مرے خدا انھیں توفیق خود شناسی دے

رشیدالدین

ہندو راشٹرکیلئے سنگھ پریوار کی سازش

آر ایس ایس کو بھی رمضان کا چاند نظر آیا
نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت اقتدار کے 2برسوں میں عوامی سطح پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ انتخابی وعدو ں کی تکمیل کا معاملہ ہو یا عوام کی مشکلات میں کمی کرتے ہوئے اچھے دن کے خواب کی تکمیل ہو، حکومت نے عوام کو مایوس کیا ہے۔ حیرت تو حلیف جماعتوں کی خاموشی پر ہے جو کسی ایک مرحلہ پر بھی حکومت پر اثر انداز ہوتے ہوئے اپنے وجود کا احساس دلانے میں ناکام رہیں۔ حکومت چلانے اور روز مرہ کے سرکاری اُمور کی انجام دہی کیلئے بظاہر وزیر اعظم اور کابینہ موجود ہے لیکن درپردہ کوئی اور طاقت حکومت کی کمان سنبھالے ہوئے ہے جس کا ثبوت حساس مسائل پر نریندر مودی کی خاموشی اور بے بسی ہے۔سنگھ پریوار نے ہندو راشٹر کے اپنے ایجنڈہ پر عمل آوری کا کوئی بھی موقع نہیں گنوایا۔ ہر شعبہ کو زعفرانی رنگ دیتے ہوئے مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو ختم کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ کسی بھی قوم کو زوال سے دوچار کرنا ہوتو اس کی شناخت  ختم کرنا ضروری ہے۔ جب شناخت اور علحدہ تشخص باقی نہ رہے تو پھر کوئی بھی اس قوم کا تحفظ نہیں کرسکتا۔ پہلے مسلمانوں کو مادری زبان سے دور کیا گیا اور اب اسلامی شعار پر راست حملے کئے جارہے ہیں۔مسلمانوں کو غیر محسوس طریقہ سے ہندو رسم و رواج سے قریب کیا جارہا ہے تاکہ اسلام اور اس کی تعلیمات سے دوری ہوجائے ۔ ظاہر ہے کہ جب غیر اسلامی رسوم و رواج زندگی میں سرایت کرجائیں تو پھر علحدہ شناخت باقی کہاں رہے گی، اس سازش کے تحت پہلے دینی مدارس کو نشانہ بنایا گیا اس کے بعد تعلیم کو زعفرانی رنگ دیا جانے لگا۔ تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے مخصوص مذہب اور اس کی تہذیب کو بچوں کے ذہنوں میں جاگزیں کرنے کی چال چلی گئی۔ اس تسلسل کے تحت مختلف عنوانات سے بین الاقوامی یوم منائے جانے لگے۔ اسی میں ’’ عالمی یوم یوگا ‘‘ شامل ہے جس کی منظوری گذشتہ سال اقوام متحدہ سے حاصل کی گئی۔

اسے سرکاری پروگرام قرار دیتے ہوئے مسلمانوں پر تہذیبی یلغار کی گئی اور بھولے بھالے افراد اس کا شکار ہوگئے۔ ہر دور میں حکومت کی جی حضور ی کرنے والے افراد کی کمی نہیں رہی جنہوں نے ا پنی کرسی کیلئے نہ صرف ان پروگراموں میں شرکت کی بلکہ دوسروں کو اس کی ترغیب دی۔ ایمان کا معاملہ اس قدر نازک ہے کہ جہاں کہیں بھی شرک کا شائبہ ہوایسے پروگرام میں شرکت نہیں کی جاسکتی لیکن یہاں تو صحت اور ورزش جیسی تاویلات کے ذریعہ غیر اسلامی افعال کی تائید کی جارہی ہے۔ اگر یہ واقعی صحت اور ورزش کا معاملہ ہو تو پھر مذہبی اشلوک پڑھنے اور مخصوص مذہبی افعال کو شامل کرنے کاکیا جواز ہے؟۔ گنبدِ اقتدار کے کبوتروں نے ہر دور میں اقتدار وقت کی خوشنودی کیلئے قوم اور ملت کی رسوائی کا سامان کیا۔ دنیاوی فائدہ اور کرسی کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ دائمی زندگی تو موت کے بعد ہے جہاں ان اعمال کا جواب دینا ہوگا۔ علمائے کرام اور دینی درسگاہوں نے ’یوم یوگا ‘میں شرکت کے خلاف فتویٰ جاری کیا اور اس کے دلائل بھی پیش کئے۔ اگر یوگا کے آسن بیماریوں سے نجات کا باعث ہوتے تو ملک میں مختلف امراض کا اس قدر تیزی سے پھیلاؤ نہ ہوتا اور ہاسپٹلس کی بھرمار کی بجائے صرف یوگا سنٹرس ہوتے۔ سائنس نے خود تسلیم کیا ہے کہ نماز سے بہتر کوئی ورزش نہیں ہے جس سے انسان صحت محنت اور بیماریوں سے دور رہ سکتا ہے۔ گذشتہ دنوں ایک نامور غیر مسلم ڈاکٹر نے ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا کہ نماز کے قعدہ میں جس طرح بیٹھا جاتا ہے اس سے قلب اور دماغی امراض نہیں ہوتے۔ڈاکٹر نے مسلم ممالک کی مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ عرب ممالک میں پاگل خانے نہیں ہوتے کیونکہ وہاں لوگ پابندی سے نماز پڑھتے ہیں۔ کئی سائنسی تحقیقات میں سجدے کے سبب دماغی امراض سے حفاظت کا نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے قرآن مجید کو مومنوں کیلئے شفاء قرار دیا لیکن افسوس کہ بعض نادان ، مذہب بیزار اور خود ساختہ دانشور غیروں کے اعمال و افعال میں صحت تلاش کررہے ہیں۔

یوگا کو اسکولوں میں لازمی قرار دینے کا منصوبہ ہے اس کے تحت اقلیتی زیر انتظام تعلیمی ادارے بھی آئیں گے ۔ اگر ان مشرکانہ افعال پر مبنی پروگراموں کی مزاحمت نہیں کی گئی تو سوریہ نمسکار، وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے کی گونج ہر تعلیمی ادارے میں سنائی دے گی اور اس وقت کف ِافسوس ملنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ جو بھی چیز اسلامی عقائد سے ٹکراتی ہے اسے ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔ مسلمانوں کو اس طرح غیر اسلامی حرکات میں شامل کرتے ہوئے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی سمت پیش قدمی کی جاسکتی ہے۔ سنگھ پریوار کا یہ استدلال ہے کہ دستور کی دفعہ 44کے تحت گنجائش موجود ہے لیکن سنگھ پریوار یہ بھول رہا ہے کہ دستور نے تمام مذاہب کے درمیان اتفاق رائے کی شرط رکھی ہے جس کے نتیجہ میں آزادی کے بعد سے آج تک کسی بھی حکومت نے یہ جرأت نہیں کی۔ اگر مسلمان عدم معلومات کے نتیجہ میں غیر اسلامی رسومات کو اختیار کرنے لگ جائیں تو سنگھ پریوار کو موقع مل جائے گا۔ دستور ہند نے ہر شہر ی کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ اس کی تبلیغ کا بھی حق دیا ہے۔ اقلیتوں کو مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کے قیام کا حق اور دیگر مراعات دی گئیں جس سے کوئی بھی حکومت محروم نہیں کرسکتی۔ صرف دفعہ 44اور یکساں سیول کوڈ کا ہی تذکرہ کیوں؟دستور کے رہنمایانہ اُصولوں میں نشہ بندی کی سفارش بھی شامل ہے بی جے پی اور سنگھ پریوار ملک بھر میں نشہ بندی کے نفاذ کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟ دستور میں کہا گیا کہ ملک سیکولر رہے گا اور حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا لیکن سرکاری تقاریب اور مختلف اسکیمات اور پراجکٹس کے آغاز کے موقع پر پوجا پاٹ کیوں کی جاتی ہے؟ الغرض! ان سازشوں کے مقابلہ کیلئے دینی اداروں، جماعتوں اور مذہبی و سیاسی قیادتوں کو بیدار ہونا پڑیگا۔ ایک طرف سنگھ پریوار کی یہ سازش تو دوسری طرف عدالتوں کے مخالف پرسنل لاء فیصلے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ نے آج تک کتنے فیصلوں کے خلاف اپیل کی ہے۔ مذہبی قیادتوں میں بھی گروہ بندیوں نے مخالفین کے حوصلوں کو بلند کردیا ہے۔ ملی کونسل، مسلم مجلس مشاورت جیسے ادارے جو کبھی متحرک تھے آج برائے نام اور کاغذی ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں میں بیدار مغز اور مخالف اسلام طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا موثر جواب دینے والی شخصیتیںنظر نہیں آتیں۔ ملی حمیت اور تڑپ رکھنے والی بے باک قیادتوں کے گذرجانے کے بعد ان کا کوئی متبادل نہیں ہے۔

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی جماعتیں دعوت افطار کے ذریعہ مسلمانوں کو خوش کرنے میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ بھلے ہی  مسلمانوں سے ناانصافی کی جاتی رہے لیکن دعوت افطار میں سر پر ٹوپی پہن کر قائدین خود کو حقیقی ہمدرد ثابت کرتے ہیں۔ دعوت افطار کے ذریعہ اپنا امیج سدھارنے کا بہترین موقع ہے سنگھ پریوار بھی گذشتہ سال سے اس دوڑ میں شامل ہوچکا ہے ۔آر ایس ایس کے قیام سے لیکر آج تک مخالف مسلم پالیسی میں پیش پیش رہنے والی تنظیم کے ہیڈکوارٹر ناگپور میں بھی رمضان کا چاند نظر آگیا۔ آر ایس ایس نے اپنی پروردہ اور ذیلی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ کے بیانر تلے 2جولائی کو دعوت افطار کا اہتمام کیا ہے جس میں 140 ممالک کے سفراء بھی مدعو کئے جارہے ہیں جن میں عرب اور مسلم ممالک کے سفارتکار ہوں گے۔ دنیا بھر میں اپنے امیج کو سدھارنے کے مقصد سے چند بکاؤ افراد کے ذریعہ یہ تنظیم قایم کی گئی۔ حال ہی میں آر ایس ایس نے دعویــ کیا کہ اس کے اسکولوں میں مسلم طلبہ کی تعداد 30فیصد سے زائد ہے۔ آر ایس ایس کا دعوت افطار کرنا نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ آر ایس ایس قائد اندریش کمار نے اسلام کے پیام امن و اخوت اور سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا حوالہ دیا جس میں ہندوستان سے ٹھنڈی ہواؤں کا اشارہ ہے۔ اگر اندریش کمار اور آر ایس ایس کو اسلام کی حقانیت پر یقین ہوتو پھر دیر کس بات کی۔ اسلام کا دامن کافی وسیع ہے۔ دعوت افطار کے ذریعہ مسلمانوں کی دلجوئی سے پہلے آر ایس ایس قیادت کو مسلم کش فسادات میں اپنے رول کیلئے معذرت خواہی کرنی چاہیئے۔ 140ممالک کے سفارتکاروں کے سامنے ملک کے حالات کے بارے میں گمراہ کن رپورٹ دی جائے گی۔ اس دعوت افطار اور راشٹریہ مسلم منچ کی سرگرمیوں کا مقصد غیر محسوس طریقہ سے مسلمانوں کو مشرکانہ افعال پر راغب کرنا اور اسلام سے دور کرنا ہے۔ مسلم ممالک کے سفراء کو اس دعوت افطار میں شرکت سے گریز کرنا چاہیئے یا پھر ان میں ہمت ہو تو مسلمانوں پر مظالم کے خلاف اپنا احتجاج درج کریں۔ افسوس کہ 1947 سے آج تک ایک بھی مسلم کش فساد پر کسی مسلم ملک نے احتجاج اور مظلومین سے اظہار یگانگت نہیں کیا۔ دعوت افطار میں پاکستانی سفیر کو بھی مدعو کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اگر کوئی مسلم تنظیم یا جماعت پاکستانی سفارتکار کو مدعو کرتی تو آر ایس ایس اور سنگھ پریوار آسمان سر پر اُٹھالیتے اور پاکستان جانے کا مشورہ دیتے۔ اتنا ہی نہیں ملک سے غداری کاالزام عاید کیا جاتا لیکن یہ دیش بھکت کس بھکتی کے تحت پاکستانی سفارتکار کو مدعو کررہے ہیں۔ دیش بھکت خود یہ طئے کرلیں کہ ملک کا وفادار اور غدار کون ہے، کس کو پاکستان سے ہمدردی ہے؟۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرح آر ایس ایس کے دل میں بھی پاکستان کیلئے محبت اُمڈ رہی ہے۔ کل تک جس پاکستان کی مخالفت سنگھ کا مین ایجنڈہ تھا آج وہی انہیں مہمان بنانے تیار ہیں۔کیا پاکستان کے مخالف ہندوستان رویہ میں تبدیلی آگئی؟ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ تازہ ترین حالات میں پاکستان اپنے سرپرست چین کے ذریعہ ہندوستان کی نیوکلیئر سپلائیر گروپ میں شمولیت کی مخالفت کررہا ہے۔ اس کے باوجود سفارتکار کو دعوت کس چاپلوسی کا حصہ ہے؟ جس پاکستانی سفاتکار کو مدعو کیا جارہا ہے انہوں نے معتمدین خارجہ کی بات چیت سے عین قبل علحدگی پسند کشمیری قائدین سے ملاقات کی تھی جس کے بعد معتمدین خارجہ کی بات چیت منسوخ کرنی پڑی۔ بہرحال  بی جے پی اور آر ایس ایس اگر پاکستانی سفارتکار کو مدعو کریں تو یہ دیش بھکتی اور اگر کوئی دوسرا کرے تو دیش دروہی، یہ دوہرا معیار آخر کب تک چلے گا۔معراج فیض آبادی نے موجودہ صورتحال پر مسلمانوں کو کچھ اس طرح مشورہ دیا ہے:
مرے خدا انھیں توفیق خود شناسی دے
چراغ ہو کے اُجالا جو شب سے مانگتے ہیں