لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ ‘ ہم کچھ غلط نہیں کررہے ہیں۔

نماز کے علاوہ واجد نے اپنے خطاب میں دو چیزیں کہی ‘ کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں اور آدھار کارڈبنانے کی ضرورت۔
گرگاؤں۔ بسائی گاؤں کی گلی نمبر 5کے ایک کمرے والے گھر سے جمعہ کے 27سالہ واجد صبح گیارہ بجے روانہ ہوئے۔ او رچلتے ہوئے سڑک سے پانچ سو میٹر کے فاصلے پر پہنچے۔

تین سولوگوں کی گنجائش کے لئے میٹس اور شیٹس بچھائے۔ ایک ٹمپو پہنچے اور پانی سے بھرے ڈرم کو ایک کونے میں لوگوں کے استعمال کے لئے رکھ کر روانہ ہوگیا۔تقریبا12:30کے قریب نمازیو ں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان میں مزدور‘ اٹورکشہ ڈرائیورس‘ دوکاندار اور خانگی شعبے کے ملازم تھے‘ بعد ازاں وہ صاف ستھرا لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ پچھلے چا رسال سے واجد یہا ں پر جمعہ کی نماز پڑھاتے ہیں۔

وہیں عام طور پر کھلے مقام پر ادا کی جانے والی جمعہ کی نماز کے لئے ایک امام ضروری ہوتا ہے ۔

واجد ہر روزز سلم بستے میں رہنے والوں کے لئے امامت کرتے ہیں۔ تاہم یہ رمضان ذرا الگ ہے۔ گڑگاؤں میں کھلے مقامات پر نماز کی ادائی کے خلاف یہ پہلا رمضان ہے جس میں ہندوستان تنظیم نے جمعہ کی نماز کے خلاف مئی میں احتجاج کیاتھا۔

وہ مقام جہاں پر واجد نماز پڑھاتے ہیں شہر کے 23کھلے مقامات میں شامل ہے‘ جو سو سے کم ہوکر اتنے تعداد میں مقرر کئے گئے ہیں ‘ جہاں پر سرکاری طورپرمئی10کے بعد انتظامیہ نے نماز ادا کرنے کی منظوری دی ہے۔

حالانکہ جمعہ کی نماز دوبجے ختم ہوجاتی ہے ‘ واجد ایک گھنٹہ بعد اپنے روم کو واپس ائے‘ میٹس ہٹانے او رعلاقے کی صفائی کررہے تھے ۔ زیادہ تر جمعہ ان کا لنچ جھونپڑیوں کے مکینوں کے ساتھ ہی ہوتا ان میں سے زیادہ تر یوپی سے نقل مقام کرکے ائے لوگ ہی ہیں۔۔

تاہم یہاں اس پر اس جمعہ ہوئی کھانا نہیں تھا کیونکہ یہ لوگ رمضان میں تھے۔ واجد کا تعلق یوپی کے بریلی سے ہے اور انہو ں نے 2009میں مدرسہ کی تعلیم مکمل کی تھی جس کے بعد انہوں نے 2014سے امامت کی ذمہ داری سنبھالی او روہ گرگاؤ ں منتقل ہوگئے۔

واجد نے کہاکہ ’’ میں ہمیشہ لوگوں کی اس بات سے مدد کرنا چاہتاہوں کہ وہ کیا صحیح ہے او رکیا غلط ہے اس کی پہنچان کریں۔نمازکی ادائی کے لئے مسلم کمیونٹی کی جانب سے واجد کو10,000روپئے ادا کئے جاتے ہیں ۔

جس میں سے وہ ایک ہزار روپئے اپنے 8فٹ کے روم کے لئے ماہانہ کرایہ ادا کرتے ہیں ۔سلم بستی میں پانچ وقت کی نماز پڑھانے والے واجد نے کہاکہ رمضان کے ایام مصروف ترین ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ ’’ عام طور پر جمعہ میں سینکڑوں لوگ آتے ہیں مگر رمضان کے دوران یہ تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ’’عشاء کی نمازد کے بعد عام طور پر میں دوگھنٹوں کے لئے بچوں کو عربی اور اُردو پڑھاتاہوں۔ دوبیاچ میں 35کے قریب طلبہ پڑھتے ہیں‘‘۔

شام میں نو بجے کے قریب وہ واپس گھر کو آتے ہیں اور افطار کے بعد شام کا کھانا سلم بستی والوں کے ساتھ پورا کرتے ہیں۔واجد نے کہاکہ وہ جہاں پر نماز پڑھاتے ہیں اس مقام کے متعلق گرگاؤں میں کسی کو اعتراض نہیں ہے او ر وہ جگہ کھلے مقام میں نماز ادا کرنے کے پر ہورہے اعتراض اور احتجاج میں بھی شامل نہیں ہے۔

عہدیداروں نے کہاکہ رمضان کے بعد مزید 23مقامات کو منظوری دی جائے گی۔ گرگاؤں ڈپٹی کمشنر ونئے پرتاب سنگھ نے کہاکہ ’’ دونوں گروپس کا انتظامیہ کے ساتھ بہترین تعاون چل رہا ہے۔ ہم نے بات چیت کا دروازہ کھلارہا ہے مگر شہر میں امن وضبط کے متعلق کوئی بھی سمجھوتا ہم نہیں کرسکتے ہیں‘‘۔تاہم واجد نے کہاکہ ان کا اثر نماز کی جماعت پر پڑا۔ لوگوں کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

ایک ماہ بعد پولیس کی نگرانی میں نماز کا سلسلہ جاری رہا۔ بڑا مسئلہ گرگاؤں میں مساجدکی کمی کا ہے۔ مساجد کی حالت یا تو بہت خستہ حال ہے یا پھر دودوراز مقام پر ہیں۔ کھلی جگہ پر جمعہ کی نماز ادا کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ وقف بورڈ عہدیداروں نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ گرگاؤں میں دوسے تین لاکھ مسلمان ہیں اور تیس سے بھی کم مقامات نماز کے لئے ہیں‘‘۔

واجد نے نماز کے بعد کبھی بھی کوئی بدنظمی نہیں ہوئی۔ ہم کچھ غلط نہیں کرتے‘ اور لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے۔ ہمارا مذہب بھی ہمیں دیش کی حفاظت کرنے کا حکم دیتا ہے‘ وطن سے محبت کرنا سیکھاتا ہے‘‘۔جمعہ کا خطبہ ادا کرنے اور نماز کی تکمیل کے کچھ دیربعد ایک جھونپڑی نے نیچے کھڑے ہوکر واجد کھانے پینے کے اشیاء کی قیمتوں کے متعلق بات کررہے تھے۔ اچانک انہوں نے سب کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا ادھار کارڈبنالیں۔

واجد نے ایک مائیکروفون میں کہاکہ’’اگر ہمارے پاس مناسب شناختی دستاویزات نہیں ہوگے تویہ نہ صرف ہمارے زندگیوں کے خطرہ ہوگا بلکہ لوگوں کو اسلام کے متعلق غلط بیانی کا موقع ملے گا۔لوگوں کو اس طرح کا موقع نہ دیں یہ ہماری ذمہ دارای ہے‘‘۔