لالہ ٔخونیںکفن ، فلسطین اُردو شاعری میں

پروفیسر محسن عثمانی ندوی
غزہ پر اسرائیل کی جارحیت تمام حدود پار کرچکی ہے۔ عرب حکومتوں کی نادانی اور مسلمانوں کے ضعف ِایمانی کی وجہ سے مسجدِ اقصیٰ کی بازیابی کا کام آج تک نہیں ہوسکا ہے۔ ایمان اگر طاقت ور ہو اور غیرت موجود ہو تو مقاومت اور معرکہ آرائی کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک قوم منزل مقصود تک نہیں پہنچ جاتی اور فتح مکمل نہیں ہوجاتی ہے۔ اسرائیل کی جنگی جرائم کی داستان خون چکاں ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ فلسطینیوں کے حوصلے پست کردیئے جائیں اور تمام عرب ممالک کیا مصر وشام، اور کیا پٹرول سے مالامال عرب ملک سب کے سب بیکسی ،بے بسی اور شکست خوردگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور کچھ اس کے سواء نہیں کرسکتے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ یا اقوام متحدہ سے امن کے نام پر اپیل کریں۔ فلسطین کی بازیابی کی واحد راہ یہ ہے کہ ہم اقوام متحدہ سلامتی کونسل، وائٹ ہاؤز پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں اور صرف اللہ پر بھروسہ کریں، ذوقِ یقین، شوق شہادت، باہمی اعتماد و اتحاد ہی وہ چیزیں ہیں جو کامیابی و فتح مندی کی کلید ہیں۔ ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فلسطین کے لئے صلاح الدین ایوبی ؒ جیسی کوئی شخصیت پیدا کردے جسے فلسطین پر غیروں کے قبضہ کا ایسا غم تھا ،جیسے کسی کا اکلوتا بیٹا مرگیا ہو۔ عرب حکومتیں عیش و عشرت میں گرفتار اور ناگفتہ بہ حالات کا شکار ہیں۔ فلسطین کا زخم دل کا داغ اور سینہ کا چراغ بن چکا ہے۔ شعراء جن کی طبیعتیں حالات سے جلد متاثر ہوتی ہیں، انہوں نے فلسطین کے قبضہ پر بہت سی نظمیں کہی ہیں۔ ہم یہاں چند نظموں کے اقتباسات پیش کریں گے جس سے اندازہ ہوگا کہ فلسطین کے قضیہ نے اُردو شاعری پر کیا اثر ڈالا ہے۔

علامہ اقبالؔ نے فلسطین کے عربوں سے مخاطب ہوکر ایک نظم کہی تھی:
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
مَیں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے ، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
’’خودی کی پرورش اور لذت نمود‘‘ یہ ہے اقبالؔ کے نزدیک مسئلہ فلسطین کا حل۔ فلسطین کا مسئلہ جنیوا میں حل ہوسکتا ہے اور نہ لندن میں اور نہ تل ابیب میں۔اقبالؔ نے ایک سے زیادہ مقامات پر مسئلہ فلسطین کا تذکرہ کیا ہے اور اس بات کا اظہار کیا ہے کہ انگریزوں کا اصل مقصد اسرائیل کی ریاست قائم کرکے عرب ملکوں کو مطیع اور زیر فرمان بنانا ہے، ورنہ اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ ہزاروں سال پہلے یہاں یہودی رہا کرتے تھے ۔چنانچہ علامہ اقبال کہتے ہیں:
ہے خاکِ فلسطین پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اَہلِ عرب کا
مقصد ہے ملوکیتِ افرنگ کا کچھ اور
قصہ نہیں تاریخ کایا شہد ورطب کا
اسی طرح نظم ’’تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار‘‘ میں جو تیشے کے زیر ِاثر لکھی گئی ہے، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یورپ کے سرمایہ دارانہ نظام میں یہودی مہاجن بہت زیادہ طاقتور ہیں اور اس معاشی قوت کی وجہ سے سیاسی معاملات کی باگ ڈور بھی اُن کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ مسئلۂ فلسطین پر علامہ اقبالؔ نے جو بیان دیا تھا، وہ اقبال ؔنامہ میں موجود ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں:

’’فلسطین میں یہود کیلئے ایک قومی وطن کا قیام تو محض ایک حیلہ ہے، حقیقت یہ کہ برطانوی اِمپیریلزم مسلمانوں کے مقامات ِمقدس میں مستقل انتداب اور سیادت کی شکل میں ایک مقام کی متلاشی ہے‘‘۔
اقبالؔ نے مسلمانوں کو بار بار قوت کے حصول کی نصیحت کی ہے۔ اقبالؔ کے نزدیک کامیابی کسی کا پیدائشی حق نہیں ہے، کامیابی حاصل ہوتی ہے، خودی کو طاقتور بنانے سے ، یقینِ محکم سے ،علوم کی تحصیل سے، علم اشیاء کی جہانگیری سے ،اور دنیوی قوتوں کی تسخیر سے۔
زندگی جہد اَست و اِستحقاق نیست
جز بہ علمِ انفس و آفاق نیست
اقبالؔ نے اہل فلسطین کو خطاب کرتے ہوئے ’’خودی کی پرورش ‘‘ اور لذتِ نمود کو اُمتوں کی ترقی اور آزادی و غلامی سے نجات کا ذریعہ قرار دیا:
سنا ہے مَیں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
آخر یہ لذت نمود کیا چیز ہے؟ مٹی کی تاریکیوں سے تخم باہر نکل کر بتدریج ایک تناور درخت بنتا ہے۔ یہی لذت نمود ہے، نازک کلی چٹکتی ہے اور رنگین و شگفتہ پھول کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یہی لذت نمود ہے۔ ایک طفل شیرخوار جو سہارے ،مدد اور دیکھ بھال کا محتاج ہوتا ہے، ایک دن تندرست و توانا اور مرد قوی بن جاتا ہے۔ یہی لذت نمود ہے۔ ’’خودی کی پرورش‘‘ دراصل اپنی پوشیدہ اور خوابیدہ صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے، اُن کو درجۂ کمال تک پہنچانے اور فطرت کے منشاء کے مطابق ان سے کام لینے کا نام ہے۔ خاک کا ایک ذرۂ بے مقدار قدموں کے نیچے پامال ہوتا ہے، لیکن اگر اس کا جگر چیر کر اس کے جوہر خفتہ کو بیدار اور برسرکار کردیا جائے تو اس سے طاقت کا وہ خزانہ دریافت ہوتا ہے جو زلزلہ افگن ہوتا ہے اور چٹانوں کو چور کردیتا ہے۔ اقبالؔ نے غلامی سے نجات کا اور شوکت و عزت کی بازیابی کا یہی راستہ بتایا ہے۔

اب ہم یہاں فلسطین کے حوالے سے اُردو کے کئی ایک دوسرے شعراء کے کلام کے اقتباسات پیش کریں گے۔ فلسطین کے جہاد اور جنگ آزادی پر فیض احمد فیضؔ اس طرح سخن سرا ہوئے تھے:
ہم دیکھیں گے ، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے ، جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں، روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے ،جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سَر اوپر جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبہ سے سب بت اُٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مزدور حرم مسند پر بٹھائے جائیں گے
سب تاج اُچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے
ایک اور شاعر محمد ایوب بسمل کی فلسطین پر ایک طویل نظم ہے، جس کا پہلا بند یہ ہے:
کفر ہے برسرپیکار یہاں برسوں سے
گرم ہے ظلم کا بازار یہاں برسوں سے
امن ہے نقش بہ دیوار یہاں برسوں سے
حق عدالت میں سرِدار یہاں برسوں سے
دے گئی تحفۂ نایاب تجھے جنگ عظیم
کرگئی ارض مقدس کو بالآخر تقسیم
’’اگلے کرسمس میں‘‘ کے عنوان سے ف س اعجاز نے جو آزاد نظم کہی ہے، اس کا پہلا جز اس طرح ہے:
اس برس فلسطین کی سرزمین کے حق میں
سوگ میں شہیدوں کے
پیڑ سب کرسمس کے
سر سے پاؤں تک ننگے
چپکے چپکے روتے ہیں
معروف و مشہور شاعر رفعت سروش کی نظم ’’اے ارضِ فلسطین‘‘ کا آخری بند اس طرح ہے:
مظلوم بھی جاگ اٹھے ہیں یلغار کریں گے
دست حق و انصاف کے باطل سے لڑیں گے
کہہ دو یہ ممولوں سے کہ اب آتے ہیں شاہین
اے ارض فلسطین! اے ارض فلسطین!
عائشہ مسرور نے ’’نئی لوری‘‘ کے عنوان سے فلسطین کے پس منظر میں یہ غم ناک نظم کہی ہے۔ خیمہ کے اندر ایک ماں اپنے بچے کو لوری سنا رہی ہے۔

اے میرے نورعین! جاگ
اے میرے دل کے چین! جاگ
تیرا شفیق باپ تو جنگ میں کام آگیا
تشنہ دہن کے ہاتھ میں موت کا جام آگیا
دشت و دمن لہو لہو
سارا وطن لہو لہو
صحن چمن لہو لہو
قوم بچھڑ کے رہ گئی
ساکھ بگڑ کے رہ گئی
مانگ اُجڑ کے رہ گئی
فلسطین کے موضوع پر کوثر صدیقی نے نظم کہی ہے، نظم کے آخر میں اپنے شعری قلم سے یوں غم فشاں ہیں:
لا اِلہ کی تیغ سے ہی ہوسکا
مرد مومن اندلس میں کامراں
لا اِلہ کا تیشہ بھر کر آبدار
لا اِلہ سے توڑ ہر بُت کا گماں
لا اِلہ کی لے کے مشعل ساتھ چل
لوٹ لے ظلمت نہ رخت ِ کارواں
لا اِلہ کو چھوڑ کر ہے ناتواں
لا اِلہ کی ساتھ رکھ تیغ و سناں
لا اِلہ کی برق شعلہ بار سے
ختم اِسرائیل کا کر آشیاں
معروف ادیب اور شاعر اور کئی کتابوں کے مصنف نعیم صدیقی نے ’’یروشلم‘‘ کے عنوان سے بہت طویل نظم کہی ہے جس کے دو تین شعر حسب ذیل ہیں:

یروشلم یروشلم تو ایک حریم محترم
تیرے ہی سنگ در پر آج منہ کے بل گرے ہیں ہم
تجھے دیا ہے ہاتھ سے بزخم دل بچشم نم
یروشلم یروشلم یروشلم یروشلم
اہل شعر و ادب قیصر الجعفری کے نام سے واقف ہیں، ان کی نظم ’’حریف ِجاں سے کہو‘‘ کے چند اشعار بطورِ نمونہ پیشِ خدمت ہیں:
زمین بوجھ اُٹھائے گی اور کتنے دن
تمام شہر ستم گروں کی زد پر ہے
ہزار بار چلاؤ ہزار بار مجھے
تمہاری شمع اَزل سے ہوا کی زد پر ہے
تمام تیر مشیت کی چٹکیوں میں ہیں
کہیں بھی جائے پرندہ قضا کی زد پر ہے
لہولہان شجر چیختے ہیں صدیوں سے
تمہاری تیشہ زنی بددُعا کی زد پر ہے
سمٹنے والا ہے یہ کاروبارِ تیرہ شبی
تمہاری رات چراغ حرا کی زد پر ہے
کھلیں گے مسجد اقصیٰ کے بند دروازے
تمہاری ساری خدائی ، خدا کی زد پر ہے