مزہ کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے

ڈاکٹر مجید خان
نفسیاتی امراض کا جو اظہار خاندانوں میں ہوا کرتا ہے ان میں بہت کم یکسانیت ہوا کرتی ہے ۔ چند سنگین امراض ہیں جن میں ساری دنیا میں دوسرے امراض کی طرح ایک ہی قسم کی علامتیں نظر آیا کرتی ہیں ۔ ان کی تشخیص ڈاکٹری اصولوں کی پابند ہوا کرتی ہیں ۔ بجز اسکے شخصیت سے جڑے ہوئے اور ماحول میں پیدا ہوئے کئی ایسے الجھن بھرے پیچیدہ مسائل ہیں جن کی گتھی سلجھانا آسان نہیں ہوتا ہے ۔ ایک ایسا ہی کیس میں نیچے بیان کررہا ہوں ۔

ٹھیٹ آندھرا کی ایک قابل خاتون ہیں جو کئی سال سے مسلسل اپنے شوہر کے علاج کیلئے پابندی سے میرے پاس آیا کرتی ہیں ۔ ویسے تو میں اپنی طرز کی تلگو بول لیتا ہوں مگر کرشنا ضلع کے تعلیم یافتہ لوگوں سے گفتگو کرنے میں مجھے تکلف ہوتا ہے ۔ جو لوگ انگریزی بولتے ہیں وہاں تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ۔ مگر یہ میاں بیوی صرف شدھ تلگو ہی میں مجھ سے گفتگو کرتے ہیں اور نہ صرف خود پابندی سے آتے ہیں بلکہ بے شمار دوسرے مریضوں کو بھی لایا کرتے ہیں ۔
میں نے اس خاتون سے کئی مرتبہ کہا کہ چونکہ یہ نفسیات کا معاملہ ہے اس لئے کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ آپ تلگو جاننے والے ماہر سے رجوع ہوں ۔ مگر اس کا عقیدہ بڑا مستحکم رہا ہے اور اس کا کہنا ہیکہ ہم آپ کی تلگو سے مطمئن ہیں ۔ خیر یہ اسکے عقیدے کی بات ہے اس مرتبہ وہ اپنی ایک رشتہ دار 20 سالہ اکلوتی نوجوان لڑکی کو لیکر آئی ۔ تفصیلات کچھ یوں ہیں ۔

والدین کو اور کوئی اولاد نہیں ۔ نفسیاتی اعتبار سے یہ ایک اہم نکتہ ہے ۔ اکلوتی اولاد کی شخصیت و غور و فکر ایک خاص انداز کی ہوتی ہے اور انکی شخصیتیں مغرور اور حاکمانہ ہوتی ہیں ۔ والدین ان پر ضرورت سے زیادہ ہی محبت نچھاور کرتے ہیں اور انکے واجبی اور غیر واجبی مطالبات نہ صرف والدین پورے کرتے ہیں بلکہ ان کی غلامی میں آجاتے ہیں ۔ اس نفسیات کا اکلوتے بچوں کو علم نہیں ہوتا اور وہ اس کو اپنی قدرت شخصیت ہی سمجھتے ہیں اور اپنی زیادتیوں کا احساس انہیں نہیں ہوتا ۔ گھر کے ماحول کے باہر ان کو مشکلات کا احساس ہوتا ہے خاص طور سے جب دوست احباب ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور انکے غیر معمولی تکبر کو چیلنج کرتے ہیں ۔ مجھے اس لڑکی کی خاندانی تفصیلات معلوم نہیں تھیں ۔ ماں باپ دونوں ساتھ تھے ۔

میرے پاس لائے جانے کی وجہ یہ تھی کہ یہ لڑکی خانگی میڈیکل کالج کی سال دوم کی طالبہ تھی ۔ پہلا سال خیر و خوبی سے گذر گیا ۔ 50 لاکھ روپئے دے کر داخلہ لیا گیا تھا ۔
دوسرے سال میں آنے کے بعد یعنی پہلا سال کامیاب کرنے کے بعد اس نے اعلان کیا کہ مجھے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل نہیں کرنی ہے اور کالج جانا یکلخت بند کردیا ۔ والدین کے اصرار پر کئی مرتبہ اقدام خودکشی کر بیٹھی جس کے بعد والدین نے بھی اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔ اس دوران مقامی ماہر امراض نفسیات سے رجوع کروایا گیا اور علاج دواؤں کے ساتھ شروع کیا گیا جو اس کو سخت ناپسند تھا ۔

جیسا کہ عام طور پر ہوا کرتا ہے ۔ ایسی باتوں کو جہاں تک ہوسکے لوگ اپنی حد تک چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔ یہ ضروری ہے ورنہ آجکل کے سوشیل نیٹ ورکنگ کے زمانے میں چیلیں کم اور بھینسیں زیادہ اڑ رہی ہیں ۔ خاص طور پر اپنے ہی کنبے کے افراد سے پوشیدہ رکھنا ضروری ہے ورنہ شادی بیاہ کے وقت غیر ضروری چہ میگوئیاں ہونے لگتی ہیں ۔

چونکہ کئی مہینے گذر چکے تھے اور اس کی خالہ جو میرے پاس آیا کرتی ہے انہوں نے مسئلے کو سمجھ لیا گوکہ ان سے بھی پوشیدہ رکھا گیا تھا ۔ انہوں نے حیدرآباد آنے کا مشورہ دیا ۔ اکلوتی لڑکی کا اس طرح کا ہٹ دھرمی کا برتاؤ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس کی مرضی کے سامنے سرجھکانے کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا تھا جب اسکی خالہ نے مجھ سے ٹیلیفون پر بات کی تو میں نے ایک ہی شرط رکھی کہ اس کو زبردستی نہ لایا جائے ۔ اگر وہ اپنی مرضی سے آنا چاہتی ہے تو ٹھیک ورنہ لانا بیکار ہوگا ۔ اس لڑکی کے دماغ میں یہ بات بیٹھی ہوگی کہ ڈاکٹروں کے پاس مجھے لے جاکر کالج واپس جانے پر اصرار کریں گے جو اس کو قطعی پسند نہیں تھا ۔ بہرحال وہ لوگ حیدرآباد پہنچ ہی گئے ۔ خیر میری اپنی کھوج کا سلسلہ شروع ہوا ۔

میں نے لڑکی سے پوچھا کہ کیا مجھ سے مشورہ کرنے سے اسے کوئی اعتراض ہے ، تو اس نے کہا کہ اگر تھا تو شروع میں تھا مگر اب میں اپنی مرضی سے آئی ہوں اور اپنے آپ کو سمجھنا چاہتی ہوں ۔ میں پوری طرح سے تعاون کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ پوری مستعدی کے ساتھ پہلے سال کالج گئی اور اچھی طالبعلم سمجھی جارہی تھی اور امتحانات کی بہترین تیاری کی تھی ۔ پہلا پرچہ اس نے اچھی طرح دیا ۔ سنا کہ دوسرے دن اس نے جس مضمون کی تیاری کی وہ دوسرے دن بلکہ تیسرے دن تھا ۔ جیسے ہی وہ کالج گئی اس کو اس فاش غلطی کا احساس ہوا تو اس کو غشی سی آگئی ، اس کے سامنے ہر چیز چکرانے لگی اور اس کی سہیلیاں اس کا مذاق اڑانے لگیں ۔ اس نے اپنے والد سے بات کی تو انہوں نے ہمت دلائی اور مشورہ دیا کہ تم کچھ بھی لکھ سکتی ہو وہ لکھ دو ۔ وہ امتحان کے کمرے میں روتی رہی ۔ اس نے ایک لفظ نہیں لکھا اور خالی جوابی بیاض دے کر آگئی اور ظاہر ہے فیل ہوگئی ۔ میں اس سانحہ عظیم کے صدمہ کو سمجھ سکتا ہوں اور اسکے بعد اس کالج سے ، اپنی سہیلیوں سے ، تعلیم سے اس کو نفرت ہونا ،لازمی تھا ۔ یہ بات میری سمجھ میں آگئی ۔

مگر اس کے بعد اس نے تیاری کی اور دوسرے امتحان میں اچھے نمبروں سے کامیاب ہوئی مگر اس کے بعد تعلیم ترک کردی ۔ اب معلوم ہورہا تھا کہ وہ انتقام لینا چاہ رہی تھی اور اپنی سہیلیوں کو یہ دکھانا چاہ رہی تھی کہ وہ ایک معمولی بھول کی وجہ سے فیل ہوئی تھی نہ کہ قابلیت کم ہونے کی وجہ سے ۔
اس حد تک تو بات سیدھی تھی اور لڑکی کا باغیانہ رویہ قابل فہم تھا مگر اتنا سخت گیر رویہ کالج کے تعلق سے ناقابل فہم تھا ۔ کوئی بھی کالج جانے کی صلاح دے تو وہ اقدام خودکشی کربیٹھتی تھی ۔

اس باغیانہ روش کے پیچھے عام طور پر بچوں میں خاص نفسیاتی عوامل کارفرما رہتے ہیں جن میں اکثر کٹر اور غصے والے والد یا والدہ یا پھر گھر میں شخصیتوں کی کشیدگی وغیرہ وغیرہ ۔ میں نے جب دریافت کیا تو میاں بیوی دونوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایک زبان ہو کر یہ کہا کہ ہم دونو ںکے درمیان کسی قسم کا جھگڑا یا بحث و تکرار نہیں ہوتی ہے ۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کی لڑکی کافی عمر تک بستر میں پیشاب کرتی تھی تو نہ صرف جواب ہاں میں ملا بلکہ ماں کہنے لگی کہ ڈاکٹر صاحب تقریباً 12 سال کی عمر تک یہ سلسلہ جاری رہا اور ہم لوگ انتہائی متفکر رہے تھے اور لڑکی بھی بڑی سہمی سہمی رہتی تھی ۔ یہ ایک پہلا سراغ مجھے ملا مگر اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی ۔ گھر کا ماحول انتہائی خوشگوار اور لڑکی کو بھی کسی قسم کی شکایت نہیں تھی تو پھر ماجرا کیا تھا ۔ وہ کونسا ڈر و خوف تھا جو اس لڑکی کو 12 سال کی عمر تک کھائے جارہا تھا ۔ خیر میری کھوج ادھوری رہ گئی اور بچی کی ہٹ دھرمی کی کوئی خاص وجہ نہیں معلوم ہوئی۔

پھر میںنے کھوج کا ایک اور زاویہ نکالا ۔ میں نے پوچھا کہ آپ لوگوں کو ایک ہی لڑکی ہے ۔ کیا یہ قدرتی عمل ہے یا پھر دانستہ طور پر آپ لوگ یہ خاص قسم کی انوکھی خاندانی منصوبہ بندی کئے ہیں ۔ یہ سوال سب کیلئے بڑا معنی خیز نکلا اور نفسیاتی بھانڈہ بہرحال پھوٹ گیا ۔ میں سمجھ رہا تھا کہ یہ لوگ کہیں گے کہ پہلی زچگی کے بعد کچھ مسائل پیدا ہوئے تھے اور اس کے بعد حاملہ ہونا ممکن نہیں تھا ۔ اب میں دیکھ رہا تھا کہ جواب کون دے گا ۔ عورت کی آنکھیں نیچی ہوگئیں اور شوہر صاحب مورچہ خود سنبھال لئے ۔ انکا کہنا تھا کہ یہ انکا ذاتی فیصلہ تھا کہ وہ شادی کے بعد لاولد رہنا چاہتے تھے مگر ممکنہ غیر پسندیدہ چہ میگوئیوں کو پیدا نہ ہونے کے لئے ایک حمل کے بعد اور بچے نہیں چاہے ۔ یہ میرا قطعی فیصلہ تھا ارادہ بدلنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا ۔ شوہر کے اس سخت رویے سے میں حالات کو سمجھ گیا اور صرف شوہر سے اکیلے میں گفتگو کرنے پر عمل ہوا کہ انکی بات پتھر کی لکیر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اس قسم کی حاکمانہ شخصیت اگر صدر خاندان کی ہو تو پھر سب لوگ اطاعت پسند ہی ہوجاتے ہیں اور خاموش احتجاج جس طرح سے لڑکی 12 سال تک کرتی رہی وہ شروع ہوجاتا ہے ۔ 12 سال کے بعد وہ ہاسٹل میں تھی ۔ اب ڈاکٹری کی تعلیم میں وہ اڑیل ٹٹو بن گئی ۔ ظاہر ہے یہ تمام گتھیاں جلدی سے حل نہیں کی جاسکتی ہیں مگر سب لوگ اپنے اپنے طور پر سمجھ گئے کہ والد کا غیر لچکدار رویہ خاموش بغاوت کو پروان چڑھاتا رہا ۔ اس کے بعد لڑکی علحدگی میں بات کرناچاہی اور خوش ہوئی کہ اس کی آنکھوں پر سے پردے ہٹادئے گئے ۔ ماں بھی اکیلے میں حالات پر نئی روشنی ڈالی ۔

قصہ مختصر یہ کہ لڑکی سے میں نے کہا کہ آپ ڈاکٹری نہیں کرنا چاہیں تو نہ کریں مگر متبادل کیا ہوگا اس پر غور کیجئے ۔ اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ! پہلے آپ نے بہت اچھا کیا کہ دواؤں کو موقوف کروادیا ۔ دوسری بات جو میری سمجھ میں آئی وہ یہ کہ میرے اکلوتے پن پر ایک نیا انکشاف ہوا اور خاموشی سے آپ نے بغیر اعلان کئے میرے والد کو قصوروار ٹھہرایا ۔ گو کہ یہ نفسیاتی حقیقت ہے مگر میں اپنے والد کو بے انتہا چاہتی ہوں اور انکے بغیر رہ نہیں سکتی ۔ وہ خاموشی سے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی باہر والے شخص کے سامنے جو کہ آپ ہیں اپنی خطاؤں کا اظہار کیا اور باہر جا کر بے تحاشہ رونے لگے ۔ پہلی مرتبہ میں نے ان کو روتے ہوئے دیکھا ۔ وہ مجھے سینے سے لگا کر معافی چاہنے لگے ۔ ڈاکٹر صاحب ہم سب لوگوں کے پیروں تلے زمین کھسک گئی ۔
اب میری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ والدین کو خوش رکھوں اور ان کی مرضی کے خلاف کام نہ کروں ۔
اگر اپنا کہا وہ آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزہ کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے