لائین میں کیوں لگے ہوئے ہیں لوگ؟

تلنگانہ ۔ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
سنا ہے چالاک آدمی گدھے کی کھال اُتار لیتا ہے، ایک چالاک سیاستداں نے آج سارے ہندوستان میں طویل لائین میںکھڑا کرواکر کھال اُتارنے لگا ہے۔ اسٹریٹ کرائیم کرنے والے کو اُچکا کہتے ہیں، کرنسی کرائم کرنے والے نے ساری سرکاری مشنری کی خرابیوں کو عوام کے ذہنوں سے اوجھل کردیا۔ مرکز سے لیکر ریاستی سطح اور شہری علاقہ کی حد تک عوام بھول چکے ہیں کہ ان کے اپنے کئی حقوق سلب کرلئے گئے ہیں۔ نظم و نسق ناکارہ ہوچکا ہے، سڑکیں خراب ہیں، سرکاری دفاتر سنسان ہیں، مارکٹ میں آہ آہ کار ہے پھر بھی لوگ دن کی دھوپ اور رات کی سردی میں لائین میں کیوں لگے ہوئے ہیں؟ اس لائین کو ایجاد کرنے والے کے خلاف اُوف کرنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا ہے ۔ سردی سے کسکساتے ہوئے بھی زبان سے اوف نکالنے سے خائف ہیں۔ آخر اتنی مجبوری کیوں آگئی ہے، لوگ اتنے کمزور کیوں ہوگئے ہیں؟ کیا انسانی ارتقاء کو بھول گئے ۔ پتھر کے دور سے نکل کر ڈیجیٹل دور میں قدم رکھ چکے ہیں ، جنگل سے نکل کر بستیاں بنالی ہیں، ارتقاء کا عمل جاری رکھ کر انسان نے آگ جلانا سیکھ لیا تھا ، روشنی قابو میں کرلی، گاڑی کا پہیہ ایجاد کیا، جہاز ، راکٹ اور کمپیوٹر بنالیئے۔ پھر انسان نے ہتھیار بنالیئے، انہی بنیادوں سے انسانوں، جانوروں، پرندوں سب کو مارنا سیکھ لیا ، اب ارتقاء کا عمل تبدیل کرنے والا انسانوں کو لائین میں لگا رہا ہے کیا یوں ہی لگے رہوگے۔

حکومت کی غلطیوں، کمزوریوں، من مانی فیصلوں کو نہیں پکڑ سکو گے۔ ظاہر بات ہے جن کو دال روٹی کے لالے پڑے ہوں وہ ان سب باتوں پر دھیان کیوں دیں گے۔ جب ان کی ایک ہزار کی نوٹ بازار میں چل نہیں رہی ہے تو وہ یہ کیوں دیکھیں گے کہ ان کا لیڈر ہزاروں کروڑوں روپئے کے کالا دھن کو ان کی آنکھوں کے سامنے سفید بنالینے میں کامیاب ہوتا ہے اور وہ اب بھی اپنے ہزار کے نوٹ کو چلانے میں ہی دوڑدھوپ کررہے ہیں۔ ایک چالاک سیاستداں کی یہ سیاسی ارتقاء ہی تو ہے کہ آج اس نے اپنی ساری خرابیوں پر سے عوام کی توجہ چٹکی بجاکر لائین میں لگادی ہے۔ رشوت کا خاتمہ کرنے کے نام پر اندھا دھند طریقہ سے رشوت کا بازار گرم کررہا ہے۔ کالا بازاری بڑھ چکی ہے ، جن کے پاس پرانے نوٹ ہیں انہیں چلانے کیلئے ایک کے بدلے 70 یا نصف حصہ پر آمادہ ہورہے ہیں۔ ملک بھر کے حالات جو بھی ہیں اس کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ حیدرآباد تلنگانہ کا حال بھی برا ہے۔ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر نے 500 اور 1000 روپئے بند کرنے کا مشورہ دے کر جو غلطی کی تھی اس کا خمیازہ آندھرا پردیش کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔وجئے واڑہ، وشاکھاپٹنم اور دیگر پڑوسی شہروں میں لوگوں کو چلر کے حصول کیلئے دوڑتے دیکھا جارہاہے۔

15دن ہوچکے ہیں پھر بھی بینکوں میں نئے نوٹوں کی سربراہی خاطر خواہ نہیں ہے۔ حیدرآباد کے علاقہ بورا بنڈہ میں چار دن سے نوٹوں کی تبدیلی کا عمل نہیں ہوا تو لوگ ہر روز قطار میں کھڑے ہوکر اکتاہٹ کا شکار ہوگئے، ان کی برہمی صرف نعرہ بازی تک ہی  دب کر رہ گئی۔ نعرے لگانے کے لئے بھی اب لوگوں میں طاقت نہیں رہ سکی۔ اے ٹی ایمس خالی پڑے ہوئے ہیں، ہر جگہ رقم نہیں کے بورڈس لگادیئے گئے جن اے ٹی ایمس کو کھلا رکھا گیا ہے وہاں صرف 2000 روپئے کی ہی نوٹ نکل رہی ہے اور یہ نوٹ بھی چلر خریداری کے کام نہیں کرے گی۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے بڑے نوٹ بند کردیئے گئے مگر جن دہشت گردوں کو مارا گیا ان کے قبضہ سے2000 کے نئے نوٹ برآمد ہوتے ہیں۔ جنگلات میں نکسلائیٹس نے بھی اپنی جمع پونجی کو وائیٹ کرنے کے لئے دیہی عوام کا سہارا لینا شروع کیا ہے۔ گاؤں کے بزرگوں پر دباؤ ڈال کر ہر ایک بینک اکاؤنٹ میں 2.5 لاکھ روپئے ڈپازٹ کروائے جارہے ہیں۔ لوگوں سے  زبردستی وصول کردہ رقم کو بینک اکاؤنٹس میں جمع کرانے میں کامیاب ہورہے ہیں تو پھر کرنسی نوٹوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرنے والا حکمراں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ ملک کے کئی گمنام کھرب پتیوں نے اپنے کالے دھن کو سفید کرلیا اور اس نوٹوں کی تبدیلی کے عمل نے بیروزگار نوجوانوں کو بھی روزگار فراہم کردیا ہے۔ بینکوں میں نوٹوں کو جمع کرانے بیروزگار نوجوان مقررہ رقم کے عوض اپنی خدمت فراہم کررہے ہیں۔ بینک کی لائین ہو یا اے ٹی ایم کی لائین کے لئے ان کا ریٹ مقرر ہوچکا ہے۔ ایک، ایک نوجوان کو چار، چار،چھ، چھ اے ٹی ایم کارڈس آپریٹ کرتے دیکھا جارہا ہے تو کہیں10 ، 10 کارڈس استعمال ہورہے ہیں۔کالا دھن پوری طرح سرکیولیٹ ہورہا ہے۔ پولیس بھی حیران ہے کہ اس قسم کے کرائم اور دھاندلیوں کو کیا لیگل عنوان دیا جائے۔

نوٹوں کی تبدیلی نے امیروں اور غریبوں ہر کسی کو کنگال بنادیا ہے۔ریاستوں کے سرکاری خزانے بھی خالی ہیں۔ تلنگانہ کا سرکاری خزانہ 3000 کروڑ روپئے کے خسارہ کا شکار ہے۔ جس نئی ریاست کے حکمراں کے پاس اس کی ذاتی دولت کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے لیکن سرکاری خزانے کو لاحق نقصان کو لیکر وہ پرچارک بن چکے ہیں، اس ریاست کا کوئی لیڈر ذاتی طور پر اپنے 7000 کروڑ کالے دھن کو سفید کرنے کی فکر میں مبتلاء ہے وہاں ایک مملکت کو 3000 کروڑ روپئے کا نقصان ہورہا ہے تو کسے فکر لاحق ہوگی، اس بڑی خرابی کا ذمہ دار کون ہوگا۔ ہر ریاست کو کنگال کردینے کا مطلب تمام ترقیاتی کام روک دینا ، انفراسٹرکچر کی ترقی کو ٹھپ کردینا ہوتا ہے۔ اس ملک میں جب سے الکٹرانک میڈیا نے اپنا بچپن ترک نہیں کیا ہے تب تک عوام کے جذبات کے ساتھ یوں ہی کھیل جاری رہے گا۔ یہ عوام کے مذہبی، معاشی اور سماجی جذبات کے ساتھ کھلواڑ کا ہی نتیجہ ہے کہ  ان پر ناکارہ، نابالغ سیاستداں مسلط ہورہے ہیں۔ اب یہ بھی دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ کسی وقت بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

روپیہ چھین لیا گیا، زمین چھین لی جائے گی، آگے چل کر شہریوں کے بدن سے کپڑے بھی اُتار لئے جائیں گے۔ کفر کی بنیاد پر قائم طاقت ظلم کرتی ہے تو عوام کو آج کی صورتحال کی طرح ہر روز آزمائش سے گذرنا پڑتا ہے۔ فلمی اسکرین پر ایکشن دکھانے والے بھی بے ایکشن ہوچکے ہیں۔ سیاسی میدان میں کرتب کا مظاہرہ کرنے والے بھی چادر اوڑھے سوگئے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کرنے والوں نے بھی خود کو نمایاں کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ لوگوں کو ہی اپنا مزاج بدلنا ہوگا۔ جہاں لوگ ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے وہاں کا منظر قبرستان کی طرح نمودار ہوتا ہے۔ لوگو اپنا مزاج بدلو، نوٹ بدلنے کیلئے اپنے حق کے لئے کھڑے ہوجاؤ ورنہ ایک کے بعد ایک سرکاری خرابیوں کا غبارہ اپنے کاندھے پر اُٹھائے زندہ بستیوں کو قبرستانوں میں تبدیل کرنے کے لئے  مجبور بنادیئے جاؤ گے۔ بہت اچھی تقریر کرکے آپ کے جذبات کو مشتعل کرنے والے کئی موجود ہیں اپنے کاموں سے آپ کو ترقی دلانے والے کہیں نہیں ہیں۔ آپ کی ریاست کا حکمراں اس وقت دو کشتیوں کی سواری کررہا ہے۔ ایک طرف مرکز کے نوٹوں کی تبدیلی کے فیصلہ کی حمایت کررہا ہے تو دوسری طرف عوام کو ہونے والی پریشانیوں سے حکمران کو واقف کروانے کیلئے اپنے ارکان پارلیمنٹ کو مصروف کردیا ہے۔ یہ کوئی بات  ہوتی ہے کہ پارٹی کا سربراہ  مرکز کی  پالیسی کا حامی ہو اور اس کے ارکان پارلیمنٹ ہی اس پالیسی کے خلاف آواز اُٹھائیں۔ شاید ملک کا نمبر ایک چیف منسٹر ہونے کا لقب دیئے جانے کے بعد مرکز کا حق نمک ادا کیا جارہا ہے۔
kbaig92@gmail.com