مختلف اوصاف و منفرد لہجہ کا شاعر عزیز بھارتی

شفیع اقبال
حیدرآباد کے نمائندہ شعرا کے حاشیہ سے ایک ایسا نام بھی ابھرتا ہے جو پچھلی صدی کے آخری تین دہوں میں حیدرآباد کی شعری محفلوں میں اپنی انفرادیت کا احساس دلانے کا ہنر رکھتا تھا ۔ صرف شہر ہی نہیں بلکہ ریاست آندھرا پردیش و مہاراشٹرا کے مخصوص مشاعروں میں ناظمین کی جانب سے بطور خاص مدعو بھی کیا جاتا تھا ۔ صرف تیس سال کے عرصہ میں عزیز بھارتی نے شاعری کی ابتداء کرتے ہوئے زود گوئی سے متاثر کن شاعری بھی کی اور قاری و سامعین کے ذہنوں میں اپنے فن اور شخصیت کی اساس پر ایسی جگہ بنائی کہ اکثر شعراء نصف صدی سے زائد عرصے سے شعر کہتے ہوئے بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکے ۔
عزیز بھارتی کی شاعری جس قدر مسحور کن ہے اسی قدر ان کی شخصیت اور حیات کے نشیب و فراز بھی دلچسپی سے معمور ہیں ۔ گورنمنٹ ہائی اسکول نامپلی میں احمد جلیس ، فکری بدایونی ، عبدالقادر وغیرہ کے ہمراہ ساتویں و آٹھویں جماعت میں وہ راقم الحروف کے ہم جماعت تھے ۔ ہمارے ہم جماعت عبدالقادر کا مکان انوارالعلوم جونیئر کالج سے متصل روبرو سرکاری دواخانہ واقع تھا ۔ ان کے دیوان خانے میں ریڈیو بڑے اہتمام سے رکھا گیا تھا ۔ ہر چہارشنبہ کی رات بناکا گیت مالا پروگرام ہوا کرتا تھا جو ہم سب شوق سے سنتے تھے اور ہم احباب نے ابن صفی کی جاسوسی ناولوں کے مطالعے کو بھی معمول بنا رکھا تھا۔
کچھ دنوں بعد عزیز بھارتی نے اچانک اسکول آنا بند کردیا ۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ ہندی زبان کے امتحانات کے سلسلے میں بنارس گئے ہیں ۔ دو تین سال بعد وہ ’’ہندی ساہتیہ رتن‘‘ کی سند لے کر حیدرآباد واپس ہوئے ۔ اور انہوںنے بحیثیت ہندی ٹیچر انوارالعلوم جونیئر کالج میں ملازمت اختیار کرلی ۔ وہ ہندی پرچار سبھا کی سرگرمیوں میں شامل رہتے اور کوی سمیلنوں میں بھی شرکت کرتے تھے ۔
1982-83 کے دوران روزنانہ رہنمائے دکن میں ان کی غزلیں عزیز الحسین عزیز کے نام سے شائع ہوئیں ۔ اپنی ملازمت کے دوران ہمارے نامپلی مارکٹ کے ’’ادبی مرکز‘‘ پر آنا ان کا روزانہ کا معمول ہوگیا ۔ ایک دن انہوں نے راقم الحروف سے مشورتاً کہا کہ میں عزیز الحسین عزیز کے شاعرانہ نام سے مطمئن نہیں ہوں ۔چونکہ میں ہندی پنڈت ہوں اس لئے نام میںہندی کی شمولیت بھی ضروری سمجھتا ہوں کوئی مناسب نام سجھائی نہیں دے رہا ہے ۔ کچھ دیر غور و خوص کے بعد میں نے کہاکہ تم اپنا ادبی نام ’’عزیز بھارتی‘‘ رکھ لو ۔ یہ نام انہیں اتنا پسند آیا کہ اسی دن سے ’’عزیز بھارتی‘‘ ہوگئے ۔ اس کے بعد انہوں نے مشاعروں میں شرکت کی خواہش کی ۔ پہلی مرتبہ عزیز بھارتی نے میرے ہمراہ سکندرآباد کی ادبی انجمن ’’کاروان ادب‘‘ کے مشاعرہ میں شرکت کی ۔ اس وقت سکندرآباد کی انجمنوں کے مشاعروں کے انعقاد میں شاغل ادیب ، محسن جلگانوی ، فکری بدایونی ، عبرت سکندرآبادی ، ناگپال عظیم دہلوی وغیرہ سرگرم حصہ لیا کرتے تھے ۔ عزیز بھارتی نے سکندرآباد کی انجمنوں کے علاوہ حیدرآباد میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں بھی حصہ لینا شروع کیا ۔ ابتداء میں انہوں نے بزرگ شاعر عبدالکریم ماہر حیدرآبادی سے اصلاح بھی لی ۔
عزیز بھارتی نہایت فراخدل ، خوش اخلاق ، شگفتہ مزاج ، منچلے اور متحرک شخصیت کے حامل تھے ۔ وہ اس قدر مصروف رہتے تھے کہ نچلا بیٹھا سیکھا ہی نہیں تھا ۔ جونیئر کالج کی محدود تنخواہ ان کی کثیر العیالی کے لئے ناکافی تھی ، چنانچہ وہ طلبہ کو ٹیوشن دیا کرتے تھے ۔ کبھی تھکاوٹ کا اظہار نہیں کرتے ہمیشہ خوش مزاجی کا ہی مظاہرہ کرتے ۔ وہ فلم بینی کے شوقین تھے ، دلیپ کمار کی شخصیت اور اداکاری سے بے حد متاثر تھے ۔ اکثر اوقات احباب کے درمیان دلیپ کمار کی طرح ڈائیلاگ ادا کرتے ۔ ان کے بالوں کا اسٹائل بھی دلیپ کمار سے بہت متلا جلتا تھا ۔
عزیز بھارتی کی شعری و ادبی خدمات سے جڑا ہوا یک اور واقعہ یہ ہے کہ راقم الحروف کے ادبی ادارہ ’’ادارہ ہماری منزل‘‘ کے زیر اہتمام ’’کل ہند مشاعرہ‘‘ کے انعقاد کے سلسلے میں جناب عابد علی خان ، ایڈیٹر روزنامہ سیاست اور جناب محبوب حسین جگر سے ہم دونوں رجوع ہوئے تو دونوں حضرات نے بڑی فراخدلی کے ساتھ ہم سے تعاون کا وعدہ کیا ۔ جگر صاحب کی سرپرستی میں مشاعرہ انتظامی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ، جس میں بحیثیت عہدیداران و اراکین ڈاکٹر رام پرشاد ، سید رحمت علی (ڈپٹی اسپیکر) ، رحمن جامی ، شفیع اقبال ، عزیز بھارتی ، قاسم عزیز اور دیگر افراد کو منتخب کیاگیا ۔ انتظامی کمیٹی کی ایک میٹنگ دفتر سیاست پر دوسری علامہ حیرت بدایونی کی رہائش گاہ ملے پلی پر منعقد ہوئی جس میں بہ نفس نفیس خود جگر صاحب نے شرکت کی اور مہمان شعراء کے لئے بیکل اتساہی ، مینا قاضی اور کرشن بہاری نور کے ناموں کو قطعیت دی اور خود مجھ سے ان شعراء کے نام خطوط لکھوائے ، جس پر تمام شعراء نے شرکت کیلئے رضامندی کا اظہار کیا ۔ جناب عابد علی خان اور جناب محبوب حسین جگر نے بھرپور سرپرستی بھی کی اور مکمل تعاون بھی کیا ۔ انتظامی امور میں دیگر اراکین کمیٹی نے تو برائے نام تعاون کیا لیکن عزیز بھارتی نے راقم الحروف کے ساتھ شب و روز مصروف رہ کر مشاعرہ کے انعقاد اور ساونیر کی طباعت کے سلسلے میں مکمل تعاون کیا ۔ اس مشاعرہ کا انعقاد 10نومبر 1973ء کو بمقام پرکاشم ہال گاندھی بھون میں عمل میں آیا ۔ مہمان شعراء مینا قاضی ،کرشن بہاری نور اور صدر مشاعرہ علامہ حیرت بدایونی کے علاوہ شہر کے نمائندہ شعراء سعید شہیدی ، اوج یعقوبی ، پرنس نقی علی خاں ثاقب ، نظیر علی عدیل صادق نوید ، رحمن جامی ، شفیع اقبال ، عزیز بھارتی اور دیگر شعراء نے کلام سنایا ۔ مشاعرہ کی نظامت شفیع اقبال نے کی ۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ حیدرآباد کی ابھرتی ہوئی شاعرہ ثریا مہر نے پہلی بار اس مشاعرہ میں کلام سنایا اور داد حاصل کی ۔ اس مشاعرہ میں جناب عابد علی خان ، جناب محبوب حسین جگر ان کے ہمراہ جناب زاہد علی خان نے بھی شرکت کی ۔
یہ ٹکٹ والا کل ہند مشاعرہ اس قدر کامیاب رہا کہ پرکاشم ہال کی ساری سیٹیں اہل ذوق خواتین وحضرات سے پُر ہوگئیں اور شائقین کی کافی تعداد نے ہال کے باہر کھڑے رہ کر ہی مشاعرے کی سماعت کی اور لطف اندوز ہوئے ۔ اس مشاعرے کے بعد عزیز بھارتی کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا اور ان کے حوصلے بھی بڑھے ۔ ان کے کچھ منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
میں اپنے وقت کا آزر ہوں مجھ کو پہچانو
میں جانتا ہوں کہ پتھر کی دلکشی کیا ہے
راہوں کے ساتھ ہم سے تھی منزل بھی بدگماں
ہم پھر بھی اپنے عزم میں ثابت قدم رہے
کیا کوہسار کرسکے ذروں سے انحراف
لمحوں سے بچ کے جائے گی آخر صدی کہاں
جانے تیرے ہاتھ میں کیا ہے کچھ تو بتلا وقت ہمیں
جس نے تجھ سے ہاتھ ملایا پہنچا وہ اونچائی تک
لفظ تو گونگے ہوتے ہی ہیں لفظوں میں کیا رکھا ہے
پہنچ سکو تو پہنچو میرے لہجہ کی گہرائی تک
اس زندگی کا دوستو کیا تذکرہ کروں
اک چیخ سن رہا ہوں مسلسل گھٹی ہوئی
رہو کٹیا میں لیکن ، ظرف کی تم
عمارت اک عالیشان رکھنا
کسے طلب ہے صدی کی ، صدی کو رہنے دو
وہ ایک لمحہ بہت ہے جو خوشگوار آئے
مہندی کی لالیوں کا اک خواب دل میں لے کر
سونی ہتھیلیاں ہیں کیا جانے کتنے گھر میں
عزیز بھارتی نے 8 مئی 1939 ء کو گدوال میں جنم لیا ۔ 27 مئی 1998 کو وفات پائی ۔ صرف 59 سال کی مختصر عمر پانے کے باوجود ان کے دو شعری مجموعے ’’لمحہ لمحہ‘‘ 1978 ’’چشم معتبر‘‘ 1992 میں شائع ہوئے اور ’’لہجے کا سفر‘‘ 1999 میں بعد از مرگ اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش کی جانب شائع کیا گیا اور ان کے شعری مجموعوں کو اردو اکیڈیمی نے انعام سے بھی نوازا ۔ عزیز بھارتی غزل کے ہی شاعر نہیں تھے بلکہ انہوں نے خوبصورت قطعات اور متاثرکن پابند و آزاد نظمیں بھی لکھیں ۔