کئی مقامات بشمول مظفر نگر ‘ باغپت او رکیرانہ میں ایسا لگ رہا ہے کہ الائنس کی طاقت کی بنیاد پر مسلمانوں میں اپنا کھویا ہوا وقار واپس حاصل کررہی ہے
مغربی اترپردیش کی ’جاٹ سرزمین‘ پر سابق وزیراعظم چودھری چرن سنگھ کی وراثت کی خامیوں کو دور کرنے کیلئے سماجی وسیاسی تجربہ کیاجارہا ہے‘ جاٹ طبقے کے سب سے قدآور لیڈر چرن سنگھ کو مسلمانوں اور بیاک وارڈ طبقات کی مساوی حمایت حاصل کرنے والے جاٹ لیڈر تھے۔
سابق وزیراعظم کی سماجی اور معاشی وراثت ان کے بیٹے اجیت سنگھ کے ہاتھوں سے اس وقت تیزی کے ساتھ نکلتے نظر ائی جب مظفر نگر میں2013کے فسادات رونما ہوئے تھے ۔
باغپت سے متصل شاملی ضلع میں فرقہ وارانہ کشیدگی نے روایتی جاٹ مسلم اتحاد کو سیاسی دباؤ میں تباہ کردیااور دونوں طبقات کے درمیان کشیدگی کا سبب بنا۔
اس کانتیجہ چرن سنگھ کے وارثین اقتدار سے محروم ہوگئے ۔ ان کے بیٹے اجیت سنگھ کو باغپت سے شکست ہوئی اور پوترے جیانت کو2014 الیکشن میں متھرا سے شدید شکست کا سامنا کرناپڑا۔
اس کی وجہہ راشٹرایہ لوک دل( آر ایل ڈی) سے مسلمانوں کی دوری ثابت ہوئی۔ اجیت سنگھ کو اس حلقہ سے شدید ذلت کا سامنا کرنا پڑا جو چرن سنگھ کی شناخت تھی۔ انہوں نے تیسری مرتبہ سہ رخی مقابلہ میں جیت حاصل کرنے والے بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) اور شکست فاش ہونے والے سماج وادی پارٹی( ایس پی) کے درمیان مقابلہ کیاتھا۔
ہلادینے والے نتیجے سے پریشان آر ایل ڈی چیف نے اپنی 80ویں سالگرہ کے موقع پر سماجی وسیاسی کاریگری پر غور فکر کیا۔ ان کا اہم مقصد مسلمانوں کی دیگر طبقات کے ساتھ اتحاد کو فروغ دینا بالخصوص جاٹ طبقے سے کے ساتھ حالات کو بحال کرنا رہا ہے۔
فبروری2018کے بعد سے ان کی ’ جن سمواد سبھا‘‘ نے مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنی جانب راغب کروایا ہے۔ اسی وجہہ سے انہوں نے مظفر نگر سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
موجودہ سیٹ جس پر بی جے پی کے متنازعہ مگر نوجوان چہرہ سنجیو بالیان نمائندگی کررہے ہیں سے 1971میں ان کے والد کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
مقابلہ اس وقت دوگنا دلچسپ ہوگیا جب مظفر نگر سے متصل باغپت کی سیٹ جہاں سے جینت امیدوار ہے بھگوا پارٹی نے ایک دوسرے جاٹ چہرے یونین منسٹر ستیا پال سنگھ کو اپنا امیدوار بنایا ہے ۔
اسی راستے کے ذریعہ بیٹا اور باپ اپنے والدین کی کھوئی ہوئی سیٹ کی بازیابی کی راہ پر گامزن ہیں۔بی ایس پی‘ ایس پی آرایل ڈی اتحاد کے خلاف کانگریس نے مذکورہ تین سیٹوں پر اپنا نہ کھڑا کرنے کا فیصلہ کیاہے ۔
اس کی وجہہ سے مظفر نگر او رباغپت میں ان کا مقابلہ راست بی جے پی سے ہے او رکیرانا میں ان حالات کی مدد سے 2018کے ضمنی الیکشن میں جیتی ہوئی سیٹ کو دوبارہ اپنے پاس رکھنے کی فراغ میں ہے
۔کئی مقامات بشمول مظفر نگر ‘ باغپت او رکیرانہ میں ایسا لگ رہا ہے کہ الائنس کی طاقت کی بنیاد پر مسلمانوں میں اپنا کھویا ہوا وقار واپس حاصل کررہی ہے۔
بی جے پی لیڈروں کے لئے غیر اثر ہونے والی بات کے مطابق ای وی پی پہلی مرتبہ نہیں بی ایس پی کا ہاتھی‘ ایس پی کی سیکل اور کانگریس کا نشان ہاتھ دیکھائی گی۔ آزاد امیدواروں کو چھوڑ کر رائے دہندوں کے لئے اب انتخاب بی جے پی کا کنول اور آر ایل ڈی کا ہینڈ پمپ ہوگا۔
نئی حکمت عملی آر ایل ڈی کو مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے میں مدد ملے گی ۔مظفر نگر کے کھتولی میں رہنے والے عاشق علی نے کہاکہ ’’ میں اگر ہوتی تو ایس پی کو ووٹ دیتا ۔ اب میںآر ایل ڈی کے ساتھ ہوں‘‘۔
وہ گجراکثریت والے توڈا گاؤں میں مشترکہ طبقات کے گروپ کے بیچ میں بیٹھ کر یہ بات کہی ۔ ان میں سے کچھ لوگ آر ایل ڈی سے قربت کا اظہار کرتے ہوئے دیکھائے دئے جن میں عام طور پر جاٹ او رگجر او رایس طبقے کے مخالف ہیں۔
ان لوگوں کے درمیان میں دراڑ پیدا کرتے ہوئے 2014میں بی جے پی نے بڑے پیمانے پر جیت حاصل کی تھی۔ مسلمانوں او ردلتوں کی طرح جاٹ بھی باغپت او رمظفر نگر میں بالترتیب380,000اور 150,000کی تعداد میں ہیں۔
جو اکثر دھابوں پر حقہ او رشیشہ بار کے مقام پر اکٹھا بیٹھے باتیں کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں۔ معمر جاٹ آر ایل ڈی کے ’’ چودھریوں‘‘ کی حمایت کرتے ہوئے دیکھائی دئے وہیں بی جے پی کے ’’ ستیہ پال سنگھ ‘‘ او ر’’ بالیان‘‘ کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھائی دئے