میرا کالم مجتبیٰ حسین
قاضی غیاث الدین سے پہلی بار میں کافی ہاؤس میں ملا تھا ۔ کافی ہاؤس کے سوائے ان سے کہیں اور ملاقات ہو بھی نہیں سکتی تھی کیوں کہ ناپسندیدہ اشخاص صرف کافی ہاؤس میں ہی پائے جاتے ہیں ۔ میرے ایک دوست نے قاضی غیاث الدین سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا ’’ان سے ملئے ۔ یہ قاضی غیاث الدین ہیں ، مشہور ماہر آثار قدیمہ ‘‘ ۔ میں نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تو میرے دوست نے اُچک کر میرے ہاتھ کو پکڑتے ہوئے کہا ’’یہ کیا غضب کرتے ہو، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ قاضی صاحب کسی سے مصافحہ نہیں کرتے ۔ ان کے سیدھے ہاتھ نے 1948ء میں ہندوستان کے آخری وائسرائے اور پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے پہلا اور آخری مصافحہ کیا تھا ۔اس کے بعد سے اب تک انہوں نے اس تاریخی مصافحہ کو اپنے ہاتھ میں محفوظ رکھا ہے ۔ وہ اس تاریخی اور جغرافیائی مصافحہ کو ہم جیسے نتھو خیروں کے مصافحوں سے ملوث کرنا نہیں چاہتے‘‘ ۔
میں نے قاضی غیاث الدین کے ہاتھ میں چھپے ہوئے مصافحہ کی طرف دیکھنے کی کوشش کی مگر مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیا ۔ قاضی صاحب میرا مطلب سمجھ گئے اور بولے ’’میاں! یہ مصافحہ تمہیں یوں ننگی آنکھ سے دکھائی نہیں دے گا ۔ اس کے لئے ایک ماہر آثار قدیمہ کی آنکھ درکار ہے ۔ ایسی آنکھ جو آگے نہیں پیچھے کی طرف دیکھتی ہو ۔ کہنے کو تو میں اس وقت بیسویں صدی کے اس کافی ہاؤس میں بیٹھا ہوا ہوں مگر میری الٹی آنکھیں پانی پت کے میدان میں گھوڑوں کو دوڑتے ہوئے دیکھ رہی ہیں ۔ نادر شاہ کا قتل عام میری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے ۔ دیکھتے نہیں ، میری آنکھوں میں کتنا خون اتر آیا ہے اور یہ دیکھو کہ بابل و نینوا کی سینکڑوں برس پرنی تہذیب اب میرے آنکھوں میں انگڑائی لینے لگی ہے‘‘ ۔ پھر آنکھ مار کر انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولے ’’وہ دیکھو ایمفی تھیٹروں میں حسینائیں کس شان سے چہل قدمی کررہی ہیں‘‘ ۔ میں ان کی انگلی کی سیدھ میں دیکھا وہاں چند ہپی لڑکے اور لڑکیاں چرس اور بھنگ سے فارغ ہونے کے بعد خوش فعلیوں میں مصروف تھے۔ میں نے کہا ’’قاضی صاحب ! آپ کی یہ الٹی بینائی تو بہت تیز ہے ۔ ایک ہی نظر میں پانی پت کے میدان ، بابل و نینوا کی تہذیب اور روم کی ایمفی تھیٹروں کو بھگتا لیتی ہے‘‘ ۔ بولے میاں ’’اس مخصوص بصارت کو حاصل کرنے کے لئے آدمی کو بڑا ریاض کرنا پڑتا ہے ’’ؔایں بصارت بزور بازو نیست‘‘۔
یہ کہہ کر قاضی غیاث الدین نے اپنی آنکھوں سے وہ عینک اتاردی جس کے فریم میں سوڈے کی بوتلوں کے پیندے جڑے ہوئے تھے ۔ عینک کے اترنے کا ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ اب کی بار میری بصارت ٹھیک ہوگئی اور ان کی ایک مصنوعی آنکھ مجھے صاف دکھائی دینے لگی ۔ میں نے بات کا رخ موڑتے ہوئے کہا ’’قاضی صاحب ! کافی پینے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ ۔ میرے دوست نے پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا ’’دیکھتے نہیں ! قاضی صاحب کے سامنے کافی کا وہ پیالہ رکھا ہوا ہے جو انہوں نے صبح میں منگوایا تھا ۔ قاضی صاحب ماہر آثار قدیمہ ہیں نا ، اسی لئے صبح کافی ہاؤس آتے ہی وہ کافی منگوالیتے ہیں اور اسے اس وقت تک نہیں پیتے جب تک کہ کافی میں ’’آثار قدیمہ‘‘ نمودار نہ ہوجائیں‘‘ ۔ اور میں نے کافی کے پیالہ میں جھانک کر دیکھا ، وہاں سچ مچ آثار قدیمہ نمودار ہوگئے تھے ، اور کافی کی سطح پر تاریخ کی ایک دبیز اور سیاہ تہہ جم گئی تھی ۔
اس ملاقات کے بعد قاضی صاحب سے پھر ہر روز ملاقات ہونے لگی ۔ قاضی صاحب کے ساتھ مشکل یہ تھی کہ وہ نئے دوستوں کو منہ نہیں لگاتے تھے اور پرانے دوست ان کو منہ نہیں لگاتے تھے ۔ تاہم ان کے دوست ان سے گھبراتے بہت تھے کیوں کہ مشہور تھا کہ ان کے ایک دوست نے ایک دن ان کی برائی کی اور دوسرے ہی دن قاضی صاحب نے یہ انکشاف کیا کہ ان کے اس دوست کا گھر جس قطعہ اراضی پر واقع ہے اس کے نیچے چندر گپت موریا کے عہد کی کچھ باقیات دبی ہوئی ہیں ، جنہیں کھدائی کے ذریعہ باہر نکالا جاسکتا ہے ۔ چنانچہ چند ہی دنوں میں اپنے دوست کے گھر کی کھدائی کا بندوست کرلیا ۔اگرچہ اس کھدائی میں کچھ بھی نہ نکلا مگر قاضی صاحب کی حسرت نکل گئی ۔ وہ ہر پرانی اور بوسیدہ چیز پر یوں جھپٹتے ہیں جیسے باز اپنے شکار پر جھپٹتا ہے ۔ سنا ہے کہ قاضی صاحب نے بیس سال کے عرصہ میں دو شادیاں کی تھیں ۔ دوسری شادی کے بعد وہ پہلی بیوی پر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی مہربان رہنے لگے تھے ۔ یوں بھی فطری طور پر انہیں کھنڈرات ہی زیادہ بھلے لگتے تھے ۔ سارا وقت پہلی بیوی کے ساتھ گزارتے اور دوسری بیوی کو انہوں نے یہ کہہ کر ٹرخادیا تھا کہ ابھی اس کے حسن کو تاریخ اور زمانہ کی گرمی میں تپنا ہے اورتپ کر کندن بننا ہے ۔ تپ کر کندن بننے سے ان کی مراد یہ تھی کہ اس کے چہرے پر جھریاں پڑجائیں اور وقت اس کی کمر کو دہرابنادے ۔ لیکن قبل اس کے کہ یہ بے چاری کندن بنتی کسی منچلے نے اسے قاضی صاحب کے گھر سے کھود نکالا اور موجودہ تاریخ کے دھارے میں بہادیا ۔
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن مرجھائے کھل گئے
زندگی کے ہر شعبہ میں قاضی صاحب کا یہی رویہ تھا ۔ کسی نئی عالیشان عمارت کو دیکھتے تو بڑی حسرت کے ساتھ کہتے ’’میاں! زندگی آنی جانی چیز ہے ۔ اس چار روزہ زندگی میں مجھے یہ موقع کبھی نہ مل سکے گا کہ میں اس عمارت کو کھنڈر بنتا ہوا دیکھوں ۔ تاریخ کے مضمون سے مجھے محض اس لئے دلچسپی ہے کہ تاریخ نے دنیا کو بڑے بڑے کھنڈرات دئے ہیں ، جنگ کے میدان دئے ہیں اور سننے کو بڑی دلچسپ کہانیاں دی ہیں ۔ اب یہی دیکھو کہ ایک بار جب میں سفر کرتا ہوا پانی پت کے میدان سے گزراتو پانی پت کی ساری جنگیں بیک وقت میرے اندر لڑی جانے لگیں ۔ وہ گھمسان کا رن پڑا کہ کنڈکٹر سے منت سماجت کرکے بس رکوائی ، سفر منقطع کیا ۔ لیکن اس ملک کی بدقسمتی دیکھو کہ جس میدان نے ہندوستان کی تاریخ کا رخ موڑدیا تھا وہاں مجھے جابجا بھینسیں گھومتی ہوئی دکھائی دیں‘‘ ۔ پھر ایک آہ بھر کر کہا ’’اصل میں ہم لوگ اپنے ماضی کااحترام کرنا نہیں جانتے‘‘ ۔ میں نے کہا ’’ماضی کے احترام سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ پانی پت کے میدان میں اب بھی جنگیں لڑی جائیں؟‘‘ ۔
بولے ’’جنگ لڑنے کے لئے اس سے بہتر کوئی اور مقام نہیں ہے‘‘ ۔
میں نے کہا ’’قاضی صاحب! آپ کی یہ منطق میرے پلے نہیں پڑی کہ محض چونکہ ہمارے پاس ایک میدان ہے اس لئے ہم جنگیں لڑتے رہیں ۔ تاریخ میں جنگیں اس لئے لڑی گئیں کہ ان کے لڑے جانے کے بارے میں پہلے سے فیصلہ ہوچکا تھا ۔ ہر جنگ اپنے مقررہ وقت پر ہوتی ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد تیسری جنگ عظیم لڑی نہیں لڑی گئی بلکہ دوسری جنگ عظیم کی لڑی گئی‘‘ ۔
قاضی غیاث الدین بولے ’’میاں تمہارے ساتھ مشکل یہ ہے کہ تم ہمیشہ بھٹک جاتے ہو ۔ میں بڑی جنگ کی بات نہیں کررہا ہوں ۔ میں اصل میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جو ہم آئے دن اپنے گھر کے افراد اور دوستوں سے چھوٹی موٹی لڑائیاں لڑتے رہتے ہیں ، انہیں پانی پت کے میدان میں جا کر لڑا جائے ۔ اس میدان میں لڑنے کا لطف ہی کچھ اور ہے اس طرح ہم اپنے ماضی کو بھی تازہ کرتے رہیں گے اور پانی پت کے میدان کی اہمیت بھی بنی رہے گی ۔ انگریز کو دیکھو کہ وہ اپنے ماضی کی کس طرح حفاظت کررہا ہے‘‘ ۔ میں نے کہا ’’تبھی تو اس کے پاس اب صرف ماضی ہی ماضی رہ گیا ہے‘‘ ۔
قاضی صاحب پر تاریخ کے ایسے دورے اکثر پڑتے رہتے ہیں۔ اپنی افتاد طبع کے باعث انہیں بیسویں صدی کے واقعات اور بیسویں صدی کے انسان سے مطلق دلچسپی نہیں ہے ۔ ان کی دلچسپی اٹھارویں صدی کے اس پَرے سے شروع ہوتی ہے اور الٹی چلتی ہوئی زمانہ ماقبل تاریخ میں پہنچ جاتی ہے ۔ حد ہوگئی کہ 1857 ء کے انقلاب کو بھی وہ خاطر میں نہیں لاتے ۔ کہتے ہیں ’’بھئی یہ تو کل کی بات معلوم ہوتی ہے ۔ دنیا نے دو بڑی جنگیں لڑیں لیکن وہ اب بھی راجہ پورس اور سکندراعظم کی جنگ میں جتے ہوئے ہیں‘‘ ۔ ایک دن مجھے ایک بھالا دکھا کر کہنے لگے ’’یہ وہی بھالا ہے جسے راجہ پورس نے سکندراعظم پر پھینکا تھا مگر راجہ پورس کا نشانہ خطا ہوگیا‘‘ ۔ ’’اور یہ آپ کے ہاتھ لگ گیا‘‘ میں نے فوراً کہا بولے ’’آپ مذاق نہ کیجئے ۔اگر اس بھالے کانشانہ خطا نہ ہوتا تو آج ہندوستان کی تاریخ مختلف ہوتی‘‘ ۔
ایک دن قاضی صاحب مجھے اپنے گھر لے گئے ۔ تنگ وتاریک گلیوں سے جب ہم گزرنے لگے تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ہم ہڑپا و موہنجوداڑو کے صدیوں پرانے راستوں سے گزر رہے ہیں ۔ قاضی صاحب کا گھر گھر نہیں بلکہ اچھا خاصا مقبرہ تھا ۔ جب یہ مجھے اندر لے جانے لگے تو میں نے پوچھا ’’قاضی صاحب! یہاں کون مدفون ہے؟‘‘ بولے ’’مدفون ہے ! بھائی صاحب یہ میری رہائش گاہ ہے‘‘ ۔میں نے رہائش گاہ کو چھو کر دیکھنے کی کوشش کی تو مجھ پر تھوڑی سی رہائش گاہ آن گری ۔ قاضی صاحب نے مجھے فوراً پَرے کھینچتے ہوئے کہا ’’برخوردار! آثار قدیمہ کو اس طرح نہیں دیکھا جاتا ، اس کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں‘‘ ۔ میں نے پوچھا ’’قاضی صاحب ! کیا آپ نے اس گھر کو بھی کھود نکالا ہے؟‘‘ ۔بولے ’’یہ گھر میرے دادا کے پردادا نے اس وقت بنایا تھا جب اورنگ زیب نے گولکنڈہ کے قلعہ کا محاصرہ کرلیا تھا ۔ اس وقت سے اب تک اس گھر کی کہیں کوئی مرمت نہیں کی گئی ۔ یہ خالص آثار قدیمہ والی عمارت ہے ۔ گولکنڈہ کے قلعہ کی اینٹ سے اینٹ بج گئی مگر اس گھر کی بنیادیں اب بھی مضبوط ہیں‘‘۔
ہم لوگ ذرا اور آگے بڑھے تو چھت میں سے آثار قدیمہ کا کچھ حصہ میرے سر پر آگرا ۔ میں نے چھت کی طرف دیکھا تو وہاں چند چمگادڑیں قاضی صاحب کی بینائی کی طرح الٹی لٹکی ہوئی تھیں ۔ پھر وہ مجھے ایک بڑے کمرے میں لے گئے جسے وہ بار بار دیوان خانہ کہہ رہے تھے ۔ اس میں پہنچ کر مجھے یوں لگا جیسے میں سینکڑوں برس پہلے کی دنیا میں پہنچ گیا ہوں ۔ آپ تو جانتے ہیں کہ جب مصوری نے ترقی نہیں کی تھی تو اس وقت انسان چینی مٹی کی بنی ہوئی رکابیاں اور اسی قماش کے دیگر برتن تزئین و آرائش کی خاطر دیواروں پر لگاتا تھا ۔ قاضی صاحب کے دیوان خانہ میں چاروں طرف دیواروں پر رکابیاں لگی ہوئی تھیں ۔ حالانکہ انکا صحیح مقام ڈائننگ ٹیبل ہونا چاہئے تھا ، جو قاضی صاحب کے پاس نہیں تھا مگر بعد میں مجھے احساس ہوا کہ قاضی صاحب نے دیواروں پر ان رکابیوں کا پلاستر چڑھا کر ٹھیک ہی کیا تھا کیوں کہ جہاں جہاں پلیٹ ٹنگی تھی ، وہاں وہاں تاریخ نے دیوان خانے کی دیوار میں سوراخ ڈال دئے تھے ۔ میں بڑی دیر تک ان رکابیوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ اگر قدرت نے قاضی غیاث الدین کو کھانے پینے کی نعمتوں سے نوازا ہوتا تو پھر یہ رکابیاں دیوار پر الٹی نہ لٹکی رہتیں ۔ دیوان خانے کے چاروں کونوں میں چند بے ترتیب پتھر پڑے تھے ۔ ان پتھروں کے بارے میں قاضی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ وہی پتھر ہیں جو بابل و نینوا کی عمارتوں میں جڑے ہوئے تھے ۔ان پتھروں نے کئی تہذیبیں دیکھی ہیں ، کئی انقلابات دیکھے ہیں اور کئی جلیل القدر ہستیاں دیکھی ہیں‘‘ ۔ ’’اور اب آپ کو دیکھ رہی ہیں‘‘۔ میں نے فوراً کہا ۔
دیوان خانے میں ایک الماری بھی رکھی ہوئی تھی جو لکڑی کی بنی ہوئی تھی ۔ اس الماری کے پٹ میں کبھی شیشے بھی لگے ہوں گے مگر اب یہ ٹوٹ چکے تھے ، مگر ان میں رکھی ہوئی چیزوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قاضی صاحب ان ٹوٹے ہوئے پٹوں کومقفل کرتے تھے ۔ وہ مجھے الماری میں رکھی ہوئی چیزیں دکھانے کے لئے لے گئے تو ایک چوہا اس میں سے نکل کر بھاگنے لگا ۔ قاضی صاحب بولے ’’آپ جس چوہے کو دیکھ رہے ہیں وہ کوئی معمولی چوہا نہیں ہے ۔ اس چوہے کے ایرانی آبا و اجداد درّہ خیبر کے راستے سے ہندوستان آئے تھے ۔ ایسے نجیب الطرفین چوہے آپ کو عام طور پر دکھائی نہیں دیں گے‘‘ ۔
میں الماری میں رکھی ہوئی عجیب و غریب چیزوں کو دیکھ ہی رہا تھا کہ قاضی صاحب نے ایک پیالہ اپنے ہاتھ میں اٹھالیا اور بولے ’’لیجئے میں آپ کو ایک نادر چیز دکھاؤں ۔ ذرا اس پیالے کو غور سے دیکھئے ۔ یہ وہی پیالہ ہے جس میں آج سے سینکڑوں برس پہلے سقراط کو زہر پیش کیا گیا تھا‘‘۔میرا تجسس بڑھ گیا ۔ میں نے فوراً پیالے کو ہاتھ میں لے لیا اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا ۔ پھر اسے روشنی میں لے گیا ۔ پیالہ چونکہ پرانا تھا اس لئے اس پر جا بجا میل کی تہیں جمی ہوئی تھیں ۔ میں نے ایک جگہ میل کو صاف کیا تو مجھے ایک تحریر صاف دکھائی دینے لگی اور آپ یقین کریں کہ وہ تحریر یونانی زبان میں نہیں بلکہ انگریزی زبان میں لکھی ہوئی تھی اور پیالہ پر نہایت چھوٹے حروف میں لکھا ہوا تھا : MADE IN ENGLAND ۔
قاضی صاحب اس پیالے کے بارے میں لمبا لکچر دیتے رہے اور میں انگریزوں کی سفاکی کے بارے میں سوچتا رہا کہ سقراط کو زہر دینے کے پیچھے بھی انگریزوں کا ہاتھ تھا ۔ (ایک پرانی تحریر)