ڈاکٹر مجید خان
آج کا مضمون ایک نئی نوعیت کا ہے ۔ میرے پڑھنے والے خود نیم ماہر نفسیات ہوہی گئے ہیں ۔ شخصیت کے مسائل ، مختلف بیماریوں کی علامات ، غصہ ،شک و شبہات اور تقریباً نفسیات کے ہر موضوع پر میں بار بار لکھ چکا ہوں ۔ آج کا مضمون پڑھئے اور اس پر غور کیجئے ۔ ملک میں حال میں گذرے ہوئے واقعات جن سے آپ اور میں واقف ہیں وہ میرے لئے بڑے معنی خیز ہیں ۔ یہ میرے اپنے تاثرات ہیں روزمرہ کے معمولی واقعات کو میں ایک الگ نظر سے دیکھتا ہوں کیونکہ یہ مجھے غیر معمولی محسوس ہوتے ہیں ۔
واقعات بیان کرنے سے پہلے میں ہمارے معاشرے کے روایتی طور طریقوں اور اصولوں پر مختصر سی روشنی ڈالنا چاہوں گا ۔ حیدرآباد کی قدیم تہذیب میں مہذب لوگوں کے ملنے جلنے اور ایک دوسرے کو خطاب کرنے کے خاص اصول ہوا کرتے تھے جو اب باقی نہیں رہے ۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ یہ اچھا یا برا ہوا مگر مروجہ اخلاق میں بھی مہذب حلقوں میں کچھ روایتی مجلسی آداب کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ۔ اگر کوئی اس سے انحراف کرے تو لوگ ان حرکات کو ناپسند قرار دیتے ہیں ۔ جیسے جیسے یہ درجے اونچے ہوتے جاتے ہیں تو یہ تشریقات اور تکلفات رسمی ہوتے جاتے ہیں مثلاً اگر آپ چھوٹے عہدہ دار سے ملیں تو آپ کا برتاؤ الگ ہوتا ہے اور آپ کسی اعلی ہستی مثلاً صدر جمہوریہ سے ملیں تو اسکا طریقہ آپ کو سمجھایا جاتا ہے ۔ سفارتی معاملات میں اس عمل کو Protocol کہا جاتا ہے ۔ اگر کوئی صدر حکومت اسکی خلاف ورزی انجانے طور پر کرتا ہے تو یہ ایک سفارتی بھول یا اخلاقی لغزش سمجھا جاتا ہے ۔
اس نظریہ سے جب ہم اوباما کی ہندوستان کے یوم جمہوریہ کے موقع پر آمد کے معمولی واقعات کو دیکھتے ہیں تو کچھ باتیں ناگوار سی محسوس ہوئیں ان کا اظہار ہوتا ہے ۔ ملاقات ، رسمی یا غیر رسمی تعلقات ، تکلفات یا بے تکلفی اور غیر مدعو یارانہ معیوب سمجھا جاتا ہے ۔
اس پیمانے پر جب ہم مودی صاحب کی اوباما کی ملاقاتوں کو جانچتے ہیں تو کچھ اچھا نہیں لگتا ۔ میں جب انگلستان گیا تھا تو جب مجھے نام کے دو اہم حصوں کی اہمیت کا احساس ہوا ۔ پہلا حصہ جس کو وہ لوگ First Name کہتے ہیں اور دوسرا Surname ۔ یہ طریقہ اب یہاں بھی انگریزی زبان میں فارمس وغیرہ پُر کرنے میں استعمال ہوتا ہے ۔ اردو میں یہ طریقہ رائج نہیں ہے ۔ ہر شخص کو اس کے Surname سے مخاطب کیا جاتا ہے ۔ مثلاً ڈاکٹر خان Dr.Khan ، یا مسٹر خان Mr.Khan ۔ تھوڑی سی دوستی ہونے پر آپ کسی سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا میں آپ کو آپ کے پہلے نام سے مخاطب کرنے کی جرأت کرسکتا ہوں ۔ یعنی یہ کہ میں آپ کو مجید کہہ کر مخاطب کرسکتا ہوں ۔ یہ تو تعلیم یافتہ حلقوں میں عام ہے مگر سفارتی آداب تو اور بھی محدود ، روایتی ، رسمی اور سخت ہیں ۔ سربراہان مملکت عوام اور میڈیا کے سامنے ان آداب کا خاص لحاظ کرتے ہیں ۔ خانگی طور پر ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہوں گے اور ایک دوسرے کو پہلے ناموں سے مخاطب کرنے کی اجازت حاصل کرلیتے ہوں گے مگر علی الاعلان اس بے تکلفی سے گریز کرتے ہیں ۔
مودی صاحب کا ایک نیا ریڈیو ماہانہ پروگرام بعنوان ’’من کی بات‘‘ شروع ہوا ۔ وہ اوباما کو بھی اس میں شامل کرلئے اور وہ بیچارہ اس میں پھنس گیا ۔ مودی صاحب خود پروگرام کے ناظم یعنی Anchor بن بیٹھے اور لوگوں کے کچھ سوالات اوباما سے پوچھنے لگے مگر اس پبلک پروگرام میں اوباما کو اس کے پہلے نام سے خطاب کئے یعنی BARAK ۔ جواب میں اوباما نے انہیں مسٹر پرائم منسٹر کہہ کر مخاطب کیا ۔ مودی صاحب اس اشارہ کو غالباً سمجھ نہیں پائے یا پھر سمجھ کر بھی اس کو بارک کہہ کر بلانے سے گریز نہ کرسکے ۔ صحافیوں نے اس کا نوٹ نہیں لیا ۔ اور تقریباً 17 دفعہ مودی صاحب آپ کو بارک کہتے رہے اور وہ ایک بار بھی ان کو نریندر بھائی کے نام سے مخاطب نہیں کیا ۔ مودی صاحب اپنی زندگی کا ایک عجیب سا قصہ بھی سنائے جوکم از کم مجھے بڑا انوکھا سا نظر آیا ۔
سنا کہ انکا کوئی غریب ملاقاتی تھا جو ہمیشہ ان سے خواہش کرتا تھا کہ وہ اس کی دعوت پر اس کے گھر آئیں ۔ چنانچہ کافی اصرار کرنے پر وہ آمادہ ہوگئے اور دعوت میں صرف دودھ پیش کیا گیا کیونکہ وہ شخص مفلوک الحال تھا ۔ مودی صاحب کا کہنا تھاکہ اس کا چھوٹا بچہ بھی تھا جو ترستی نظروں سے دودھ کے پیالے کو دیکھ رہا تھا ، جو مودی صاحب نے اس کی نذر کردیا ۔ اب اس واقعے پر غور کیجئے اور نتیجہ اخذ کرلیجئے ۔
یہ انکی شخصیت کے مخصوص پہلو ہیں جومنظر عام پر آرہے ہیں ۔ دنیا کے بڑے ممالک کے سربراہان سے اپنی بے تکلفی کی نمائش کرنا ان کا ایک وصف بنتا جارہا ہے ۔ اپنے ملک میں کچھ الگ رویہ ہے تو دوسرے ممالک میں کچھ اور مثلاً چین کے صدر کے ساتھ جھولے میں جھولنا یا پھر جاپان کے دورے میں ڈھول بجانا وغیرہ وغیرہ ۔
ان کا کہنا ہے کہ مفلسی کیا ہے ۔ وہ جانتے ہیں مگر اب سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ خود نمائی کی انتہا دس لاکھ کا سوٹ زیب تن کرنا ہے ۔ اسکے بعد غالباً اوباما کو احساس ہوا کہ ان کی گرمجوشی کا کچھ زیادہ ہی استحصال ہورہا ہے اس لئے اس کے بعد ان کی سیری فورٹ دہلی کی تقریر جس میں انہوں نے مذہبی رواداری اور نفرت کے تعلق سے کھل کر بولا اور اس کے بعد امریکہ سے حال ہی میں جو انکے بیانات آئے ہیں وہ مودی جی کی نیند حرام کردئے ہوں گے ۔
بڑھاؤ نہ آپس میںملت زیادہ
مبادہ نہ ہوجائے نفرت زیادہ
آئندہ مضمون انشاء اللہ نئی حکومت کی کارکردگی کے پس منظر پر ہوگا ۔