کیپٹن ایل پانڈو رنگا ریڈی
عام خیال اور لکیری سوچ ہے کہ دیشمکھ شخصیتوں کو نظامِ دکن نے مقرر کیا تھا اور وہ نہ صرف سماج پر طفیلی بوجھ بن گئے بلکہ ناقابل بیان پریشانیوں کو لگاتار مسلط رکھا۔ اُن کی ’گدیاں‘ ظلم کی علامتیں تھیں۔ تاریخ میں ہر ’نظریہ‘ کا اپنا رول رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی مخصوص ’نظریہ‘ ضرورت سے زیادہ قائم رہ جاتا ہے تو یہ سیاسی یا سماجی انتشار کا سبب بن جاتا ہے۔ رومن سلطنت کے زوال کے بعد اس کے عملداری والے علاقوں میں امن اور بھائی چارہ برقرار رکھنے کیلئے کوئی مضبوط اور مرکزی دسترس والی اتھارٹی نہیں تھی۔ اس کے نتیجے میں لاقانونیت پیدا ہوئی اور دیہات کو پامال کردیا گیا اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا جب کہ اُن کی حفاظت کیلئے کوئی اتھارٹی آگے نہیں آرہی تھی۔ بے یارومدگار لوگوں نے حملہ آور ہجوموں کے خلاف دفاعی انتظامات کئے۔ اُن دفاعی انتظامات کے سربراہان بعد میں جاگیردار حاکم بن گئے۔ اس طرح جاگیرداری کی یورپ میں چھٹی صدی میں داغ بیل پڑی اور 11 ویں صدی میں بادشاہتوں کے عروج تک جاری رہی۔اسی طرح 1687ء میں گولکنڈہ کے زوال کے بعد دکن میں امن و ضبط کا بُرا حال ہوا۔ اسی مدت میں بیجاپور، بیدر، بیرار اور احمدنگر کے سابقہ فوجی بیروزگاری کے شکار تھے اور وہ جرائم کی طرف بڑھ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ٹھگ اور پنداری کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ حکمرانی کی کچھ جھلک دکھائی نہ دیتی تھی کہ اُس وقت کے مجبور لوگوں کی زندگیوں، مال و جائیدادوں کی حفاظت کی جاسکے۔ یہی دور میں بعض افراد نے حملوں کے خلاف مقامی سطح پر دفاعی انتظامات کئے۔ دیہات کو ٹھگوں کے حملوں سے بچانے کی سعی میں گاؤں کے مکھیا ؍ سرداروں نے بروجوں کے ساتھ بڑے ’ گدیاں‘تعمیر کئے۔ حملوں کے وقت گاؤں والے ان ’قلعوں‘ میں پناہ لے لیتے اور ہٹے کٹے افراد لڑائی کی رضاکارانہ خدمات فراہم کرنے والے بروجوں اور دیگر کی طرف سے لڑنے میں مدد کرتے۔ تاہم، بعد کے اصلاح کاروں نے تاریخ کو مسخ کیا اور اسے ’ویٹی یا Vetti‘ یعنی جبری خدمت قرار دیا۔ آج کی نیکی کل کی بدی ہوجاتی ہے۔ دیشمکھ اور اُن کے ’قلعے ‘ اچھا کام کرچکے۔
’دیشمکھ‘ بہ الفاظ دیگر عہدہ کا نام تھا۔ یہ چھترپتی شیواجی کی اختراع رہی جس نے اپنی عملداریوں کو سوراج، سامراج اور مغلائی میں تقسیم کیا۔ سوراج کا مطلب شیواجی کی راست حکمرانی والے مراٹھا علاقے؛ اور وہاں پیداوار کا 1/6 حصہ زمین کی مالگزاری کے طور پر وصول کیا جاتا تھا۔ سامراج کا مطلب شیواج کی حکمرانی کے غیرمراٹھا علاقے ۔ وہ ایک چوتھائی پیداوار کو ریونیو کے طور پر وصول کیا کرتا تھا۔ تاہم مغلائی علاقے مغلوں کے تحت تھے لیکن وہ ایسے علاقوں میں پیش قدمی کرتے ہوئے پیداوار کا 1/10 حصہ وصول کیا کرتا تھا جسے ’چَوتھ‘ اور ’سردیش مکھی‘ کہتے تھے۔ شیواجی نے دیشمکھ مقرر کرتے ہوئے اُن کو نہ صرف چوتھ اور سردیش مکھی وصول کرنے کی ذمہ داری سونپی بلکہ وہ ’دھرم‘ ہند پد پادشاہی (مراٹھا قومیت) کی برقراری کی تاکید بھی کرتے۔ اکاؤنٹنٹ (محاسب) کو ’دیشائی‘ اور اُن کے ماتحت کو ’دیشپانڈے‘ کہا جاتا۔ شیواجی کے دیہانت کے بعد کمزور مغل شہنشاہ رفیع الدراجت نے پیشوا بالاجی وشواناتھ کو 1719ء میں دکن کے چھ صوبوں خاندیش، بیرار، احمدنگر، بیدر، حیدرآباد اور بیجاپور سے چوتھ اور سردیش مکھی وصول کرنے کی اجازت دے دی۔ اس مہربانی کے عوض مراٹھا حکمرانوں سے توقع باندھی گئی کہ وہ شہنشاہ کی خدمات میں 15,000 گھڑسواروں کا جتھہ تیار اور دکن میں نظم و ضبط برقرار رکھیں گے۔ پیشوا باجی راؤ۔ I نے انھیں صوبۂ دکن میں چوتھ اور سردیش مکھی کی وصول کیلئے مقرر کیا۔ باجی راؤ نے نظام اول کو پالکھیڑ کی لڑائی میں ہرایا۔ نظام کو مراٹھاؤں کے مطالبات جیسے چوتھ اور سردیش مکھی کو قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس ضمن میں کنونشن 6 مارچ 1728ء کو مونگی سیوا گاؤں میں دستخط کیا گیا۔رائلسیما اور آندھرا کوئی دکن صوبہ کا حصہ نہ تھے۔ یہی وجہ ہے وہاں چوتھ کی وصولی کیلئے کوئی دیشمکھ نہ رہے۔ یہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ دیشمکھوں نے چوتھ اور سردیش مکھی کی مغلائی خطوں سے وصولی 1818ء تک کی۔ اس مساعی میں دیشمکھوں نے طاقتور سالار جنگ، راجہ کشن پرشاد، راجہ شیوراج بہادر اور اُن جیسی شخصیتوں کو تک نہیں بخشا۔ یہ دلچسپ جانکاری ہے کہ موجودہ شادنگر کا اصل نام فاروق نگر تھا۔ یہ راجہ کشن پرشاد کی جاگیر تھی۔ اُن کا شاعری کی طرف میلان رہا اور وہ اپنی شاعری میں تخلص شہدؔ رکھا کرتے۔ اس طرح اُن کی جاگیر فاروق نگر کا نام تبدیل ہوتے ہوئے شادنگر پڑگیا۔ تاڈیکونڈہ دیشمکھوں نے ضلع محبوب نگر میں شیوراج بہادر کی جاگیروں سے چوتھ وصول کیا۔
اس کی بجائے سیما ۔ آندھرا میں زمینداروں کا بول بالا تھا۔ لہٰذا، دیشمکھوں کا وجود آصف جاہوں کی مرہون منت نہیں رہا۔ اُس وقت کے نظام نے انھیں ختم کرنے کی ناکام کوششیں کیں۔ پیشوا باجی راؤ نے 1738ء میں نظام کو بھوپال کی لڑائی میں ہرایا۔ اس کی سیاسی اہمیت دورائے سرائے کنونشن میں مضمر ہے، جس پر دستخط کیلئے نظام کو مجبور ہونا پڑا تھا۔ اس کے ذریعے پیشوا نے سارا مالوا خطہ ہتھیا لیا اور دکن میں چوتھ اور سردیش مکھی کے حقوق حاصل کرئے جو قبل ازیں مغل شہنشاہ کی جانب سے منظور کئے جاتے تھے۔ اگرچہ نظام نے میدانِ جنگ میں بہت جتن کئے لیکن اُن کا اپنے حلفنامہ کی مطابقت میں عمل کرنے کا ارادہ ہرگز نہ تھا۔ انھوں نے اپنا دارالحکومت اورنگ آباد سے حیدرآباد کو منتقل کرلیا۔ مراٹھا اثر کی باقیات دیشمکھوں کے گھرانوں میں نوٹ کی جاسکتی ہیں۔ ریڈی لوگ جو چوتھ وصول کرتے تھے وہ دیشمکھ کہلائے اور مراٹھا کرپشن بن گئے۔ اُن کی عورتیں مراٹھا عورتوں کی مانند لباس زیب تن کرتیں اور اپنے ناموں کے آگے ’بائی‘ کا اضافہ کرلیا۔ مراٹھا اثر اُن کے باورچی خانوں میں تک دیکھا جاسکتا ہے یہاں تک کہ 1956ء میں گونگورا کلچر کا ارتقاء ہوا۔ لفظ ’سامبر‘ کو سمبھاجی سے جوڑا جاسکتا ہے۔ اُس کے جانشینوں نے ٹاملناڈو میں تنجور پر حکمرانی کے دوران وہاں یہ ڈش متعارف کرائی۔ بعد میں یہ جنوبی ہند میں ہر جگہ مقبول ہوگئی۔ چونکہ ریڈی لوگ سیاسی طاقت میں مضبوط تھے، اس لئے دیگر اُن سے حسد رکھتے تھے۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اُس وقت کے دیشمکھ لوگ کاپو بھی ہیں جیسا کہ ریڈیوں کے دیگر فرقوں کا معاملہ ہے۔