مرکزی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی کے خلاف تحریک سرزنش کا مطالبہ : اپوزیشن

نئی دہلی 5 ڈسمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) مرکزی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی کے متنازعہ فرقہ پرستانہ ریمارکس پر راجیہ سبھا میں مسلسل چوتھے دن بھی تعطل جاری رہا جبکہ نو اپوزیشن جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ایک مشترکہ قرار داد منظور کرتے ہوئے مرکزی وزیر کے ریمارکس کی مذمت کی جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ مرکزی وزیر کابینہ سے برطرف کئے جانے کی متقاضی ہیں۔ وزیر کے خلاف تحریک سرزنش کی وکالت کرتے ہوئے نو جماعتوں کے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم ایک بار پھر حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایوان میں ایک مشترکہ قرار داد منظور کروائے جس میں ملک کے سماجی و کلچرل ڈھانچے کو متاثر کرنے اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعہ دستور کی خلاف ورزی کرنے کی کوششوں کی مذمت کی جانی چاہئے ۔ اس بیان پر کانگریس ‘ سماجوادی پارٹی ‘ ترنمول کانگریس ‘ جنتادل ( یو ) بی ایس پی ‘ سی پی آئی ‘ سی پی ایم ‘ ڈی ایم کے اور این سی پی نے دستخط کئے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایوان بالا میں اپوزیشن کی جانب سے مسلسل تعاون کے باوجود حکومت کا رویہ انتہائی غیر واجبی ہے ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے رویہ سے تمام نو جماعتیں ‘ اپنے احتجاج کو جاری رکھنے پر مجبور ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے ریمارکس ملک میں کوتاہ ذہنی ‘ تقسیم پسندانہ اور سیاسی و انتخابی فائدوں کیلئے فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے کی کوشش ہے جو ناقابل قبول ہے ۔ ان جماعتوں نے کل ہی ایوان کی کاروباری مشاورتی کمیٹی سے کہدیا تھا کہ وہ ایوان میں تحریک سرزنش پیش کرنے پر زور دینگے کیونکہ یہ ریمارکس ایک رکن پارلیمنٹ نے کئے ہیں اور وہ وزیر بھی ہیں۔ وزیر رہتے ہوئے اس طرح کے بیانات ناقابل قبول ہیں اور ان کی مذمت کی جانی چاہئے ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ انہیں مطلع کیا گیا ہے کہ حکومت نے تحریک سرزنش کی ہماری واجبی تجویز کو بھی قبول نہیں کیا ہے ۔ حالانکہ اس سارے وقت میں ہم نے صبر و تحمل سے کام لیا ہے لیکن ہمیں مایوسی ہوئی ہے ۔ ہم نے کسی رکاوٹ کے بغیر وزیر اعظم کی تقریر سنی اور یہ تجویز پیش کی تھی ۔ یہ ادعا کرتے ہوئے کہ اس طرح کے ریمارکس غیر ضروری اور ملک کے دستور کے خلاف ہیں۔ اس طرح کا بیان وزیر متعلقہ کو کابینہ سے ہی بیدخل کرنے کا متقاضی ہے ۔ ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ وزیر کے ریمارکس دستوری اور تعزیری دفاعت کے مغائر ہے ۔ انہوں نے اس بات پر بھی تنقید کی کہ وزیر اعظم نے وزیر کو برطرف کرنے کے بنیادی مسئلہ پر توجہ نہیں دی ہے اور نہ ہی انہوں نے وزیر موصوفہ کے ریمارکس پر ان کی سرزنش کی ہے ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں حکومت کے اس طرح کے رویہ کی کوئی نظیر نہیں ہے ۔