متحدہ مسلم ووٹ لو جہاد کا دندان شکن جواب

ظفر آغا
ہر ہندوستانی اس حقیقت سے واقف ہے کہ اتر پردیش اس ملک کی سیاست میں مرکزی رول ادا کر تا ہے۔ جس پارٹی نے اتر پردیش جیت لیا سمجھئے کہ اس نے ہندوستان جیت لیا۔ تب ہی تو ابھی چند ماہ قبل نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو لوک سبھاچنائو میں 71 حلقوں میں کامیابی حاصل ہوئی تو بس بی جے پی کامرکز میں اقتدار پر قبضہ ہو گیا۔ تب ہی تو ادھر یو پی میں چنائو کا ڈنکا بجا نہیں کہ ادھر تمام سیاسی پارٹیوں نے چنائو جیتنے کے لئے اپنا دم خم لگادیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک بار پھر سیاسی پارٹیاں اتر پردیش میں سرگرم ہوگئی ہیں۔ کیونکہ جس وقت آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوں گے اس وقت اتر پردیش میں ضمنی انتخابات ختم ہوچکا ہو گا۔

یوں تو 13 ستمبر کو اتر پردیش میں جوانتخابات ہو رہے ہیں وہ ضمنی انتخابات ہیں، لیکن ان ضمنی انتخابات کی حیثیت سیاسی اعتبار سے مرکزی انتخابات سے کم نہیں ہے۔ اتر پردیش میں جو ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں وہ کسی ایک دو حلقوں میں نہیں ہورہے ہیں بلکہ اس بار گیارہ اسمبلی میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں اور ایک لوک سبھا حلقے میں الیکشن ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن گیارہ اسمبلی حلقوں میں انتخابات ہورہے ہیں ان میں سے دس وہ حلقے ہیں جو ابھی حال تک بی جے پی کے قبضے میں تھے اورر ایک حلقہ بی جے پی اتحادی کے پاس تھا۔ یعنی گیارہ کے گیارہ اسمبلی حلقوں سے بی جے پی جیت چکی تھی۔ محض ایک لوک سبھا سیٹ وہ ہے جو ملائم سنگھ نے خالی کی ہے اور وہاں یعنی مین پوری میں لوک سبھا کا ضمنی انتخابات ہو رہا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ انتخابات بی جے پی کے لئے کانٹے کے انتخابات ہیں۔ کیونکہ ابھی تین ماہ قبل مودی ویو نے جس طرح اتر پردیش میں اپنا جلوہ دکھا کر تمام سیاسی پارٹیوں کو یہاں شکست دی تھی اس کے بعد بی جے پی کو ایک بار پھر تمام گیارہ اسمبلی حلقوں میں انتخابات جیتنا چاہیے۔ اور اگر کہیں یہاں بی جے پی گیارہ میں پانچ سیٹ بھی ہار گئی بس سمجھئے کہ مودی کارڈ بے اثر ہو گیا اور پھر اس کا اثر محض یو پی کی ہی سیاست پر نہیں بلکہ پورے ملک کی سیاست پر پڑے گا۔

بی جے پی کو اس بات کا پوری طرح اندازہ ہے۔ تب ہی تو بی جے پی قیادت اور خصوصاً اس کے صدر امیت شاہ نے اپنی پوری قوت ایک بار پھر اترپردیش پر لگا دی ہے۔ انتخابات جیتنے کے لئے بی جے پی کا ہمیشہ سے جو شیوہ رہا ہے، بی جے پی پھر سے وہی حربہ اتر پردیش میں اپنا رہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں جس طرح مخالفت کا کارڈ استعمال ہوا تھا پھر وہی حکمت عملی اس بار اپنائی جارہی ہے۔ اس بار اس کے لئے ’لو جہاد‘کا نعرہ بلند کیا گیا ہے جس کا پرچم بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے لیڈر یوگی ادتیہ ناتھ نے بلند کر رکھا ہے۔ یعنی اس بار ہندوئوں میں یہ خوف پیدا کیا جارہاہے کہ مسلمانوں نے بہت منظم طریقے سے ’لو‘یعنی ہندو لڑکیوں سے عشق کر کے ہندوؤں کے خلاف جہاد چھیڑ رکھا ہے اور اس طرح ہندوئوں کی آبرو دائو پر لگی ہوئی ہے۔ اس کا جواب یہی ہے کہ ہندو بی جے پی کو ووٹ دیں تاکہ وہ ہندو آبرو کی حفاظت کرسکیں۔ یعنی جیسے مودی جی گجرات میں ’’ہندو انگ رکھشک‘‘ بن گئے تھے، ویسے ہی ’لو جہاد‘کے خلاف حالیہ یوپی چنائو میں بی جے پی’’ ہندو آبرو رکھشک ‘‘ بن گئی ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی خطرناک حکمت عملی ہے اور اس میں اس قدر جذباتی اپیل ہے کہ بی جے پی کا میاب ہو سکتی ہے۔ اس صورت حال میں سیکولر طاقتیں کیا کر سکتی ہیں۔ اس کا پہلا اور سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے کے لئے سیکولر طاقتوں کو فرقہ پرستی کے خلاف ایک متحدہ مورچہ بننا چاہئے ۔ اتر پردیش میں ایسا نہیں ہو سکا۔ بلکہ حیرت ناک بات یہ ہے کہ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی نے حالیہ انتخابات میں خاموشی سے بی جے پی کی مدد کر دی ہے۔ بہوجن سماج پارٹی ان ضمنی انتخاب میں کہیں اپنا نمائندہ نہیں کھڑا کیا ہے۔ کچھ اشارے یہ بھی مل رہے ہیں کہ بہوجن سماج پارٹی اپنا ووٹ بینک بی جے پی کو منتقل نہ کرا دے۔ اس سے قبل بھی مایاوتی دوبار بی جے پی کی حمایت سے اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ رہ چکی ہیں اس لئے یہ کوئی حیرت ناک بات نہیں کہ وہ حالیہ ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی خاموش حمایت کر رہی ہیں۔ اور اگر ایسا ہوا تو بی جے پی کے لئے حالیہ ضمنی انتخاب میں کامیاب ہونا کافی آسان ہو جائے گا۔
اس کے یہ معنی قطعاً نہیں ہیں کہ بی جے پی کو یو پی کے حالیہ ضمنی چنائو میں ہرایا نہیں جا سکتا ہے ۔ تمام تر سیاسی مسائل کے باوجود حالیہ چنائو میں بی جے پی کو ہرایا جا سکتا ہے اور یہ کام محض مسلم ووٹر کر سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مسلم رائے دہندگان متحد ہو کر محض اس پارٹی کے نمائندے کو ووٹ ڈالیں جو پارٹی بی جے پی کو ہرانے کی حیثیت میں ہو۔ یہ کام مسلم ووٹر کے لئے کوئی بہت مشکل نہیں ہے۔ اتر پردیش کا مسلم ووٹرس اس طرح کی اسٹریٹیجک ووٹنگ بابری مسجد شہید کئے جانے کے بعد1993 سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ 1993 کے یوپی اسمبلی انتخاب میں مسلم ووٹرس نے پہلی بار اس طرح کی اسٹریٹیجک ووٹنگ کر کے بی جے پی کو نہ صرف شکست فاش دلائی تھی بلکہ سارے ہندوستان میں ایسی حکمت عملی کے ذریعہ بی جے پی کوروکا تھا۔ یعنی متحدہ ووٹنگ محض اس سیکولر پارٹی کے نمائندے کو دیا جائے جو بی جے پی کو ہرانے کی حیثیت میں ہو۔ یہ کام حالیہ ضمنی انتخاب میں اور زیادہ آسان ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حالیہ انتخاب میں بہوجن سماج پارٹی خود میدان میں نہیں ہے ۔ وہ آزاد امیدواروں کی حمایت کررہی ہے جس سے محض بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔ یعنی ان انتخابات میں جو بھی فرقہ پرستی کو ہرانا چاہتا ہے وہ بہوجن سماج پارٹی حامی آزاد امیدوار کو ووٹ نہیں ڈالے کیونکہ

اگر اس کو ووٹ ڈالا تو سمجھئے کہ ہر ووٹ بی جے پی کو گیا۔ پھر کانگریس پارٹی کی صورتحال یوپی میں کوئی اچھی نہیں ہے۔ اگر کہیں ان کا نمائندہ بہت مضبوط ہو تواس کو ووٹ دینے میں مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ صورت حال نظرنہیں آرہی ہے ۔ اس پس منظر میں لے دے کر محض سماجوادی پارٹی اس حال میں ہے کہ جو بی جے پی کو ہرا سکتی ہے۔ پھر اس وقت سماجوادی پارٹی اتر پردیش میں برسراقتدار بھی ہے۔ اس لئے وہی بی جے پی کو ہرانے میں اہم رول ادا کرسکتی ہے۔
اس سیاسی پس منظر میں یہ ضمنی انتخابات اتر پردیش کے مسلم ووٹ کے امتحان میں تبدیل ہو گئے ہیں لیکن یہ امتحان ایسے کوئی سخت نہیں کہ اس میں کامیابی نہیں حاصل کی جاسکتی ہے۔ بی جے پی کے ’لو جہاد ‘ہتھیار کا جواب متحدہ مسلم ووٹنگ اور وہ بھی اسٹریٹیجک ووٹنگ کے ذریعہ دیا جاسکتا ہے ۔ بہوجن سماج پارٹی ان چنائو میں بی جے پی کی بی ٹیم کارول ادا کر رہی ہے۔ کانگریس ابھی بھی کمزور ہے۔ اس لئے حالیہ چنائو میں بہترین حکمت عملی یہی ہوگی کہ سماجوادی پارٹی کو ہی جیتا نے میں سیکولر ووٹر اپنی طاقت جھونک دیں ۔ اگر یہ ہوگیا تو یوپی ضمنی چنائو میں بی جے پی کو شکست ہو سکتی ہے۔ اگر یہ ہو گیا تو بس ملک بھر میں مودی کی ہوا نکل جائے گی اب دیکھیں اس بار اتر پردیش ضمنی چنائو میں ملک کو کیا راستہ دیکھتا ہے؟