راہول نورونہا
مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات اِس سال کے اواخر منعقد شدنی ہیں جو کانگریس تین دیگر اپوزیشن پارٹیوں بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی)، سماجوادی پارٹی (ایس پی) اور گونڈوانا گن تنتر پارٹی (جی جی پی) کے ساتھ ماقبل چناؤ اتحاد کرتے ہوئے لڑسکتی ہے تاکہ مخالف بی جے پی ووٹ کی تقسیم کو روکا جاسکے۔ ابھی یہ باقاعدہ طور پر طے نہیں ہوا ہے لیکن ریاستی کانگریس قیادت ابتدائی بات چیت کے بعد ممکنہ حلیفوں کو 20-30 نشستیں دینے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ بی ایس پی جسے 2013ء الیکشن میں 6.4 فیصدی ووٹ حاصل ہوئے اور اُس نے چار نشستیں جیتے، بتایا جاتا ہے کہ سخت تول مول پر مجبور کررہی ہے۔ اس کے زیرقبضہ چار حلقوں کے علاوہ پارٹی 12 نشستیں چاہتی ہے جہاں وہ دوسرے نمبر پر رہی اور ساتھ ہی ساتھ مزید 14 سیٹیں جہاں وہ اِس سال اچھا مظاہرہ کرنے کی توقع رکھتی ہے۔ کانگریس نے اس معاملے کو ریاستی صدر کمل ناتھ پر چھوڑا ہوا ہے جو مایاوتی کے ساتھ اچھا تال میل رکھتے ہیں اور بی ایس پی کے مطالبے کو اندرون 20 نشستوں تک محدود رکھ سکتے ہیں۔
اترپردیش میں بی ایس پی کے ساتھ اپنی پارٹی ایس پی کے کامیاب انتخابی اتحاد سے حوصلہ پاکر جس نے 31 مئی کو کیرانہ ضمنی چناؤ اور قبل ازیں گورکھپور اور پھولپور میں بی جے پی کی شکست کو یقینی بنانا، پارٹی سربراہ اکھلیش یادو نے وسیع تر مخالف بی جے پی اتحاد کا اشارہ دیا ہے۔ حال میں اکھلیش نے اترپردیش کی سرحد سے متصل ریوا، ستنا اور سدھی اضلاع کا دورہ کیا اور ٹکٹ کے خواہشمندوں سے ملاقات کی۔ تاہم، اِس ریاست میں ایس پی کا زیادہ وجود نہیں ہے اور یہاں اس کے قائدین زیادہ تر کانگریس کے باغی ہیں۔ ایس پی نے آنجہانی ارجن سنگھ کے بھتیجے کے کے سنگھ اور ایک سابق ایس پی ایم ایل اے کو اپنی صف میں شامل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ کے کے سنگھ پانچ سال قبل پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے تھے، لیکن اب اسے چھوڑ کر ایس پی میں واپس ہوچکے ہیں۔ لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بی ایس پی گوالیار، چنبل اور ریوا میں اپنے وجود کا قابل لحاظ احساس دلا سکتی ہے، جہاں درج فہرست طبقات (ایس سی) اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) ووٹرس کی نمایاں تعداد رہتی ہے۔ ایس سی؍ ایس ٹی ایکٹ میں تبدیلیوں کے خلاف گوالیار اور چنبل میں احتجاجوں کے دوران اونچی ذات والے لوگوں کی مبینہ فائرنگ میں دلتوں کی موت سے ان علاقوں میں شیڈولڈ کاسٹ ووٹ مضبوط ہونے کی توقع ہے۔ جی جی پی جو قبائلی تنظیم ہے جو 2013ء میں کوئی نشست نہیں جیت پائی لیکن اسے 3.6 ووٹ حاصل ہوئے، وہ مہالوک شل اور وندھیا خطوں میں بااثر ہے۔ اپوزیشن لیڈر اجئے سنگھ چاہتے ہیں کہ کانگریس۔ جی جی پی اتحاد ضرو ر ہو تاکہ قبائلی ووٹوں کی تقسیم کو روکا جاسکے۔
تاہم، کیا مجوزہ اتحادوں سے پارٹنروں کو فائدے حاصل ہوں گے؟ کانگریس کے آنکڑے ایسے مفروضوں پر مبنی ہیں کہ ایس سیز اور ایس ٹیز اس کے روایتی ووٹ بینک رہے ہیں اور پارٹی کی طرف واپس ہوجائیں گے۔ اس کا بی ایس پی اور جی جی پی کے ساتھ ممکنہ اتحاد ایس سی اور ایس ٹی ووٹروں کو بی جے پی سے دور کرنے کا منصوبہ ہی ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں بی جے پی نے ایس سی اور ایس ٹی برادریوں میں اپنا مقام بنایا ہے اور اس ریاست کی محفوظ 35 ایس سی اور 47 ایس ٹی نشستوں کی اکثریت پر قابض ہے۔ کانگریس کی حکمت عملی کو زائل کرنے کیلئے بی جے پی نے پھول سنگھ برائیا کو شامل کرلیا ہے، جو بی ایس پی سے انحراف کرنے والوں کے علحدہ گروپ کا سربراہ دلت لیڈر ہے۔
2013ء اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 45.2 فیصدی اور کانگریس کو 36.8 فیصدی ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ کانگریس کو 5 فیصد کے اُلٹ پھیر کی ضرورت ہے تاکہ معاملہ اس کے حق میں پلٹ جائے۔ اے آئی سی سی جنرل سکریٹری انچارج مدھیہ پردیش دیپک بباریا کا کہنا ہے کہ کانگریس ’’تمام ہم خیال پارٹیوں‘‘ کے ساتھ اتحاد قائم کرنے پر کھلا ذہن رکھتی ہے۔ کمل ناتھ نے زیادہ واضح انداز اختیار کیا ہے: ’’اتحاد کئی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی مخصوص نشست پر مصالحت بھی ہوسکتی ہے۔ ہم پارٹیوں کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں اور 2018ء کا فیصلہ کرتے ہوئے 2019ء کے جنرل الیکشن کو بھی ذہن نشین رکھ رہے ہیں۔‘‘