مخدوم … شخصیت اور شاعری

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
مخدوم کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے تقریباً 47 سال ہورہے ہیں لیکن آج بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ بساط رقص پر ان کی جگہ خالی ہے ۔ سبکو اس گل تر کی تلاش ہے مگر وہ کہیں نہیں ملتی ، صرف یادوں کے چمن میں مہکتی ہے۔ مخدوم ایک ایسے شحص کا نام ہے جسے گزرتے ہوئے وقت کی گرد دھند لا نہیں سکی۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے اس شخص کے فن اور کردار کے نقوش اور بھی روشن ہوتے جارہے ہیں۔ وہ ایک ایسے گل تر تھے جو مرجھاتا نہیں بلکہ جو خیال اور تصور میں خوب سے خوب تر، تازہ بہ تازہ اور مہکتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور محسوس ہوتا ہے ۔
مخدوم ایک شاعر اور فنکار ہی نہیں کمیونسٹ و ٹریڈ یونین لیڈر تھے ۔ سیاسی رہنما اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھے ۔ اُن کی وفات کے بعد ٹریڈ یونین تحریک نے ان کی کمی شدت سے محسوس کی ہوگی ۔ سیاست نے بھی انہیں بار بار یاد کیا ہوگا ۔ زندگی کے دوسرے شعبوں میںبھی انہیں آواز دیتے رہے ہوں گے لیکن جو خلا…مکمل خلا وہ بحیثیت شاعر اور فنکار کے پر نہیں ہوسکتا۔ اس بساط پر کوئی اور مہرہ اُن کی جگہ نہیں لے سکتا۔ مخدوم کی ہمہ پہلو شخصیت میں سے نمایاں شاعر اور فنکار کا دل لبھانے والا پہلو تھا ۔ اس تحقیقی فنکار نے جو حسن کار بھی تھا اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعہ اپنی شخصیت میں ایسے رنگ بکھیرے تھے اور ایسے خط کھنچے تھے ، ایسے زاویے بنائے تھے اور رنگوں کا ایسا خوبصورت امتزاج کیا تھا کہ اس کی شخصیت بھی اس کی شاعری کے طرح دل آویز دکھائی دیتی تھی ۔ مخدوم اردو کے ان معدودے چند شاعروں میں سے ایک ہیں جنہیں اپنے وطن میں بے حساب پیار ملا اور غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ ایسا کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جس شخص نے اقتدار اور دولت کے بغیر حیدرآباد میں دلوں پر حکمرانی کی ہے وہ مخدوم ہیں۔
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
کہنے والے محبوب شاعر نے اعلیٰ انسانی اقدار اور سچی انسان دوستی کے باعث لاکھوں کو اپنا بنایا۔ مخدوم نے اپنی ساری زندگی ناموافق حالات کے خلاف جنگ کرنے اور پیہم جدوجہد کرنے میں گزاری لیکن ان پیچیدہ اور پر خار راہوں سے گزرنے کے باوجود زندگی بھر ان کی زندہ دلی ، شوخی اور ترنگ میں کوئی کمی نہیں ہوئی ۔ نہ صرف انہیں مستقبل پر آخر وقت تک یقین رہا بلکہ دوسروں کا حوصلہ بھی ہمیشہ بڑھاتے رہے ۔
حیدرآباد کی سیاسی ، ادبی اور تہذیبی زندگی سے مخدوم کا اتنا قریبی اور گہرا تعلق تھا کہ دونوں کا تصور علحدہ علحدہ شکل ہے۔ مخدوم کے گزرجانے سے حیدرآباد کے دور کا خاتمہ ہوا ۔ ہماری ادبی اور تہذیبی زندگی پر انہوں نے بڑ ے گہرے اور دیرپا نقوش چھوڑے ۔ مخدوم کی شخصیت اور اس کے سحر سے سب ہی مسحور تھے ۔ کیا دوست ، کیا دشمن ۔ ایک بار ان سے ملنے والا دوبارہ ملنے کا آرزو مند ہوتا ۔ مخدوم کی شخصیت میں بلا کی لچک تھی جہاں انہوں نے بے شمار موقعوں پر جلوسوں اور مظاہروں کی قیادت کی ان ہیں قریب سے دیکھنے والوں نے کئی بار بچوں کے ساتھ کھیلتے بھی دیکھا ہے ۔ ہم نے انہیں ادبی اور سیاسی جلسوں میں پر مغز اور جوشیلی تقریریں کرتے اور مشاعروں کو لوٹتے بھی دیکھا ہے ۔ مخدوم نے عقل کو دل کا پاسباں بنایا ہے تو کبھی کبھی دل کو تنہا بھی چھوڑا ہے۔ ان کی شخصیت کے مختلف پہلو ہونے کے باوجود ان کی شخصیت کا ہر پہلو علحدہ اور منفرد نوعیت کا حامل تھا ۔
اس مردِ آزاد نے اپنی ساری زندگی دوسروں کیلئے وقف کردی تھی ۔ تیاگ، ایثار اور قربانی کو زندگی کا شعار بنایا ۔ ماحول کی بے حسی اور لوگوں میں ایثار اور قربانی کے جذبے کا فقدان دیکھ کر کہتے ہیں  ؎
کوئی جلتا ہی نہیں کوئی پگھلتا ہی نہیں
موم بن جاؤ پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے
مخدوم نے آسودہ حال اور مادی آسائشوں کی بجائے فقر و فاقہ کی زندگی گزاردی ۔ اُن کی زندگی سخت آزمائشوں سے گزری اور انہوں نے سخت صعوبتیں برداشت کیں لیکن قدم کبھی نہیں ڈگمگائے ۔ مسکراتے ہوئے خندہ پیشانی سے ہر مصیبت جھیلی۔ انہوں نے زندگی سے بھرپور انداز میں محبت کی اور دوسروں کو زندگی سے محبت کرنا سکھایا ۔
مخدوم کو ان کی محنت ، صلاحیت اور خدمات کے عوض جو معاوضہ ملتا رہا وہ بے حد قلیل اور غیر تناسب تھا ۔ انہوں نے ملک اور قوم کی بے لوث خدمت کی ۔ راہ میں سخت مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے رکنے اور مڑ کے پیچھے دیکھنے کی تک زحمت گوارا نہ کی ۔ دم آخر تک اعلیٰ مقاصد کے حصول کیلئے جدوجہد کرتے رہے ۔ زندگی کی اعلیٰ اور مثبت اقدار پر انہیں جو ایقان تھا وہ کبھی متزلزل نہیں ہوا ۔ مخدوم ایک علامت تھے ، نیکی اور اچھائی کی ۔ مخدوم کے کردار کا ایک اہم وصف انسان دوستی اور محبت ہے ۔ وہ انسانوں کے فرق اور امتیاز کو نہیں مانتے تھے ۔ فرد کیلئے اپنے دل میں جذبہ اخلاص رکھتے تھے ۔ اور تعصب و تنگ نظری کے دشمن تھے ۔ وہ ہمیشہ کمزوروں کا سہارا بنے رہے اور کبھی کسی بااثر اور مقتدر شخصیت سے متاثر نہیں ہوئے ۔ اخلاق جرات ، بے باکی ، ذاتی دشمنی مفاد سے اجتناب اور کردار کی مضبوطی کے باعث مخدوم نے سب کے دلوں میں جگہ پیدا کرلی تھی ۔ ان کے خیالات اور نظریات  سے اختلاف کرنے والے اور عوامی و ادبی زندگی میں انہیں اپنا حریف سمجھنے والے بھی شخصی طور پر ان کا احترام کرتے تھے ۔
ادبی محفلوں ، مشاعروں اور دیگر تہذیبی تقاریب میں لوگوں کی آنکھیں مخدوم کو ڈھونڈا کرتیں۔ ان کی غیر موجودگی سے لوگ بے چین ہوجاتے تھے ۔ کچھ دیر بعد مخدوم ہشاش بشاش ، ہنستے مسکراتے ، ادھر آتے دکھائی دیتے تو سب کی نگاہیں ان کی جانب اٹھ جاتیں اور یہ جان محفل ، محفل کی رونق بڑھا دیتا۔ جب وہ نغمہ سرا ہوتے تو سب کے چہرے کھل اٹھتے ۔ ان کے اشعار کی نغمگی جب ان کے ترنم سے ہم آہنگ ہوجاتی تو ایک عجیب کیفیت پیدا کرتی ۔ سماں بندھ جاتا ۔ حیدرآباد میں کئی بار مشاعروں میں بیرون ریاست کے ممتاز مہمان شعراء سے زیادہ دلچسپی کے ساتھ مخدوم کو سنا گیا ۔ کبھی وہ تحت الفظ میں اپنا کلام پڑھنا چاہتے تو سامعین انہیں اس کی اجازت نہ دیتے ۔ وہ تو ہمیشہ ان کا کلام ان کے سحر انگیز ترنم میں سننا پسند کرتے تھے ۔ مخدوم اپنا کلام ڈوب کر سنایا کرتے تھے ۔ ان کے پڑھنے کا انداز بے حد متاثر کن تھا۔ سننے والوں کی طبیعت سیر نہ ہوتی تھی ۔ سامعین کوا کثر پرانا کلام سننا پڑتا مگر ہر بار وہ کئی دفعہ سنی ہوئی نظموں اور غزلوں کو سن کر ایک نیا لطف لیتے۔
مخدوم بلا شبہ ایک بڑے شاعر تھے ۔ ان کی شاعری میں جگہ جگہ فنکارانہ حسن کے بڑے خوبصورت اور اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی شعری تخلیقات ہی کے ذریعہ ادبی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا اور ہت سے دیدہ وروں نے اس وقت اندازہ کرلیا تھا کہ حیدرآباد مستقبل قریب میں اردو شاعری کو ایک اور باکمال شاعر دینے والا ہے۔ مخدوم نے پچھلی صدی کے تیسرے دہے کے بعد شاعری کا آغاز کیا اور ان کا پہلا مجموعہ ’’سرخ سویرا‘‘ تقریباً دس سال کے فکر سخن کا نتیجہ ہے ۔ اس شعری مجموعے میں رومانی اور انقلابی نظموں کے علاوہ ایسی نظمیں بھی شامل ہیں جن میں رومانی اور انقلابی شاعری کا امتزاج پایا جاتا ہے ۔ اس مجموعے کی اہم نظموں میں جنگ ، مشرق ، حویلی ، انتظار ، انقلاب ، اندھیرا ، زلف چلیسپا اور اسٹالن قابل ذکر ہیں۔
سرخ سویرا کی اشاعت کے بعد چونکہ مخدوم عملی سیاست کے میدان میں داخل ہوگئے تھے ، اس لئے طویل عرصہ تک وہ شاعری کی جانب توجہ نہ دے سکے ۔ اس طویل خاموشی کے بعد انہوں نے جو پہلی نظم لکھی وہ آزاد نظم ’’قید‘‘ ہے جو دوسرے مجموعے گل تر کی پہلی نظم ہے ۔ انہوں نے ’’چارہ گر‘‘ جو ان کی ایک اہم نظم ہے 1956 ء میں لکھی ۔ اس نظم سے مخدوم کی شاعری کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے ۔ اس نظم کے بعد انہوں نے بڑی اچھی اور حسین نظمیں لکھیں جن میں چاند تاروں کا بن ، رقص ، سناٹا ، لخت جگر ، وقت بے درد مسیحا اور وصال شامل ہیں ۔ ان کی نظم چاند تاروں کا بن آزادی پر لکھی گئی بہترین نظموں میں اپنی منفرد شان رکھتی ہے ۔ اس نظم کا کینوس بہت پھیلا ہوا ہے لیکن مخدوم  نے اختصار سے کام لیتے ہوئے بڑی مکمل اور جامع نظم لکھی ۔
موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن
رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن
مخدوم کے دوسرے دور کی شاعری کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اشاریت کا عنصر نمایاں ہے اور بالواسطہ اور شاعرانہ اظہار کو انہوں نے بڑی اہمیت دی ہے ۔ احساسِ جمال ، نغمگی اور موسیقیت کا عنصر از ابتداء تا انتہا ان کی شاعری میں موجود ہے۔ یہی خصوصیات مخدوم کو ان کے ہم عصر شعراء میں ممتاز و منفرد مقام عطا کرتی اور ان کے اشعار کو دوامی حیثیت بخشتی ہیں۔
مخدوم نے تقریباً 25 برس تک نظم لکھنے کے بعد غزل کی صنف کی جانب توجہ کی اور تھوڑے ہی عرصہ میں اپنی چند نہایت دلکش اور عمدہ غزلوں کے ذریعہ اپنے آپ کو ایک کامیاب غزل گو ثابت کیا ۔ غزل کی صنف کے لوازم اور تقاضوں کا انہوں نے پورا پورا لحاظ رکھا اور بے اعتدالیوں سے پرہیز کیا لیکن اس کے با وجود ان کی غزل روایتی غزل سے مختلف ہے ۔ فکر اسلوب کی تازگی نے ان کی غزل کو شگفتگی ، دل نشینی اور دل آویزی بخشی ہے ۔ سماجی اور سیاسی مسائل کو راست بیان کرنے کی بجائے غزل کے مخصوص اشاروں اور کتابوں میں بڑی مہارت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اس طرح صرف چند غزلیں کہنے کے باوجود انہوں نے نئی غزل کے سرمایہ میں اضافہ کیا۔
غرض یہ کہ مخدوم نے بہ حیثیت انسان ، رہنما اور شاعر اپنی شخصیت کے ایسے گہرے نقوش چھوڑے ہیں کہ انہیں بھلایا نہیں جاسکتا ۔ انہیں ہم سے جدا ہوئے تقریباً 47 سال کی مدت ہورہی ہے لیکن جب کسی محفل میں ان کا تذکرہ ہوتاہے تو روشن آنکھوں، دل آویز تبسم اور ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ان کی تصویر اور پرچھائیں ابھرتی ہے اور پھر آنکھوں کے سامنے ان کی کئی تصویریں گھوم جاتی ہیں مخدوم کی یاد تازہ پھولوں کی ایک مہک ہے جس سے دماغ معطر ہوجاتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ ہم ان کی مادی رفاقت سے محروم ہیں لیکن وہ اپنے پیچھے قیمتی اثاثہ چھوڑ گئے ہیں۔ ان کی شخصیت کے گہرے نقوش اور شاعری کا بیشتر حصہ زندہ اور باقی رہنے والی چیزیں ہیں۔
بزم سے دور وہ گاتا رہا تنہا تنہا
سوگیا ساز پر سر رکھ کے سحر سے پہلے