مسافر کی نماز

مسافر کی نماز
سوال : صبح فجر کی نماز کے بعد روزانہ وطن سے تقریباً 100 کیلو میٹر جانا اور 100 کیلو میٹر واپس ہونا ہوتا ہے جبکہ وہاں میری مستقل گورنمنٹ کی ملازمت ہے۔ کیا ایسی صورت میں مجھے ظہر ، عصر ، عشاء قصر پڑھنا چاہئے یا مکمل نماز ادا کرنا ہے ؟
از:محبوب نگر
جواب : جو شخص اپنے وطن اصلی (یعنی وہ مقام جہاں وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مستقل سکونت کی غرض سے رہائش پذیر ہو) یا وطن اقامت (یعنی وہ مقام جہاں وہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ رہنے کے مقصد سے قیام کرے) تین دن کی مسافت (تخمینا 48 میل سفر ) کا ارادہ کر کے اپنے شہر کی آبادی سے باہر نکل جائے تو وہ مسافر ہے ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد دوم ص : 130 میں ہے : (من خرج من عمارۃ موضع اقامۃ قاصدا مسیرۃ ثلاثۃ ایام و لیا لیھا بالسیر الوسط مع الاسترا حات المعتادۃ صلی الفرض الرباعی رکعتین)۔
پس صورت مسئول عنہا میں اگر آپ اپنے وطن سے تقریباً 100 کیلو میٹر کا سفر طئے کر کے اپنی ملازمت کو پہنچتے ہیں اور واپس ہوجاتے ہیں تو آپ شہر کی آبادی کو پہنچے تک مسافر ہی ہیں ۔ دوران سفر چار رکعت والی نماز کو آپ قصر کریں گے جبکہ آپ تنہا پڑھ رہے ہوں اور اگر کسی مقیم امام کے پیچھے جماعت سے ادا کر رہے ہوں تو چار ہی پڑھیں گے۔

کفن کی مقدار
سوال : کفن کیسا ہو ؟ مقدار کفن کیا ہو ؟ مرد و عورت اور بچے کیلئے کتنے کپڑوں میں کفن دینا مستحب ہے ؟
(2 مرد اور عورت کو کفن پہنانے کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟
(3 اگر کوئی غریب مرجائے تو اسے نئے کفن کے بجائے دھوئے ہوئے پاک کپڑے میں کفناسکتے ہیں یا نہیں ؟
قاری ایم ایس خان ، اکبر باغ

جواب : میت کو کفن دینا فر ض کفایۃ ہے ۔ مرد کے کفن میں تین کپڑے مسنون ہیں ۔ چادر ، تہہ بند کفنی اور عورت کے کفن میں پانچ کپڑے : چادر ، تہہ بند ، کفنی ، سینہ بند اوڑھنی۔
چادر کی مقدار اتنی ہونی چاہئے جو سر سے لیکر پیر تک کافی ہو۔ تہہ بند بھی گویا چادر ہی ہے لیکن پہلی چادر سے کسی قدر چھوٹی ، یہ بھی سر سے پیر تک ہوتی ہے ۔ کفنی ایک قسم کا کرتہ ہے جو گردن سے لیکر پیر تک ہوتا ہے مگر اس میں آستین و کلی نہیں ہوتی ۔ سینہ بند کی مقدار سینہ سے لیکر زانوں تک اور اوڑھنی تین ہاتھ طول دو بالشت عرض۔
اگر کفن مسنون نہ ملے تو مرد کو صرف دو کپڑے چادر ، تہہ بند اور عورت کو تین کپڑے چادر ، تہہ بند اوڑھنی بھی کافی ہے ۔ اگر اس قدر بھی نہ ملے تو جو کچھ مل جائے لیکن کم سے کم اتنا کپڑا ضروری ہے جو پورے جسم کو چھپاسکے ورنہ لوگوں سے طلب کر کے پورا کریں یا جس قدر جسم کھلا رہے اس کو گھانس وغیرہ سے چھپادیں۔ اگر مطلق کپڑا میسر نہ آئے تو پاک گھانس میں میت کو لپیٹ دیں اور قبر میں رکھ کر نماز پڑھ دیں۔
قدرت ہونے پر مرد کو تین اور عورت کو پانچ کپڑوں سے کم نہیں دینا چاہئے اور اس میں ز یادتی بھی درست نہیں۔ چھوٹے بچوں کو ایک دو کپڑوں میں بھی کفنادیں تو جائز ہے لیکن بہتر یہ کہ پورا کفن ہو۔ جو بچہ مرا ہوا پیدا ہو یا حمل گرجائے اس کو ایک کپڑے میں لپیٹ دینا کافی ہے (کفن مسنون کی ضرورت نہیں)کفن انہی کپڑوں کا ہونا چاہئے جن کا پہننا حالت زندگی میں جائز تھا ۔ پس مردوں کیلئے خالصہ ریشمی یا کسم و زعفرانی رنگ کے کپڑوں کا کفن درست نہیں۔ البتہ عورتوں کو دیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کیلئے زندگی میں ان کپڑوں کا پہننا جائز و درست ہے لیکن سب کیلئے سفید کپڑا ہی افضل ہے ۔ کفن کیلئے کپڑا نیا ہو تو احسن ہے ورنہ پرانا بھی کافی ہے ۔

کفن پہنانے سے قبل کفن میں تین یا پانچ مرتبہ کسی خوشبودار چیز کی دھونی دینا مستحب ہے ۔ مرد کو کفن دینے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے کفن کی چادر کسی تخت پر بچھاکر اس پر تہہ بند بچھائیں ، پھر تہہ بند پر کفنی نصف بچھاکر باقی نصف میت کے سر کی طرف چھوڑیں۔ اس کے بعد میت کو غسل کے تختہ سے لاکر اس پر لٹادیں اس طرح کہ دونوں ہاتھ دونوں پہلو میں رکھیں۔ سینہ پر نہ رکھیں۔ نہ نماز کی طرح رکھیں اور کفنی پہنائیں اس طرح کہ میت کا سر کفنی کے گریباں سے باہر نکال کر سر کی طرف رکھی ہوئی آدھی کفنی کو میت پر پھیلادیں پھر تہہ بند لپٹیں۔ اس طرح کہ میت کے بدن پر پہلے تہہ بند کی بائیں جانب رکھیں پھر دائیں جانب تاکہ دائیں جانب بائیں جانب کے اوپر رہے۔ پھر اس کے بعد چادر اسی طرح لپیٹ دیں کہ دائیں جانب بائیں کے اوپر رہے۔

عورت کے کفن پہنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے کفن کی چادر کسی تخت پر یا بوریئے پر بچھاکر اس پر سینہ بند اور سینہ بند پر تہہ بند بچھائیں پھر تہہ بند پر کفنی بچھاکر عورت کو اس پر لٹادیں اور کفنی پہنائیں۔ پھر (خوشبو لگانے اور اعضاء سجدہ پر کافور ملنے کے بعد سر کے بالوں کے دو حصے کر کے سینہ پر (دائیں بائیں) کفنی کے اوپر رکھ دیں اور اوڑھنی (کھلی ہوئی) سر اور بالوں پر اوڑھادیں، اس طرح کہ بالوں کے دونوں حصے آخر تک اوڑھنی کے دونوں کناروں کے نیچے چھپ جائںے پھر اس کے بعد تہہ بند لپٹیں پھر سینہ بند (سینہ کے اوپر بغلوں سے نکال کر زانوں تک ) پھر چادر لپیٹ دیں۔ اس طرح کہ ہر دائیں جانب بائیں جانب کے اوپر رہئے۔ کپڑے کی دھجیوں سے دونوں کنارے اور درمیان کمر سے نیچے باندھ دیں تاکہ ہوا وغیرہ سے کفن کھل نہ جائے ۔ جنازہ کے اوپر جو چادر اڑھاتے ہیں وہ کفن میں داخل نہیں۔

مرثیہ گو شاعرہ خنساء
سوال : قبیلہ قیس کے خاندان کیک مشہور مرثیہ گو شاعرہ کا صحیح نام کیا ہے ؟ خنساء یا خنسا Khansa, or Khunsa
نذیر احمد ، بنگلور
جواب : قبیلہ قیس کے بنو سلیم سے تعلق رکھنے والی مشہور مرثیہ گو شاعرہ کا نام تماضر بنت عمر و بن الحارث بن الشرید ہے۔ ان کی ناک کی ندرت و جمال کی وجہ سے ان کا نام ’’خنساء‘‘ ’’خاء ‘‘ کے فتحہ کے ساتھ مشہور معروف ہوگیا۔ ان کی ولادت 575 ء میں ہوئی۔ بعثت نبوی کے بعد وہ اپنے قوم بنو سلیم کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اشعار کو پسند فرماتے تھے۔ وہ نہایت بہادر و دلیر خاتون تھیں، جنگ قادسیہ میں اہل اسلام کو جنگ و قتال پر ابھارنے میں اہم رول ادا کیا اور 664 ھ میں وفات پائیں۔

ماں کی زیادتی
سوال : اسلام میں والدین کا درجہ بہت بڑا ہے لیکن کیا والدین پر ان کے بچوں کے کوئی حقوق نہیں۔ میری پریشانی یہ ہے کہ میری والدہ گھر میں سب سے لڑائی جھگرا کرتی ہیں۔ ہم لوگ چار بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ والد کا انتقال ہوچکا ۔ سب کے شادیاں ہوچکے، ایک بہن باقی ہے ۔ میں نماز پابندی سے پڑھتا ہوں۔ قران کی تلاوت بھی الحمد للہ کرتا ہوں ، میں والدہ کو بہت سمجھایا لیکن وہ کسی کی بھی بات نہیں مانتی اور سارے لوگوں کو یہ بولتی پھرتی ہے کہ میرا لڑکا مجھ پر ظلم کرتا ہے اور رو کر بیان کرتی ہیں اور لوگ مجھے غلط سمجھ رہے ہیں۔ میں بدنام ہوگیا ہوں۔ ہر مہینہ گھر کے خرچ کیلئے پیسے دیتا ہوں، وہ تو میری ذمہ داری ہے، وہ مجھ سے ہی نہیں بلکہ میری ساری بہنوں سے بھی لڑتی ہیں۔ اب میں کیا کروں ۔ میں اور میرا چھوٹا بھائی والدہ اور بہن کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ خدا کے واسطے میری مدد کیجئے اور مجھے راستہ بتالیئے۔
عبدالقادر ، ریڈ ہلز

جواب : یقیناً ماں باپ کا مرتبہ نہایت بلند ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : وقضی ربک الاتعبدوا الا ایاہ و بالوالدین احسانا اما یبلغن عندک الکبر احدھما او کلاھما فلا تقل لھما اف ولا تنھر ھما و قل لھما قولا کریما و اخفض لھا جناح الذل من الرحمۃ و قل رب ارحھما کما ربینی صغیرا۔
ترجمہ : اور آپ کے رب نے حکم فرمادیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔ اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اف‘‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو اور ان دونوں کیلئے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھلائے رکھو اور دعاء کرتے رہو اے میرے رب ! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا تھا ۔ (سورۃ نبی اسرائیل 24-23/17 )
سورۃ لقمن میں ارشاد ہے : ووصینا الانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن و فصلہ فی عامین ان شاکر لی ولو الدیک الی المصیر۔ وان جا ھدک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلا تطعھما وصا حبھما فی الدنیا معروفا و اتبع سبیل من اناب الی ثم الی مرجعکم فانبئکم فیما کنتم تعملون۔

ترجمہ : اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (نیکی کا) تاکیدی حکم فرمایا جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ) میں برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے (اسے یہ حکم دیا) کہ تو میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ میری ہی طرف لوٹنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کی کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو جس کا تجھے کچھ علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کرنا اور دنیا میں ان کا اچھے طریقہ سے ساتھ دینا اور اس شخص کی پیروی کرنا جو میری طرف … اطاعت کا سلوک اختیار کیا ۔ پھر میری ہی طرف انہیں پلٹ کر آن ہے تو میں تمہیں ان کاموں سے باخبر کروں گا جو تم کرتے رہے تھے۔ (سورۃ لقمٰن 10-14/31 )حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنی والدہ کو اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہے تو اس نے سوال کیا ۔ اے ابن عمرؓ کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا تو حضرت عبداللہ بن عمر نے جواب دیا کہ نہیں وضع حمل کی ایک تکلیف کا بھی حق ادا نہیں ہوا۔ لیکن تم نے اچھا سلوک کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے مختصر عمل پر اجر کثیر عطا فرمائے گا۔
ایک حدیث شریف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خاک آلود ہو ، خاک آلود و خاک آلود ہو وہ شخص جو اپنے والدین کو بڑھاپے کی عمر میں پائے یا ان میں سے ایک کو یا دونوں کو پائے اور جنت میں داخل نہ ہوں۔ (مسلم)
پس ماں ، ماں ہے ، خواہ نیکو کا رہو یا نہ ہو ، مشفق ہو یا نہ ہو ، سمجھدار ہو یا نہ ہو ، ہر حال میں ماں ہے ۔ ان کی اطاعت فرمانبرداری ، خدمت اور ادب و احترام کا حکم ہے ۔ بطور خاص بڑھاپے میں ان کی سختی کو برداشت کرنا ہی عزیمت اور بڑا کام ہے ۔
یقیناً آپ کیلئے یہ امتحان کا وقت ہے ، صبر و تحمل سے کام لیجئے ، ان کی ہر زیادتی و ناداں کو اپنے حق میں بہتر جانے اور ان کے ادب کو ملحوظ رکھیں۔ دنیا والوں کی فکر نہ کریں۔ جنت کسی کو یونہی نہیں ملتی ۔آپ کی والدہ آپ کے لئے جنت ہے اگر آپ صبر کا دامن تھامے رہیں اور ان کی ز یادتیوں کو آخرت کے اجر و ثواب کو پیش نظر رکھتے ہوئے نظر انداز کردیں اور تھوڑی سی بے ادبی دین و دنیا کی ناکامی و نامرادی ہے۔