ماہ جنوری میں 8 مسلمانوں کا مسلمانوں کے ہاتھوں قتل

حیدرآباد ۔ 31 ۔ جنوری : ( نمائندہ خصوصی ) : شہر میں معمولی بحث و تکرار معمولی معمولی باتوں پر قتل کے واقعات عام سی بات ہوگئے ہیں ۔ ایکدوسرے کو گھور کر دیکھنے ، چھوٹی سی رقم کی ادائیگی میں ناکامی ، اور چھوٹے چھوٹے علاقوں میں اثر و رسوخ جیسے مسئلوں پر لوگ ایکدوسرے کی جانیں لینے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں ۔ نفسا نفسی میں ہم ایکدوسرے کے جان کے پیاسے ہوگئے حالانکہ مسلمانوں کو مضبوط عمارت میں جڑی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا اور ایک مسلمان کا خون دوسرے پر حرام قرار دیا گیا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم سب ایک رب کی عبادت کرنے والے ہیں ایک رسول ﷺ کے امتی ہیں ایک ہی کتاب قرآن مجید کے پڑھنے والے ہیں اس کے باوجود ہم مسلمانوں میں نفرت و عداوت کا یہ حال ہوگیا ہے کہ بازاروں ، گھروں ، میدانوں ، دکانوں اور سڑکوں پر ایکدوسرے کا خون بہاتے پھر رہے ہیں ۔ شہریان حیدرآباد کے لیے یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ نئے سال 2014 کے آغاز یعنی یکم جنوری سے 31 جنوری تک قتل کی 8 ایسی وارداتیں پیش آئیں جس میں مرنے اور مارنے والے سب مسلمان ہیں ۔ نئے سال کے پہلے ہی دن یکم جنوری کو ملے پلی میں 45 سالہ شیخ عبدالرزاق کو بڑے ہی بیدردانہ انداز میں قتل کیا گیا ۔

وہ لکشمی نگر میں آٹو گیاریج اور سرویس سنٹر چلایا کرتے تھے ۔ پولیس کے مطابق قتل کی یہ واردات پرانی مخاصمت کے نتیجہ میں پیش آئی اور شیخ عبدالرزاق کے قتل میں حامد ، کلو ، گورا قیوم ، کالا قیوم اور ان کے دیگر ساتھی ملوث ہیں ۔ شیخ عبدالرزاق کو قاتلین کی ٹولی نے گھر پر آکر حملہ کرتے ہوئے قتل کردیا ۔ اسی طرح 3 جنوری کو رین بازار کے آٹو ڈرائیور بشیر الدین کو اس کے ہی بھتیجوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ قتل کی وجہ جائیداد کا تنازعہ بتایا گیا ۔ امان نگر میں پیش آئی قتل کی اس واردات کے سلسلہ میں پولیس نے 21 سالہ سعید الدین اور 19 سالہ خلیل کو گرفتار کیا ۔ 6 جنوری کی شام تالا گڈہ میں معمولی بحث و تکرار کے بعد ایک 14 سالہ لڑکے نے سمیر نامی لڑکے کی پیٹھ میں گھونسا مارا سمیر اس گھونسے کی تاب نہ لاسکا ۔ پولیس ٹپہ چبوترہ نے 14 سالہ قاتل کو گرفتار کرلیا ۔ اس واقعہ کے بعد ایم ایم پہاڑی شریف علاقہ میں سسرالی رشتہ داروں نے ایک 18 سالہ حاملہ خاتون عشرت سلطانہ کو زندہ جلادیا ۔ عشرت سلطانہ کی شادی اس علاقہ میں رہنے والے پینٹر شیخ شریف سے 9 ماہ قبل ہوئی تھی ۔

بتایا جاتا ہے کہ جہیز کا مطالبہ کرتے ہوئے نند ، ساس اور شوہر نے اُس بے چاری خاتون کے جسم پر گیس کا تیل چھڑک کر آگ لگادی اور دو دن تک اسے کمرہ میں ہی بند رکھا ۔ اس انسانیت سوز جرم کے مرتکبین کو پولیس نے گرفتار کرلیا ۔ جنوری میں ہی امام باڑہ یاقوت پورہ میں ایک نوجوان لڑکے عبدالنواز کو آپسی مخاصمت کے باعث انتہائی بے دردی سے قتل کر کے اس کی نعش تھیلے میں رکھ کر مین ہول میں پھینک دی گئی ۔ پولیس کے مطابق علی باعوم خسرو ، محمود ، شہباز اور دوسرے قتل کی اس واردات میں ملوث ہیں ۔ 21 جنوری کو منڈی میر عالم میں معمولی بات کو مسئلہ بناتے ہوئے ایک نوجوان تاجر کو بڑے ہی بے دردانہ انداز میں قتل کیا گیا ۔ 28 سالہ ندیم کی منڈی میر عالم میں مرغیوں کی فیڈ کی دکان ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ تالاب کٹہ کے ایک بدنام زمانہ پہلوان کے بھتیجوں نے اپنے دوستوں اظہر اور حنیف کی طرف سے ندیم پر مہلک ہتھیاروں سے حملہ کیا ۔ اس طرح اس حملہ میں ایک شریف النفس نوجوان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ دوسری طرف دبیر پورہ میں روڈی شیٹر عبدالکریم کو بھی تین یوم قبل بڑے بے دردانہ انداز میں قتل کیا گیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ 33 سالہ عبدالکریم خان شاکر نامی شخص کے قتل میں ملوث تھا ۔ حسینی محلہ میں پیش آئی قتل کی اس واردات میں مرحوم شاکر کے دوست ملوث بتائے گئے ہیں ۔

واضح رہے کہ وقار آباد میں بھی 28 سالہ نوجوان محمد خواجہ کو قتل کیا گیا ۔ پولیس قاتلوں کی تلاش میں ہے ۔ بہر حال ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہر میں مسلمان ایکدوسرے کا قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں ۔ یہ سب دین سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ جب کہ علماء کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ ملت کے نوجوانوں کو یہ بتائیں کہ ایک مسلمان کے ہاتھ دوسرے مسلمان کا قتل حرام ہے ۔ اس کے علاوہ اسلام نے ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے ۔ بہر حال ضرورت اس بات کی ہے کہ ائمہ و خطیب صاحبان نماز جمعہ کے خطبات میں ملت کو اس تباہی و بربادی سے بچنے کی تلقین کریں ۔۔