مرزا ہادی رسواؔؔ اور ادا

ڈاکٹر خالق راشد

مرزا ہادی رسواؔؔ کی شخصیت اپنے زمانے کے ادیب و شعراء میں بہت اونچی اور منفرد نظر آتی ہے ۔ اس کا خاص سبب یہ ہے کہ مرزا کی فطرت میں تحقیق کا مادہ زیادہ تھا ۔ مرزا کا رحجان ادب سے زیادہ دوسرے علوم و فنون میں تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ریاضی داں ، علم نجوم ، منطق و فلسفہ کے ماہر اور حدیث و فقہ پر بھی ان کی گہری نظر تھی ۔ شاعر اور ادیب بھی تھے ۔ ان تمام کے علاوہ ایک اور خصوصیت یہ کہ وہ ایک سائنسداں بھی تھے ۔ تحقیق کرنا مرزا کی عادت ہوگئی جس کی وجہ سے تجربات ومشاہدات بھی وسیع ہوگئے تھے ۔ اس لئے ہر چیز کو نہایت گہری نظر سے دیکھا کرتے ۔
مرزا اپنی تعلیم ،جستجو کو قائم رکھا گھر بیٹھے پرائیوٹ امتحانات دے کر پنجاب یونیورسٹی سے بی اے پاس کیا ۔ پھر امریکہ کی اورینٹل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ علم کے شوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مرزا نے محتلف زبانوں یعنی عربی ، عبرانی ، یونانی ، انگریزی ، فارسی ، ہندی اور سنسکرت پر اچھا خاصا عبور حاصل کیا تھا (مختصر تاریخ ادب اردو 243)

ادب کی طرف مرزا کا رجحان بہت ہی کم تھا ۔ ناول لکھنا ان کا مقصد نہ تھا ۔ صرف اصول مقصد تھا ۔ علم کی پیاس بجھانے کے لئے روپیہ کی ضرورت تھی ۔ جس کی مرزا کے پاس کمی رہی ۔ اسی لئے وہ ادب کی طرف قائل ہوئے اور ’’امراؤ جان ادا‘‘ لکھ کر اردو ادب پر فتح پالی ۔ یہ بھی قسمت کی عجیت ستم ظریفی رہی کہ جس علم کا مرزا کو شوق تھا اور جس کا حاصل کرنا مقصد زندگی رہا وہ ان کی شہرت کا باعث نہ بن سکا مگر اس کے برحلاف آج مرزا کو زندہ جاوید بنانے والی ان کی ناول نگاری ہے ۔ ’’امراؤ جان ادا‘‘ مرزا ہادی کا وہ شاہکار ہے جسے اردو ناول کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی اور یہ ناول اردو ناول نگاری کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ، ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مرزا نے دوسرے ناول بھی لکھے مگر جو انفرادیت و خصوصیت اس میں نظر آتی ہے وہ نہ صرف ان کی اپنی ناولوں میں بلکہ اردو کے تمام ناولوں میں ممتاز اور نمایاں دکھائی دیتی ہے ۔ اس کی خاص وجہ اس میں سادگی ، زور بیاں ، اختصار اور فطری انداز ، انسانی نفسیات کا مطالعہ اور کردار کی جامعیت نظر آتی ہے ۔ نہ ہی اس میں کوئی پراسرار کہانی ہے ، نہ جاسوسیت اور نہ محبت بھری داستان بلکہ یہ ناول ایک طوائف کی زندگی کا احوال ہے جس کو مرزا نے خود اس کی زبانی بیان کروایا ۔ یہ ایک طوائف کی داستان ہی نہیں بلکہ اپنے محدود آئینہ میں اس عہد کی پوری تہذیب اور معاشرے کی تصویریں سامنے آجاتی ہے ۔ مرزا نے بیباکانہ انداز میں بہترین ترجمانی کی ہے ۔

’’امراؤ جان ادا‘‘ رسوا کے تخیلی کردار کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے ۔ مرزا کے قلم نے اس کو حقیقت کا روپ دینے میں کوئی کمی نہ کی ۔ مرزا کو لکھنؤ کی صاف ستھری اور وہاں کی مخصوص روزمرہ زبان پر پوری قدرت حاصل تھی اور اس کے ساتھ ان کے تخیل کی بلندی گہرے مطالعہ نے ان کو ادب کا مرکز بنادیا جس کی بدولت لکھنؤ کی ادی و علمی فضا میں ایک نئی روح پھونک دی ،اس ناول کا سب سے بڑا امتیازی وصف یہ ہیکہ اس میں انسانی نفسیات کا ماہرانہ تجزیہ ہے ۔ اس داستان میں اداؔ سے بجائے نفرت کے ایک ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے اور اسکا تعارف ایک تعلیم یافتہ ، خوش اخلاق ، شاعرہ کی حیثیت سے ہوتا ہے جسے زمانے کے اتار چڑھاؤ نے یہ دن دکھائے ۔
کبھی کبھی تبصرے اس قدر جامع اور بہترین ہوتے ہیں کہ بے اختیار زبان سے واہ نکل جاتا ہے اور تبصرہ نگار کی ذہانت کی داد دینی پڑتی ہے ۔ ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ پر عبدالماجد دریابادی کا بھی تبصرہ کچھ اس طرح کا ہے ۔ کہتے ہیں ’’مرزا ہادی ، رسوا ہو کر بھی آخر تک ہادی ہی رہے‘‘۔