ظفر آغا
ہندوستان کے ہندو ومسلم عوام کو سلام ! گو ابھی انتخابات ختم ہونے میں تقریباً دس دن کا وقفہ ہے، لیکن پچھلے دو راونڈ کی پولنگ سے یہ واضح ہونے لگا ہے کہ اس ملک کی اکثریت کو مودی کا گجرات ماڈل نہیں بلکہ سیکولر نظام زیادہ پسند ہے۔ اس بات کا پہلا اشارہ بہار سے ملناشروع ہوا جس کے بارے میں ٹی وی نہ سہی لیکن کم از کم اب تمام اخبارات یہی کہہ رہے ہیں کہ بہار میں لالو اور کانگریس کی لہر ہے جبکہ مودی لہر کا بہار میں کہیں نام و نشان نہیں ہے۔ اور یہ کون لالو پرساد یادو ہیں جن کا ڈنکا بہار میں ایک بار پھر سے بجنا شروع ہو گیا ہے۔ یہ وہی لالو ہیں جن کو ابھی جیل بھیجا گیا تھا اور جن پر چارہ معاملے میں بد عنوانی کا الزام ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں لالو پر کتنے بڑے گھوٹالے کا الزام ہے ! محض 65-60 لاکھ روپے کا الزام ہے۔ جب کہ اس ملک میں ہزاروں کروڑ کے گھوٹالے کرنے والے سیاستداں آزادی سے گھوم رہے ہیں ،
لیکن لالو پرساد یادو تین بار جیل جا چکے ہیں! کیا واقعی لا لو کا یہ گناہ ہے کہ وہ بدعنوان ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ملک میں بدعنوانی دور کرنا کسی کا مقصد نہیں ہے۔ در اصل بدعنوانی ایک وہ ڈنڈا بن گیا ہے جس کے ذریعہ سیاستدانوں کا ایک گروہ ان سیاستدانوں کو پیٹتا ہے جو عوام کے بھلے کے لئے کام کرتے ہیں۔ لالو کا گناہ یہ ہے کہ وہ سماجی انصاف کی لڑائی لڑتے ہیں۔ وہ دبے کچلے پسماندہ عوام کے حقوق کے لئے ہمیشہ آواز اٹھاتے ہیں۔ لالو وہ ہیں جنہوں نے اس ملک میں سنگھ کی فرقہ پرستی کا مقابلہ بے خوف و خطر کیا ہے ۔ لالو کا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے اڈوانی کا رتھ روکا اور پندرہ برس بہار میں ایک بھی ہندو ۔ مسلم فساد نہیں ہونے دیا۔ لالو پرساد یادو ان کے حقوق کے پاسبان ہیں اور فرقہ پرستی کادشمن ہیں۔ اسی لئے ان کو ایک بار نہیں تین تین بار جیل بھیجا گیا جب کہ جیا للیتا جیسی لیڈر جن پر نہ جانے کب سے بدعنوانی کا مقدمہ چل رہا ہے آج بھی وزیراعلیٰ بنی بیٹھی ہیں۔ لیکن حق و انصاف کبھی کبھی تو رنگ لاتا ہے۔ تب ہی تو وہ لالو پرساد یادو جن کو ان کے دشمنوں نے جیل بھیج کر ان کی سیاسی موت کا اعلان کردیا تھا۔ آج لالو پرساد یادو کا جادو بہار کی سڑکوں پر سر چڑھ کر بول رہا ہے اور بہار میں فرقہ پرست طاقتوں کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں۔
صرف بہار ہی نہیں بلکہ اتر پردیش میں بھی سماجی انصاف کی سیاست کرنے والے ملائم سنگھ یادو اور مایاوتی نے اتر پردیش میںبی جے پی کے دانت کھٹے کر دئے ہیں۔ پچھلے دو راونڈ میں جو پولنگ ہوئی اس سے اتر پردیش میں یہی اشارے ملے ہیں کہ ملک کے سب سے اہم صوبہ اتر پردیش میں بھی مودی کا جادو نہیں چل پا رہا ہے۔ ویسے تو چنائو کون جیتا اور کون ہارا اس کی صحیح تصویر تو ووٹوں کی گنتی کے بعد سامنے آئے گی، لیکن ملائم اور مایاوتی کے اتر پردیش پچھلے رائونڈ کی پولنگ کے بعد کم از کم سیاسی اورصحافتی حلقوں میں یہ بھی چرچے ہیں کہ بی جے پی صدر راج ناتھ سنگھ لکھنو میں اور پڑوس کانپور میں سینئر بی جے پی لیڈر مرلی منوہر جوشی کوئی بہت محفوظ نہیں ہیں۔ آخر یہ ہوا کیا ! بہار اور اتر پردیش میں مودی لہر بے اثر ثابت کیوں ہونے لگی ہے۔ در اصل یہ دونوں صوبے سماجی انصاف کی سیاست کے پیچھے 25-20برسوں میں مرکز رہے ہیں۔ مرحوم وی پی سنگھ کی قیادت میں ان ہی دونوں صوبوں میںمنڈل انقلاب نے جنم لیا تھا۔ یہی جنوبی ہندوستان میں پہلی بار پسماندہ اور دلت ذاتوں کے ہاتھ میں اقتدار آیا تھا۔ لالو پرساد ، ملائم سنگھ اور مایاوتی نے تب سے ان دو صوبوں میں سماجی انصاف کا پرچم بلند کر رکھا ہے۔ آج اس سماجی انصاف کی سیاست رنگ دکھارہی ہے۔ ان صوبوں میں فرقہ پرستی اس لئے رنگ نہیں دکھا پارہی ہے کہ یہاں پسماندہ ذاتوں اور دلتوں کو لالو، ملائم اور مایاوتی جیسوں نے ہندو توا سیاست کا اصل رنگ و روپ دکھا دیا ہے۔ فرقہ پرستی محض مسلم دشمنی کا نام نہیں ہے۔ فرقہ پرستی پسماندہ ذاتوں اور دلتوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر خود پسماندہ ذاتوں اور دلتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کی حکمت عملی کا بھی نام ہے۔ لالو ، ملائم اور مایاوتی جیسے لیڈروں نے اپنے عوام کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دی ہے۔ اسی لئے بہار اور اتر پردیش میں خود ہندو عوام اپنے مسلم بھائیوں کے ساتھ مل کر ٹی وی میں چل رہی مودی لہر کو بے اثر ثابت کر رہے ہیں۔
لیکن منڈل سیاست نے اگر ایک طرف لالو، ملائم اور مایاوتی جیسے پیدا کئے تو دوسری طرف اسی سیاست سے سابقہ آندھرا پردیش میں چندر بابو نائیڈو بھی ابھر ے تھے۔ بابو آج فرقہ پرست طاقتوں کے ہم پیالہ و ہم نوالہ ہیں۔ تب ہی تو لالو جیل گئے لیکن آج پھر زندہ ہیں اور بہار میں ان کا جادو چل رہا ہے۔ ادھر چندرا بابو نائیڈو چند سیٹوں کے لئے بی جے پی کو ساتھ ملاکر بھی سیماآندھرا میں اقتدار حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ اور تو اور اب ان کے آقا مودی کے لالے پڑے ہیں ۔ جی ہاں، کاشی یعنی وارانسی سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ مودی کے لئے وہاں چنائو جیتنا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہوگا۔
خیر یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ وارانسی میں مودی کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں لیکن اب مودی کے محبوب میڈیا میں بھی یہ جھلکیاں نظر آنے لگی ہیں کہ مودی کے خیر خواہوں نے ہندوستان پر جتنی آسانی سے قبضہ کرنے کی اسکیم بنائی تھی وہ اسکیم اب کھٹائی میں پڑتی جارہی ہے اگر ایک طرف لالو، ملائم ، مایاوتی اور ممتا بنرجی جیسے علاقائی لیڈروں نے مودی کے دانت کھٹے کر رکھے ہیں تو دوسری طرف اندراگاندھی کی پوتی پرینکا گاندھی نے کانگریس میں نئی جان ڈال دی ہے۔ کل تک پرینکا گاندھی محض امیٹھی کی آندھی کہلاتی تھیں اب تو وہ ہندوستان کا طوفان ثابت ہو رہی ہیں۔ پچھلے چند دنوں پرینکا نے اپنے بیانوں سے نہ صرف اس ملک کے سیکولر عوام کو حوصلہ دیا بلکہ خود فرقہ پرست طاقتوں میں گھبراہٹ پیدا کر دی۔ پرینکا سے مودی اب اتنے خوفزدہ ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ پرینکا میری بیٹی کی طرح ہیں۔ وہ گاندھی خاندان جس کے ہر فرد یعنی سونیا اور راہل کا کیا دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ، اسی گاندھی خاندان کی ایک لڑکی پرینکا سے مودی اتنا ڈر گئے کہ ان کو پرینکا اپنی بیٹی کی طرح نظر آنے لگیں۔
یہ کچھ اور نہیں بلکہ گھبراہٹ کے آثار ہیں۔ پچھلے دو راونڈ پولنگ کے بعد یقینا ہندوستانی سیاست کا نقشہ بدلا ہے جس سے فرقہ پرست طاقتوں میں گھبراہٹ پیدا ہو گئی ہے۔ تب ہی تو مدراس میں جو بم دھماکہ ہوا ہے اس کو سیاسی رنگ دے کر پھر سے نفرت کا بازار گرم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فرقہ پرستی پر ہمیشہ نفرت کے الائو سے ہی رنگ چڑھتا ہے۔ لالو، ملائم ، مایاوتی اور پرینکا گاندھی کے حملوں کی تاب نہ لا کر اب فرقہ پرست طاقتیں ایک بار پھر نفرت کا الائو جلا نے کے گھات میں ہیں۔ اس لئے ہوشیار، خبردار ان نفرت کے کھلاڑیوں سے، یہ وقت ہے کہ ہندوستان کی ہندو مسلم سیکولر عوام کو چوکنا رکھا جائے تا کہ فرقہ پرست طاقتیں اپنی سازش میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ آثار تو یہی ہیں کہ ہندو۔ مسلم عوام نے فرقہ پرستی کا چہرہ دیکھ لیا ہے اور وہ اس کو ہرانے کو تیار ہیں۔ اسی ہندو۔ مسلم عوام کو ایک بار پھر میرا سلام جو لالو، ملائم، مایاوتی، ممتا اور پرینکا جیسوں کی قیادت میں ہندوستان کی بقا کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے ووٹوں سے فرقہ پرستی کو شکست دے رہے ہیں۔