نعیم نے نویں میں سائنس لی ‘ اس کا ارادہ ڈاکٹر بننے کا تھا ۔ اس کے والدین کی بھی یہی خواہش تھی کہ نعیم ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرے ‘ اس لئے وہ دن رات محنت کر کے اول پوزیشن لانے میں کامیاب ہوگیا ۔
نعیم کی اس کامیابی پر صرف وہی نہیں بلکہ اس کے والدین و اساتذہ اور دوست احباب بھی بے حد خوش تھے ۔اسکول کی طرف سے اسے انعام دیا گیا ۔ خوشی کے اس موقع پر اس کے والدین نے پارٹی کا اہتمام کیا ‘ پارٹی میں سب اس کی خوشی میں شریک تھے ۔ چونکہ اس کا میٹرک میں اے ون گریڈ تھا ‘ اس لئے شہر کے بہترین کالج میں اسے داخلہ مل گیا اور نعیم نے میڈیکل کے مضامین کا انتخاب کیا تاکہ اپنے خوابوں کی تکمیل کرسکے ۔ اچانک حالات نے پلٹا کھایا اور وہ ہوگیا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ نعیم کے والد کو ہارٹ اٹیک ہوا ، اور وہ دار فانی سے کوچ کر گئے ۔ نعیم کو اپنے خواب ادھورے نظر آنے لگے اور اس کے حوصلے چکنا چور ہونے لگے ۔ نعیم نے پوری توجہ پڑھائی پر دی ‘ صبح کالج جاتا شام میں ٹیوشن پڑھاتا ‘ نعیم کی امّی کو سلائی کڑھائی آتی تھی انہوں نے گھر کے ایک کمرے میں سنٹر کھول لیا جہاں وہ محلے کی بچیوں کو سلائی اور کڑھائی سکھاتیں ۔ نعیم نے انٹر میں پوزیشن حاصل کی اور میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا ۔اس نے دل لگاکر اورمحنت سے پڑھنا شروع کیا وہ کامیابی پر کامیابی حاصل کرتا رہا ۔ آخر وہ دن آگیا جب وہ ڈاکٹر بن گیا ‘ آج اس کی محنت کا صلہ اسے مل گیا ۔ اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے ۔ وہ اللہ کا شکر گزار تھا جس نے اسے اس کی محنت کا صلہ اسے دیا اور اسے کامیابی عطا کی ‘ ہاؤس جاب کے بعد نعیم کو اسپتال میں نوکری مل گئی یہ اس کی محنت کا صلہ اور ماں کی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ آج وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ۔