں لکھا ہوا شرائط کی جڑ ہوتا ہے ۔ انجانے لوگ جو خاص طور سے دیہی علاقوں سے آتے ہیں ان مسائل سے واقف نہیں ہوتے ۔ بیماریاں خاص طور سے مہلک بیماریاں اگر ہونگی تو کسی اور کو ہونگی ہم کو تو نہیں ۔
ناگہانی صورتحال جب پیدا ہوتی ہے تو پھر اچھے دواخانوں میں شریک تو کروادیتے ہیں مگر جب اخراجات کے تعلق سے ان کو آگاہ کیا جاتا ہے تو جب پریشانی شروع ہوتی ہے جب چیف منسٹر ریلیف فنڈ کی لمبی لائین میں شامل ہونا پڑتاہے ۔ اس پس منظر میں گورنمنٹ NIMS جیسے دواخانے کھولنا چاہ رہی ہے ۔ بی بی نگر میں عنقریب ایک ایسا دواخانے کھلنے والا ہے ۔ کیا اب بھی نمس غریبوں کیلئے ہے ۔ نمس کے اخراجات بھی کارپوریٹ دواخانوں سے کم نہیں ہیں ۔ کم از کم جو مریضوں کا استحصال کارپوریٹ دواخانوں میں ہورہا ہے اس کو تو ختم کرنا چاہئے ۔ ورنہ صورتحال جیسی کی ویسی رہے گی۔