لیبر قوانین کی خلاف ورزیاں

کے این واصف
آجرین کی جانب سے کارکنان کا استحصال ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ہر ملک کے لیبر قوانین آجر و اجیر دونوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں لیکن مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب لیبر قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ مملکت سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جہاں تقریباً 80 لاکھ غیرملکی کارکنان برسرکار ہیں۔ ان میں اندازً 70 فیصد ایسے افراد ہیں جو چھوٹی یا متوسط درجہ کی ملازمتیں کرتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں موجود ان غیر ملکی کارکنان کے مسائل بھی اتنے ہی ہیں جتنی ان کی تعداد ہے ۔ یہاں کام کرنے والے غیر ملکی کارکنان کو جو بات بہت زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے اور یہ ایک بہت عام شکایت ہے ، وہ یہ کہ کفیلوں کی جانب سے اپنے مکفول کے ساتھ ’’بندھوا مزدور‘‘ کا سا سلوک کیا جانا، کفیل کا اپنے مکفول کے پاسپورٹ اپنی تحویل میں رکھنا اور وقت پر اسے چھٹی جانے کی اجازت نہیں دینا ہے ۔ اگر کوئی ملازم اپنی کسی خانگی مجبوری ، دکھ بیماری کی وجہ سے وطن واپس چلا جانا چاہتا ہے تو اسے جانے کی اجازت نہیں دینا اس سے یہ کہنا کہ تم پہلے کمپنی کیلئے اپنی کوئی متبادل لاؤ اور پھر چھٹی یا خروج پر جاؤ وغیرہ جیسی شرطیں لگانا۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح سعودی عرب میں بھی انسانی حقوق کی حفاظت کا ادارہ قائم ہے اور وہ اس قسم کی شکایات کا نوٹ لیتا ہے اور متعلقہ محکمہ یا ذمہ داروں سے جواب طلب کرتا ہے۔ پچھلے ہفتہ مقامی اخبارات میں شائع ایک خبرکے مطابق قومی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں کفالت کے نظام میں 13 ایسی سنگین خرابیاں ہیں جو حقوق انسانی کے عالمی چارٹر سے متصادم ہیں۔ کمیٹی میں پیش کی جانے والی شکایتوں میں سے 67.8 فیصد شکایتوں کا تعلق کفیلوں سے ہے۔ اخبار میں شائع ہونے والے اعلامیہ میں قومی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ کفیل کی طرف سے کارکن کا پاسپورٹ اور اقامہ محفوظ کر کے اسے سفر سے منع کرنا عالمی انسانی حقوق کے چارٹرز میں دفعہ نمبر 13 کی صریحات خلاف ورزی ہے ۔ کارکن کی تنخواہ نہ دینا یا اسے روکنا لیبر قوانین کی دفعہ نمبر 61 کی خلاف ورزی ہے ۔ انسانی حقوق کمیٹی نے کہا کہ ہے کہ کفالت کے نظام کی ایک اور خرابی یہ بھی ہے کہ کارکن سے وہ کام لیا جائے جو معاہدے میں شامل نہیں۔ ایسا کرنے سے لیبر قوانین کی دفعہ نمبر 38 کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ کارکن سے بدکلامی کرنا ، گالی گلوج یا بد تہذیبی سے پیش آنابھی کفالت کے نظام کی خرابیوں میں سے ایک ہے۔ کسی حق کے بغیر کارکن سے ماہانہ رقم وصول کرنا، کارکن کو ایگریمنٹ کی کاپی نہ دینا اور اس کے حقوق سے اسے آگاہ نہ کرنا بھی لیبر قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ کارکن کو اس کے بنیادی اور شہری حقوق سے محروم کرنا، اسے کفیل کی منظوری کے بغیر سفر کی اجازت نہ دینا بھی ان سنگین خلاف ورزیوں میں شامل ہے ۔ کفالت کے نظام میں بعض ایسی خرابیاں بھی دیکھی گئی ہیں جو اسلامی شریعت کے بھی خلاف ہیں۔ اسلامی شریعت کسی پر ظلم کرنے اس کی ضرورت کا ناجائز فائدہ اٹھانے اور اسے حقوق سے محروم کرنے کی اجازت نہیں دیتی جبکہ کفالت کے نظام میں یہ تمام خرابیاں موجود ہیں۔ کفالت کے نظام میں انسانوں کی تجارت کا بھی ایک پہلو شامل ہے۔ کفالت کے نظام کی وجہ سے کئی سرکاری ادارے اپنے اصل مقصد سے ہٹ گئے ہیں۔ اس کی مثال محکمہ پاسپورٹ میں خروج وعودہ (Exit Re-entry) ، تصدیق، ھروب (مفرور) اور دیگر ایسے مسائل ہیںجن میں محکمہ الجھ جاتے ہیں۔ مکتب العمل (لیبر آفس) میں بے شمار Cases ایسے ہیں جو ملازمتیں اور کمپنیوں کے نزاعات پر مشتمل ہیں۔ کفالت کے نظام کی وجہ سے ویزا مافیا وجود میں آیا جو آزاد ویزا فروخت کر کے کارکنوں سے ماہانہ یا سالانہ رقم وصول کرتا ہے ۔ اس نظام کی وجہ سے آزاد لیبر متعارف ہوا جس کی وجہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ۔ انسانی حقوق کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ وزارت محنت کفالت کے نظام پرنظر ثانی کرے۔

قومی کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اس بیان کا حکومت نے نوٹ لیا۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایوان شاہی میں ایک اجلاس طلب کر کے قومی کمیٹی برائے انسانی حقوق کو مدعو کیا جہاں شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے کہا کہ مملکت کے قوانین اسلامی اصولوں پر قائم ہیں۔ یہاں ہر ایک کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے۔ آزادی اظہار رائے کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ عدل و انصاف کے اصولوں پر عمل پیرا ہیں جن میں مقامی اور غیر مقامی کی کوئی تفریق نہیں اور نہ کسی علاقے کو کسی علاقے پر فوقیت دی جاتی ہے۔ وہ ایوان شاہی میں قومی کمیٹی برائے حقوق انسانی کے نگران اعلیٰ اور دیگر اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کے بعد ان سے خطاب کر رہے تھے ۔ انہوں نے مزید کہاکہ مملکت میں عدل و انصاف کو بے حد اہمیت دی جاتی ہے ۔ عدلیہ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ آزاد عدلیہ ہی انسانی حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے۔ مملکت میں شریعت اسلامی کے اصولوں پر مکمل طور پر عمل کیا جاتا ہے ۔ اسلامی دستور کے تحت تمام اداروں کو آزادی حاصل ہے۔ ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہیں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی جاتی۔ خادم حرمین شریفین نے مزید کہا کہ مملکت میں حقوق انسان کے تحفظ کیلئے اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حقوق انسانی کمیٹی قائم کی گئی ہے ۔ تمام اداروں کو واضح ہدایات ہیں کہ وہ کمیٹی سے بھرپور تعاون کریں۔ انسانی حقوق کے تحفظ اور ان کی پاسداری کیلئے مملکت نے قومی کمیٹی برائے حقوق انسان اور اسی قسم کی دیگر اداروں کے قیام کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کمیٹی میں رکنیت حاصل کرنے کیلئے بھرپور تعاون کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پیش نظر انسانی حقوق کی ہر سطح پر حمایت اور تمام مذاہب کا احترام ہے۔ شاہ سلمان نے خاندان کی مثالی تعمیر میں خواتین کے کردار کی اہمیت پر زور دیا۔ بعد ازاں حقوق انسان کمیٹی کے نگران اعلیٰ ڈاکٹر محمد العیان نے خادم حرمین شریفین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس بات پر فخر ہے جنہوں نے ہمیشہ انسانی حقوق کی حفاظت کیلئے تمام اداروں کو خصوصی ہدایات جاری کیں جن کے ذریعہ مقامی اور مقیم غیر ملکیوں کے حقوق کی ہر طرح سے حفاظت کی جاتی ہے۔

ملک یا حکومتوں کی سطح پر ہو یا نجی اداروں اور کمپنیوں میں عدل و انصاف، انسانی حقوق کا احترام نہ ہو تو وہاں ناکامی اور زوال کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ ظلم و ناانصافی کی چکی میں پسنے والوں میں بغاوت ، نفرت اور شدید غصہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ چھٹی سے محروم رکھنے اور کارکن کا حق بننے کے بعد بھی اسے اس کے وطن چھٹی نہ جانے دینے کے سلسلے کا ایک سنگین واقعہ ہمیں یہاں یاد آرہا ہے۔ چند برس قبل جدہ میں ایک خانگی کمپنی کا مینجر جو سعودی نہیں بلکہ کسی عرب ملک کا باشندہ تھا پر پر اسی کی کمپنی کے ایک ملازم نے قاتلانہ حملہ کردیا۔ اخبارات میں شائع اس واقع کی خبر میں بتایا گیا تھا کہ ایک بنگلہ دیش ملازم جس کا چھٹی کا حق بننے کے باوجود اس کا مینجر ایک سال سے زائد عرصہ سے اسے چھٹی پر جانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ ایک روز وہ بنگلہ دیشی اپنے مینجرکو ایک سال سے زائد عرصہ سے اسے چھٹی منظور کرنے پر راضی کرانے پہونچا لیکن کچھ دیر بعد دونوں میں بحث و تکرار شروع ہوگئی۔ بڑی آواز سنکر مینجر کی بیوی بھی اندر سے دیوان خانہ میں آگئی میاں بیوی نے مل کر بنگلہ دیشی پر غصہ اور اسے برا بھلا کہنا شروع کیا جس پر بنگلہ دیشی آپے سے باہر ہوگیا اور جیب سے چاقو نکال کر ان پر حملہ کر کے میاں بیوی دونوں کو شدید زخمی کردیا۔ زخمیوں کو دواخانہ منتقل کیا گیا۔ جہاں مینجر تو بچ گیا مگر اس کی بیوی زخموں سے جانبر نہ ہوسکی اور وہ بنگلہ دیشی ملازم جسے چھٹی پر وطن جانا تھا وہ جیل پہنچ گیا۔

اب اس سارے واقعہ پر ہمیں کوئی تبصرہ کرنا نہیں ہے کیونکہ قتل کے اس واقعہ پر قانون نے اپنا کام کیا ہی ہوگا۔ مگراس کی تفصیلات یہاں کے مقامی اخبارات میں ہماری نظر سے نہیں گزری لیکن ایک عام نظریہ سے دیکھا جائے تو ہمیں اس واقعہ سے اس بات کا سبق یا نصیحت ملتی ہے کہ ناانصافی ، طلم اور حق تلفی کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔ متذکرہ واقعہ کو ہوئے کئی برس گزر گئے لیکن کارکنان کی حق تلفی ، انہیں حق بننے کے باوجود چھٹی جانے کی اجازت نہیں دیا جانا وغیرہ جیسے واقعات اب بھی جاری ہیں جبکہ اسطرح کا ظلم ہر اعتبار سے غلط ہے۔