مذہبی رواداری اور وزیر اعظم

حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمار
کیا بات ہوگئی جو خدا یاد آگیا !
مذہبی رواداری اور وزیر اعظم
وزیر اعظم نریندر مودی ایسا لگتا ہے کہ اپنی ماضی کی شبیہہ کو بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ وہ آج کل مذہبی رواداری کا درس دینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ چاہے یہ کچھ مسلم نمائندوں سے ملاقات ہو یا پھر بودھ گیا کے مندر میں اظہار خیال ہو ‘ انہیں مذہبی رواداری پر درس دینے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔و ہ صوفی ازم پر بھی اظہار خیال سے گریز نہیں کر رہے ہیںاور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے کیونکہ یہی کوشش تصادم کی راہ ہموار کرتی ہے ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ صوفی ازم نے دنیا کو امن و سکون کے ضابطوں سے واقف کروایا ہے اور دنیا کو سمجھنے کا ایک نیا فلسفہ دیا تھا ۔ویسے تو دنیا کے ہرمذہب میںباہمی رواداری اور بھائی چارہ کو ہی فروغ دیا گیا لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ قتل و خون اور فساد اور غارت گری بھی مذہب ہی کے نام پر کی گئی ہے ۔ یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں جو دوسروں کو مذہب کی تعلیمات کا درس دینے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے ۔ اب ملک کے وزیر اعظم نریند رمودی کو بھی مذہبی رواداری پر درس دینے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایک اچھی کوشش ہے تو پھر اس کا آغاز وزیر اعظم کو خود اپنے گھر سے کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان کی اپنی کابینہ میں شامل ارکان کو یہ درس سب سے پہلے دیا جانا چاہئے جو نت نئے انداز میں مذہبی عدم رواداری اور عصبیت کی مثال بنتے جا رہے ہیں۔ ان کی کابینہ میں شامل ارکان کی زبانوں سے جو زہر اگل کر باہر آرہا ہے وہ کسی مذہبی رواداری کی علامت یا مثال نہیں ہوسکتا بلکہ یہ وزیر اعظم کی حالیہ موڈ کے یکسر مغائر ہے ۔ کابینہ کے علاوہ خود وزیر اعظم کی پارٹی کے کچھ ارکان پارلیمنٹ ایسے ہیں جن کو باضابطہ طور پر مذہبی رواداری کا درس دینے کی ضرورت ہے ۔ باہمی بھائی چارہ کو فروغ دینے کیلئے ان ارکان پارلیمنٹ کی کونسلنگ کی ضرورت ہے اور یہ کام وزیر اعظم کو اولین فرصت میں کرنا چاہئے ۔ حالیہ عرصہ میں یہ دیکھا گیا ہے کہ وزیر اعظم کی کابینہ کے ارکان اور ان کی پارٹی کے ایم پیز نے جو بیانات دئے ہیں وہ فرقہ پرستی ‘ تعصب اور مذہبی عدم رواداری کی بد ترین مثالیں ہیں۔ نریند رمودی کو اس جانب بھی توجہ دینا چاہئے ۔
وزیر اعظم جہاں ملک کے عوام کو بلکہ دنیا کو مذہبی رواداری کا درس دے رہے ہیں انہیںخود اپنے وزرا کے بیانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ کوئی ملک سے مسلمانوں کے صفائے کی بات کر رہا ہے تو کوئی ان کی پارٹی کو ووٹ نہ دینے والوں کو حرامزادے کہنے لگے ہیں۔ کوئی مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دے رہا ہے تو کوئی بچوں کی پیدائش پر مسئلہ پیدا کرنے میں مصروف ہے ۔ گھر واپسی کے نام پر الگ نفرت انگیز مہم چلائی گئی ۔ یہ الگ بات ہے کہ لو جہاد جیسی مہم کی طرح یہ بھی مہم فرقہ پرستوں اور مذہبی رواداری کے دشمنوں کے ناپاک عزائم کی طرح کامیاب نہیں ہوسکی ۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے ’ مختلف رسوم و روایت کو اختیار کرنے والے ‘ مختلف زبانیں بولنے والے عوام رہتے بستے ہیں اور دنیا کے سامنے کثرت میں وحدت کی مثال پیش کرتے ہیں۔ ہندوستان کے گوشے گوشے سے دنیا کو امن وآشتی اور مذہبی رواداری کا پیام دیا گیا ہے ۔ لیکن کچھ عناصر ملک کی اس منفرد شناخت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع مل جائے ۔ یہ عزائم ایسے ہیں جو اگر مزید پروان چڑھتے جائیں تو ملک کو خانوں میں بانٹنے سے بھی گریز نہیں کیا جائیگا ۔ ملک کے عوام کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی بجائے ان کے درمیان نفرت کی خلیج کو ممکنہ حد تک بڑھایا جا رہا ہے ۔ ایک مذہب کے ماننے والوں کو دوسرے مذہب کو ماننے والوں کا دشمن بنایا جا رہا ہے اور خطرناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ حکومت میں شامل وزرا اور برسر اقتدار پارٹی کے ایم پیز بھی کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کسی رکاوٹ کے بغیر کیا جا رہا ہے جبکہ اسے فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے ۔
ملک میں مذہبی رواداری کا ماحول پیدا کرنا یقینی طور پر اہمیت کا حامل ہے ۔ ہندوستان کی بنیاد ہی مذہبی رواداری پر رہی ہے ۔ اس ملک کے ہر گوشے سے دنیا کو یہی پیام دیا گیا تھا ۔ اب جبکہ وزیر اعظم کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ دنیا کو یہ درس دینے کی بجائے خود اپنے حلقہ پر نظر ڈالیں ۔ ان کا مشن بڑی حد تک کامیاب ہوجائیگا ۔ ایسے عناصر پر لگام کسنا بے حد ضروری ہوگیا ہے جو محض اپنی بیمار ذہنیت کی وجہ سے ملک میں تفرقہ پیدا کر رہے ہیں۔ صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہے عوام میں نفرت کی دیوار کھڑی کر رہے ہیں ۔ جب وزیر اعظم ان عناصر پر لگام کسنے میں کامیاب ہوجائیں تب وہ مذہبی رواداری پر دوسروں کو درس بھی دے سکیں گے اور شائد اس وقت ان کی بات توجہ سے سنی بھی جائیگی ۔