میرا کالم مجتبیٰ حسین
کچھ عرصہ پہلے ہم نے حیدرآبادی خواتین اہل قلم کے بارے میں ایک بے ضرر سا کالم لکھا تھا جس میں ہم نے حیدرآباد میں لکھنے والیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی پر اپنے انداز میں تبصرہ کیا تھا بلکہ خیرمقدم کیا تھا ۔ اس کے جواب میں ہمارے پاس حیدرآباد کی بعض لکھنے والیوں کے تاثرات بلکہ تعصبات موصول ہوئے ہیں ۔ آپ تو جانتے ہیں کہ ادبی معاملات میں اس طرح کے تاثرات کو ہم ہمیشہ ہی خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے آئے ہیں ، کیونکہ ادب میں جب تک اختلاف کی گنجائش نہیں ہوگی اور مختلف نقاط نظر سامنے نہیں آئیں گے تب تک ادب اور وہ بھی اردو ادب بالکل ترقی نہیں کرسکتا ۔ ایک خاتون اہل قلم نے ایک ادائے بے نیازی کے ساتھ ہم پر قدامت پرست ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم آزادیٔ نسواں کے قائل نہیں ہیں اور عورتوں پر مردوں کی بالادستی اور فوقیت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں (کاتب صاحب! مردوں کے ’’م‘‘ پر پیش نہ لگائیں ، اگرچہ خاتون افسانہ نگار نے مردوں کو مُردوں ہی لکھا ہے) ان کا کہنا ہے کہ ’’ادب مُردوں کی اجارہ داری نہیں ہے ۔ اب اگر خواتین ادب کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں تو آپ کیوں خواہ مخواہ پریشان ہورہے ہیں ؟‘‘ ۔ نعوذ باللہ ! یہ ہم پر سراسر تہمت ہے ۔ ہم تو ابتداء ہی سے مردوں اور عورتوں کی مساوات کے قائل ہیں اور ہماری عین خواہش یہ رہی ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہئے ۔ اس طرح زندگی کے کسی شعبے میں ترقی ہو یا نہ ہو ، شانہ بشانہ چلنے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے ۔ یوں بھی زندگی میں سفر کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی جتنی کہ ہمسفر کی ہوتی ہے ۔ آزادی نسواں کو ہم نہایت ضروری سمجھتے ہیں ، کیونکہ ہمارے حساب سے آزادیٔ نسواں کا فائدہ عورتوں کے مقابلے میں بالآخر مردوں کو ہی زیادہ پہنچتا ہے ۔ ہم پر قدامت پرست ہونے کا الزام بھی بے وقت کی رانگی سا لگتا ہے ۔ ہم عمر کی اس منزل میں ہیں جہاں نہ صرف قدامت پسند اور دقیانوسیت بلکہ ترقی پسندی اور روشن خیالی بھی ہمارے حق میں بے معنی سی اصطلاحات بن چکی ہیں ۔ فقر و فاقہ ، استغنا و توکل اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی یہ وہ منزل ہوتی ہے جہاں آدمی جبلّتوں ، جذبوں ، لذتوں اور محسوسات سے اوپر اُٹھ کر سادھو سنت بن جاتا ہے ۔ کچھ لوگ اسے عرفان کی منزل بھی کہتے ہیں ۔ خدارا کم از کم ان حالات میں ہماری تپسیا کو بھنگ نہ کریں اور ہم پر ایسے بے بنیاد الزامات عائد نہ کریں ۔ آج ہم اصل میں اس کالم کے حوالے سے خود اپنے ہی ایک گھریلو مسئلے کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہورہے ہیں ۔ ہم نے اپنے کالم میں ایک جگہ اپنی نصف بہتر کے بارے میں لکھا تھا کہ موصوفہ پڑھی لکھی تو ضرور ہیں لیکن ان کا لکھنا پڑھنا صرف دھوبی کا حساب کتاب لکھنے یا مہینے بھر کے گھریلو سامان کی فہرست مرتب کرنے تک محدود ہے ۔ ہمارے دوستوں کے جب ٹیلی فون آتے ہیں اور ہم گھر پر نہیں ہوتے تو وہ ہمارے دوستوں کے نام اور ٹیلی فون نمبر بھی لکھ لیتی ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ بسا اوقات غلط لکھتی ہیں ۔ ارے صاحب ! اتنی سی بات پر وہ اتنی برہم ہیں کہ ہماری ساری لکھائی پڑھائی کو چولھے میں جھونک دینے پر تُل گئی ہیں ۔ انھوں نے جو کچھ کہا اسے ہم من و عن یہاں نقل کررہے ہیں ۔
’’اگر ایک بار تمہارے کسی دوست کا نام یا ٹیلی فون نمبر غلط لکھ دیا تو ایسی کون سی آفت آگئی ۔ ادب کو تخلیق کرنے کے نام پر تم جو کچھ لکھتے ہو وہ من گھڑت ، فرضی بلکہ سراسر غلط ہوتا ہے ۔ رائی کا پہاڑ بنادیتے ہو ۔ تین کو تیرہ اور دو کو دوسو بنادیتے ہو ۔ دھوبی کا حساب لکھتے ہوئے میں کبھی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتی ۔ تمہاری دو پھٹی ہوئی بنیانیں دھوبی کو دھونے کے لئے دیتی ہوں تو دو ہی لکھتی ہوں ۔ تمہاری چار بوسیدہ پتلونوں کو کبھی چالیس نہیں لکھا یا تمہارے چار پاجاموں کو دو نہیں لکھا ۔ دھوبی کا حساب لکھتے ہوئے اگر میں بھی تمہاری طرح مبالغہ آمیزی سے کام لیتی تو آج تم ننگے ہوتے ۔ مہینہ بھر کے سامان کی فہرست میں اگر کبھی غلطی سے کوئی چیز زیادہ لکھ دوں تو یہ بیکار تھوڑی جاتی ہے ۔ اگلے مہینے کام آجاتی ہے ۔ جیسے ایک بار میں نے ایک کلوگرام نمک لکھنے کے بجائے غلطی سے ایک کے ہندسے کے آگے صفر لگادیا تھا ۔ اتنی سی غلطی پر تم دس کلوگرام نمک اٹھا کر لے آئے ، مگر یہ ضائع تو نہیںہوا ۔ سال بھر کام آیا اور تم نے اتنی ہی نمک حرامی کی جتنی کہ فی کلوگرام کرتے ہو ۔ نہ کم نہ زیادہ ۔ تم اپنی تحریروں میں من گھڑت اور مبالغہ آمیز باتیں لکھنے کے لئے ادب کی کسی نہ کسی تحریک یا رجحان کا حوالہ دے کر اپنے لئے اچھا سا جواز پیدا کرلیتے ہو ۔ کبھی کہتے ہو ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ایسا لکھا ہے ، کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ یہ تحریر جدیدیت سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے ۔ حد ہوگئی کہ اپنی شخصی کوتاہیوں کا الزام اب مابعد جدیدیت پر بھی عائد کرنے لگے ہو ۔ میں نے اپنے گھریلو کام کاج میں کبھی ایسا بہانہ تراشا؟ کبھی تم نے میرے ہاتھ کا بنا ہوا ترقی پسند پلاؤ کھایا؟ ۔ کبھی جدید بگھارے بیگن کھائے ؟ ۔ کبھی مابعد جدید کھچڑی کھائی ؟ ۔ پینتالیس برس پہلے اپنے میکے سے جو پکوان سیکھ کر آئی تھی اب تک وہی کھلارہی ہوں اور ماشاء اللہ تم اب تک صحیح و سالم اور زندہ ہو‘‘ ۔
ہماری بیوی کی شکایت (جسے ہم ڈانٹ کہتے ہیں) آپ نے سن لی۔ ایمان کی بات یہ ہے کہ محترمہ کا اصل غصہ اس بات پر ہے کہ ہم اپنے مضامین میں اکثر ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس مسئلہ پر پہلے بھی ان سے ہماری اَن بن ہوتی رہی ہے بلکہ یہ تو روز کا معمول ہے ، مگر ان کے غصے میں اب جو نیا اُبال آیا ہے اس کا سبب اردو کی ممتاز افسانہ نگار رضیہ فصیح احمد کا وہ حالیہ مضمون ہے جس میں انھوں نے ازراہ شفقت و ہمت افزائی ہماری مزاح نگاری کی تعریف تو بہت کی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا ہے کہ مزاح نگار اپنی بیویوں کا اکثر مذاق اڑاتے ہیں ۔ انھوں نے اس ضمن میں جو کچھ لکھا ہے اسے بھی پڑھ لیجئے ۔
’’بیچاری بیوی کیا کرے گی جو مزاح نگاروں کا نشانہ بنتی رہتی ہے ۔ اگر مزاح نگاروں کے تعلقات بیوی سے اچھے بھی ہوں تو غلط فہمی ہوتی ہے کہ اچھے نہیں ہیں اور ایسے مضامین پڑھنے کے بعد بھی اچھے رہیں تو اس میں تعریف بیوی کے ظرف کی ہے نہ کہ میاں کی ظرافت کی‘‘ ۔
ہم نے اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ رضیہ فصیح احمد نے اپنی اس رائے میں ہماری ظرافت نگاری کی نہیں بلکہ تمہارے اعلی ظرف کی تعریف کی ہے ۔ اس پر تو تمہیں خوش ہونا چاہئے ۔ تم اپنے ظرف کو بڑا بناتی رہو اور ہم اپنی ظرافت میں اضافہ کرتے رہیں گے ۔ مزاح نگار کی بیوی ہونے کا اتنا خطرہ تو تمہیں مول لینا چاہئے ۔ انھیں معلوم ہے کہ ہماری گرہستی کا سارا دار و مدار ہماری مزاح نگاری پر ہی ہے ۔ ہم مزاح نگاری نہ کریں تو دال روٹی کیسے چلے ؟ ۔ میاں بیوی میں جب تک ذہنی ہم آہنگی اور آپسی تعاون نہ ہو ، گھر کیسے چل سکتا ہے ۔ شروع شروع میں جب ہماری بیوی کو پتہ چلا تھا کہ ہم اپنے مضامین میں ان کا مذاق اُڑاتے ہیں تو وہ بہت بگڑی تھیں ، مگر ہم نے ان سے یہ شریفانہ معاہدہ کرلیا تھا کہ جس مضمون میں بھی ہم اُن کا مذاق اُڑائیں گے تو اس مضمون سے ملنے والے معاوضے کی مناسب رقم بلحاظ مذاق انھیں ادا کردیں گے ۔ ایک عرصے تک اس معاہدے پر عمل بھی ہوتا رہا مگر بعد میں ہماری بیوی نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پس منظر میں معاوضے کی رقم میں بلحاظ مذاق اور بہ تناسب مہنگائی اضافہ کرنے کا مطالبہ شروع کردیا ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ جس طرح حکومت اپنے ملازمین کے مہنگائی بھتّے میں وقفہ وقفہ سے اضافہ کرتی رہتی ہے تم بھی میرے مذاق کے بھتّے میں اضافہ کرتے جاؤ ۔ یہ مطالبہ ہمارے لئے ناقابل قبول تھا کیونکہ ہم حکومت تو ہیں نہیں کہ کسی اچھے عنوان کے تحت عالمی بینک سے قرضہ حاصل کریں اور اس رقم میں سے چوری چھپے اپنے ملازمین کو بھتّہ ادا کردیں ۔ جب مطالبہ نے طول پکڑا اور ہم دونوں کے بیچ مصالحت کی کوئی گنجائش نظر نہیں آنے لگی تو ہم نے تھک ہار کے اپنی بیوی کے آگے یہ مخلصانہ تجویز رکھی کہ وہ ہمیں دوسری شادی کرنے کی اجازت دیں تاکہ ہم اپنے مضامین میں جی کھول کر اپنی دوسری بیوی کا مذاق اڑاتے رہیں اور وہ بحیثیت پہلی بیوی باقی کی زندگی ہمارے ساتھ ہنسی خوشی گزاریں ۔ ہماری اس معصوم اور بے ضرر پیش کش کے جواب میں محترمہ نے اپنا مطالبہ واپس لے لیا مگر اس کے بعد سے وہ ہم پر شبہ کرنے لگی ہیں کہ کہیں ہم نے واقعی چوری چھپے دوسری شادی تو نہیں کرلی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ تم اپنے مضامین میں جس طرح کی بیوی کا مذاق اڑاتے ہو اور جو باتیں اس سے منسوب کرتے ہو اس سے یوں لگتا ہے جیسے میں تمہاری بیوی نہیں ہوں ۔ ہم نے انھیں ٹھنڈے دل سے سمجھایا کہ ان مضامین میں تمہیں جو بیوی نظر آتی ہے وہ تم ہی ہو بس ذرا زیب داستان کی خاطر کچھ من گھڑت باتیں تم سے منسوب کردیتے ہیں ۔ بولیں ’’تمہارے مضامین میں داستان اتنی چھوٹی اور زیب اتنا بڑا کیوں ہوتا ہے؟‘‘ ۔
ہماری بیوی کے اس تبصرے کو سن کر ہمیں ہنسی بھی آئی اور رونا بھی ۔ رونا اس لئے کہ پیٹ بڑا بدکار ہے ۔ آدمی کو جینے کے لئے کیا کیا نہیں کرنا پڑتا ۔ (ایک پرانی تحریر)