ماضی کے جھروکے ٹیپو سلطان

کیپٹن
ایل پانڈو رنگا ریڈی

ہمارے پاس ایسے صرف حکمران گزرے ہیں جنھوں نے اپنی حکمرانی کے دوران میدانِ جنگ میں موت کو گلے لگایا: کاکتیہ سلطنت کی رانی رُدرمّا، ٹیپو سلطان اور رانی جھانسی۔ حسن اتفاق سے یہ تمام تینوں دکنی تھے۔ تاہم ، شمالی ہندوستانی تاریخ دانوں کو رُدرما کے تعلق سے بالکلیہ علم نہیں، اور رانی جھانسی کو باغی لیڈر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس نے اپنے رجواڑہ کی خاطر ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف لڑائی کی۔ آر جی بھنڈارکر، رناڈے اور چٹنیس جیسے تاریخ دانوں کی وجہ سے کچھ حد تک انھیں بھی تسلیم کیا جارہا ہے۔ اتفاق سے یہ تمام ’چت پاون برہمن‘ تھے جن سے رانی لکشمی بائی کا تعلق رہا۔ بدبختی ہے کہ کوئی بھی نامور تاریخ دان نے ٹیپو سلطان کے تعلق سے نہیں لکھا ہے۔ چونکہ وہ انگریزوں کیلئے طاقتور حریف بن گئے، اس لئے سامراجی دور کے مورخ نے انھیں متعصب سَنکی اور ظالم حکمران کے طور پر پیش کیا۔ حتیٰ کہ لندن میوزیم میں ایک گھڑیال ہے۔ ہر گھنٹہ پر ٹیپو جیسی شبیہہ والا گُڑا نمودار ہوتا ہے اور برطانوی شیرببر اُسے کھا جاتا ہے جس پر سیاح لوگ ہنس پڑتے ہیں۔ یہ منظر ٹیپو کے تئیں انگریزوں میں پائے جانے والے زہر کا مظہر ہے۔ جب تک ٹیپو زندہ رہا، ایسٹ انڈیا کمپنی اپنا اثرورسوخ دکن میں نہیں منوا سکی تھی۔ اُن کی شہادت کے بعد ہی وہ مراٹھا کے خلاف لڑائی کا میدان سنبھال پائے اور انھیں 1818ء میں کوڈے گاؤں کی لڑائی میں ختم کیا، اور پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
ٹیپو جدیدیت پسند حکمران تھا اور دنیا میں پیش آنے والی تبدیلیوں سے باخبر رہا کرتا تھا۔ اُس نے فرانسیسی انقلاب کو سراہا اور یعقوبین (Jacobean) کلب میں شامل ہوا۔ اُس نے ایک جھاڑ سری رنگاپٹنم میں لگوایا اور اسے ’درخت ِ آزادی‘ کا نام دیا۔ اُس نے ایک اچھی لائبریری قائم کی اور وہاں والٹیئر، رسل اور ڈیڈراٹ کی تصانیف شامل کی گئیں۔ ایک فرانسیسی لائبریرین کو ملازمت پر رکھا گیا کہ اُن کا تصانیف کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کرایا جاسکے۔ انھوں نے فرانسیسی زبان بھی سیکھی اور فرانس کے نپولین بوناپارتے کے ساتھ راست طور پر خط و کتابت کی۔ ٹیپو نے ہندوستان سے انگریزوں کو نکال باہر کرنے کیلئے نپولین سے مدد چاہی۔ نپولین نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ تاہم، جنگ ِ نیل میں نپولین کو شکست ہوگئی اور ہندوستان کی طرف اُس کا قصد اختتام کو پہنچا۔ ٹیپو خاص طور پر راکٹ ٹکنالوجی میں موجد کی حیثیت رکھتا تھا جس کی نامور ہندوستانی ٹکنالوجسٹ شخصیتوں روڈم نرسمہا اور اے پی جے عبدالکلام نے تعریف کی ہے۔ ٹیپو برطانوی سامراج کا بے تکان دشمن تھا۔ وہ دیگر ہندوستانی حکمرانوں کے برعکس تھا؛ اُس نے نہ صرف اپنی سلطنت کی حفاظت کرنی چاہی بلکہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کی جستجو بھی کی۔ اُسے خوب اندازہ تھا کہ انگریزوں کی بری اور بحری دونوں نوعیت کی مضبوط طاقت ہے۔ اس ضمن میں اُس نے کروار ساحل کے پاس بندرگاہیں تعمیر کرانے کی کوشش کی۔ انھوں نے فرانسیسی انجینئر کو آبدوز اور تجارتی جہاز بنانے کی ذمہ داری سونپی۔ یہ اقدام انگریزوں کو ہرگز اچھا نہ لگا۔ علاوہ ازیں، ٹیپو نے میسور کی معیشت کو مضبوط کیا۔ موجودہ صنعت ِ ریشم کی شروعات ٹیپو سلطان کی سرپرستی ہی ہوئی۔ اُن کی جنگلاتی پالیسی نے صندل کی لکڑی اور سنڈر کے درختوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا ۔ اُن ہی کی حکمرانی کے دَور میں کولار سونے کی کانوں کی کھدوائی شروع کی گئی۔
اسی طرح ٹیپو اپنے نظریاتی افکار کیلئے بھی معروف ہے۔ وہ اس اصول پر ایقان رکھتے تھے کہ ’بادشاہی نہ صرف خونی رشتہ بلکہ مذہب کو بھی جانتی ہے‘۔ انھوں نے کئی ہندوؤں کو سرکاری نوکری کیلئے ملازمت دی۔ پورنیا اعلیٰ رتبہ کا وزیر اور میر اشرف کے طور پر معروف تھا۔ اُن کا خازن کشن راؤ ائینگر تھا، اور اُس کے بھائی رنگا ائینگر کو پولیس کا اِنچارج مقرر کیا گیا تھا۔ ٹیپو نے مولچند اور سوجن کو اپنے نمائندوں کی حیثیت سے دہلی میں مغل دربار کو بھیجا تھا۔ وہ ہندوؤں سے فراخدلی سے پیش آتے تھے۔ انھوں نے قیمتی پتھروں سے جڑا ’گولڈن کپ‘ نانجنگڈ کی سری کانتیشور مندر کو دیا تھا۔ اسے بھگوانوں کو بھینٹ کی جانے والی چیزوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ 1791ء کی میسور۔ مراٹھا جنگ کے دوران کی ایک اور نسبتاً غیرمعروف بات یہ ہے کہ مراٹھا آرمی کمانڈر رگھوناتھ پٹوردھن نے نہ صرف سرنگیری شنکراچاریہ مٹھ کو لوٹ لیا بلکہ دیوی شاردا کی مورتی بھی غائب کردی۔ اس مٹھ کے سربراہ شنکر بھٹ نے ٹیپو کے سامنے مدعا رکھا اور اس مٹھ کی تعمیرنو کیلئے فنڈ فراہم کرنے کی درخواست کی۔ ٹیپو نے اسے قبول کیا اور درکار فنڈز بھیجے۔ سری رنگا پٹنم کی مشہور رنگناتھ مندر بھی ٹیپو کے فراہم کردہ فنڈ سے تعمیر کی گئی۔ اگر وہ تصویری خاکوں کو تباہ کردینے والا ہوتا تو اپنے محل کے قریب اس قدر بڑی مندر قائم کرنے کی اجازت نہیں دیا ہوتا۔ یہ بجائے خود ٹیپو کی رواداری کا بیّن ثبوت ہے۔ مہاتما گاندھی اور ٹیپو سلطان کے درمیان ایک بات مشترک ہے کہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کیا جائے۔ ٹیپو نے سپاہی ہونے کے ناطے ہتھیار کا استعمال کیا۔ اس مساعی میں اُسے شہادت ملی۔ یہ ضائع نہیں ہوئی بلکہ اس نے بعد کی نسلوں کو ہندوستان کی آزادی کیلئے لڑنے کا حوصلہ بخشا۔ ٹیپو کا مقام بی جے پی اور کانگریس دونوں سے کہیں بالاتر ہے۔ اُن کے نام کا یہ سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی امکانات کو بڑھاوا دینے کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔