محمد مصطفی علی سروری
25 فبروری کو حیات نگر پولیس اسٹیشن کے حدود سے خبر آئی کہ وہاں پر ایک 22 برس کی مسلم لڑکی دواخانے میں علاج کے دوران فوت ہوگئی ۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا نے 26 فبروری کو اس حوالے سے تفصیل سے خبر دی کہ حیات نگر میں مقیم ایک مسلم گھرانے کی لڑکی جو کہ گریجویشن کررہی تھی اپنے ہی گھر میں خودکشی کی کوشش کی جس پر اس کو دواخانہ لے جایا گیا ۔ جہاں پر دو دن بعد وہ فوت ہوگئی ۔ خبر کا سب سے حیرت ناک پہلو یہ تھا کہ اس لڑکی نے اخبار کی اطلاع کے مطابق اپنی خودکشی سے پہلے ایک نوٹ بھی لکھ کر چھوڑا ہے اور اس نوٹ کے مطابق لڑکی اپنے عاشق کے بغیر زندگی گذارنا نہیں چاہتی تھی سو اس نے خود ہی اپنی زندگی کو ختم کرنے کی کوشش کی۔گھر والوں کو خودکشی کا پتہ چلا تو ان لوگوں نے لڑکی کو ایک خانگی ہاسٹل سے رجوع کیا جہاں پر علاج کے دوران اس لڑکی کی موت واقع ہوگئی ۔
اردو کے اخبارات نے بھی اس مسلم لڑکی کی خودکشی کے واقعہ کی خبر شائع کی لیکن اردو اخبارات نے اس لڑکی کا نام شائع نہیں کیا ۔ لیکن انگریزی اور تلگو کے اخبارات نے نام کے ساتھ اور بھی تفصیلات شائع کی کہ 22 برس کی یہ نوجوان مسلم لڑکی دراصل اپنے ہندو پڑوسی نوجوان سے محبت کرنے لگی تھی اور اس نے اسی ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کے لئے اصرار کیا اور جب لڑکی کے گھر والے اس بات کے لئے تیار نہیں ہوئے تو اس نے اپنے گھر میں ہی خودکشی کرلی ۔
کیا اس حیات نگر کی مسلم لڑکی کی خودکشی کے معاملے کو ہم نظرانداز کردیں کہ ارے جناب کیا چن چن کر مسلمانوں کے متعلق منفی خبریں نکالتے ہیں ۔ ایسا پہلی مرتبہ تھوڑی ہوا ۔ پہلے سے بھی ہم سنتے آرہے ہیں ہر زمانے میں ایسی دو ایک شادیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ ان کو نظر انداز کردینا چاہئے؟
لیکن میرا دماغ اس مشورہ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے ۔ میری جتنی کچھ کم علمی ہے اس کے باوجود مجھے لگتا ہے کہ اس طرح مسلم لڑکیوں کا ہندو لڑکوں کے ساتھ شادی کے لئے اصرار کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور تشویش کی بات ہے ۔
یہ تو 25 فبروری کو حیات نگر حیدرآباد کی خبر تھی اسی دن یعنی 25 فبروری کو ہی ہریانہ کے ضلع یمنانگر سے ایک خبر آئی ، ہندی کا کثیر الاشاعت اخبار پنجاب کیسری نے اس حوالے سے ایک بڑی سی خبر تصویر کے ساتھ شائع کی جس کی سرخی تھی ’’پیار کے لئے شہزادی نے دی بڑی قربانی‘‘ ۔
خبر میں تفصیل کے ساتھ بتلایا گیا کہ ہریانہ کے ضلع یمنانگر میں رہنے والی ایک مسلم لڑکی شہزادی کی اس کے گھر والوں نے ایک مسلم لڑکے کے ساتھ شادی طئے کردی تھی اور جس دن شہزادی کی شادی کے لئے بارات اس کے گھر پہونچی وہ اس وقت کسی طرح اپنے گھر سے بھاگ کھڑی ہوئی اور شہزادی کا پتہ اس وقت چلا جب وہ ایک غیر مسلم لڑکے اوتار سنگھ کے ساتھ ایک مجسٹریٹ کے روبرو حاضر ہوتی ہے اور بیان دیتی ہے کہ اس کو کسی نے زبردستی نہیں بھگایا بلکہ وہ اپنی مرضی سے اپنے عاشق اوتار سنگھ کے ساتھ گھر چھوڑکر بھاگی ہے اور وہ اب اپنا گھر ہی نہیں بلکہ مذہب کو چھوڑ کر اپنا نیا نام من پریت رکھ لیا ہے ۔ اتنا ہی نہیں پنجاب کیسری اخبار نے اس حوالے سے خبر میں مزید لکھا ہے کہ شہزادی عرف من پریت نے ہائیکورٹ میں ایک عرضی اپنے والدین کے خلاف دائر کی کہ اس کی شادی سے ناراض اس کے گھر والے اس کو مار سکتے ہیں اس لئے اس کی حفاظت کے لئے سیکورٹی فراہم کی جائے ۔ عدالتی عرضی داخل کرنے کے بعد پولیس کی سیکورٹی میں شہزادی دہرہ دون جاتی ہے اور اپنے عاشق کے ساتھ باضابطہ طور پر ایک مندر میں شادی کرلیتی ہے ۔
حیدرآباد کے حیات نگر کی لڑکی ہو یا ہریانہ کی یمنانگر کی لڑکی ایک نے غیر مسلم سے شادی کی اجازت نہ دینے پر خودکشی کرلی ۔ دوسری نے گھر والوں کے خلاف ہی پولیس میں شکایت کرکے اپنی پسند کے غیر مسلم لڑکے کے ساتھ مندر میں شادی کرلیتی ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق دونوں لڑکیوں کی عمر 22 برس تھی ۔
مسلم لڑکیوں کا ہندو لڑکوں کے ساتھ شادی کرنے کے لئے اصرار کا معاملہ حیات نگر یا یمنانگر تک محدود نہیں ہے ۔ فبروری کے مہینے کی 25 تاریخ کی جن دو خبروں کا اوپر ذکر کیا گیا ۔ اسی فبروری کے مہینے میں 13 تاریخ کو اخبار ٹائمز آف انڈیا نے گجرات کے شہر احمدآباد سے ایک خبر دی جس کی سرخی تھی کہ Families seprate lovers at court over religion ۔ تفصیلات کے مطابق احمدآباد کی ایک عدالت میں انجینئرنگ کا ایک اسٹوڈنٹ اپنے ہمراہ ایک وکیل کو لیکر رجسٹرار کے روبرو حاضر ہوتا ہے اور ایک دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والی لڑکی سے شادی کرنے کی درخواست کرتا ہے ۔ رجسٹرار کے دفتر میں جب لڑکا لڑکی کو لیکر پہنچتا ہے عین اسی وقت لڑکی کے گھر والوں بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں اور کافی بحث اور جھگڑے کے بعد لڑکی کو بغیر شادی کے اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ خبر میں بتلایا گیا کہ لڑکا لڑکی کو لیکر گذشتہ 3 دنوں سے گھر سے غائب تھا ۔ لڑکی کے والدین نے اپنی لڑکی کی گمشدگی کی باضابطہ طور پر پولیس میں شکایت بھی درج کروا رکھی تھی ۔
میں کیسے اس طرح کی خبروں کو اکادکا ہونے والے واقعات تسلیم کرلوں ۔ ابھی تو سال 2015 کے تیسرے مہینے کا آغاز ہوا ہے اور اب میں جس خبر کا ذکر کرنے جارہا ہوں وہ بمشکل چار ماہ پرانی ہے ۔ 29 نومبر 2014 کو اخبار ٹائمز آف انڈیا نے میرٹھ سے ایک خبر دی کہ میرٹھ کے ہاپور گاؤں میں رہنے والی 21 برس کی مسلمان لڑکی دانستہ اپنے ہندو پڑوسی لڑکے 22 سال کے سونو سنگھ کے ساتھ گھر سے بھاگ کر شادی کرلیتی ہے۔
گاؤں کی پنچایت میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا جاتا ہے اور پنچایت دونوں لڑکا اور لڑکی کو الگ الگ ہوجانے کی صلاح دیتی ہے لیکن لڑکی کے بھائی دونوں کی شادی سے اتنے ناخوش رہتے ہیں کہ وہ لوگ اپنی بہن اور اس کے ہندو عاشق دونوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں مقامی پولیس نے لڑکی کے بھائیوں کے بشمول چھ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا ۔
ہر معاملہ میں چاہے خودکشی کا ہو یا لڑکی کی گمشدگی یا پھر قتل کا پولیس ہر مرتبہ مقدمہ درج کرکے تحقیقات کررہی ہے اور ہم مسلمان اگر اپنے آپ کو جسم واحد کی طرح امت مسلمہ مانتے ہیں تب ہی ہمارا فریضہ ہے کہ ہم ان واقعات کانوٹ لیں اور اپنی ذات سے اس بات کی کوشش کریں کہ اس طرح کے واقعات مزید نہ ہوں ۔ نہ کوئی لڑکی خودکشی کرے نہ کوئی اپنا گھر چھوڑ کر بھاگے اور نہ کوئی بھائی اپنی ہی بہن کو قتل کرے ؟
اول تو ہم مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی لڑکیوں کو اصل بنیادی دینی تعلیم سے اس طرح آراستہ کریں کہ ہماری لڑکیاں اپنے لئے کیا صحیح ہے اور کیا غلط اسکا خود ہی فیصلہ کرسکیں ۔ لیکن ہم مسلمان کہاں سے اپنی لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام کرتے ہیں ۔ ہاں ہمیں تو لڑکی کی پیدائش پر ہی سب سے پہلی اور سب سے بڑی یہ فکر آگھیرتی ہے کہ ارے لڑکی ہوتی ہے اور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ اور ہم میں سے بہت سارے مسلمانوں کی نظر میں بڑی ذمہ داری سے مراد اس کی پرورش سے زیادہ اسکی شادی کا معاملہ ہوتاہے ۔
اور یہیں پر اس سارے مسئلے سے نمٹنے میں چوک ہوجاتی ہے ۔ اب لڑکی کی پھرورش کے دوران ہماری ترجیح یہی رہتی ہے کہ ہم لڑکی کو کچھ اس قابل بنادیں کہ وہ خود اپنے پیروں پر بوقت ضرورت کھڑی ہوسکے اور اس مقصد کے لئے ہماری ایک ہی آزمودہ راستہ ہے ہم لڑکیوں کو قرآن مجید سمجھا کر پڑھانے اور اسلام کی بنیادی تعلقات سے آراستہ کرنے کے لئے وقت کی تنگی محسوس کرتے ہیں اور تین ساڑھے تین سال کی عمر میں اپنی لڑکیوں کو اچھی تعلیم کے لئے کسی اسکول میں شریک کروادیتے ہیں ۔ ہماری یہ سوچ ہوتی ہے کہ معلوم نہیں کہ ہماری لڑکی کو کیسا شوہر ملے گا اور لڑکی کے ساتھ کچھ بھی ہوجائے تو اس کے ہاں اتنی قابلیت ہونی چاہئے کہ وہ خود اپنے بل پر کھڑی ہوسکے ۔
اب بچپن سے جس کے کانوں میں ایک طرح کا سُر گھولا جائے کہ اس کو تعلیم حاصل کرکے اپنے پیروں پر کھڑے ہونا ہے وہ لڑکی تو یہی تربیت حاصل کرے گی کہ اس کو بس کھڑے ہونا ہے اب مسلمان لڑکی کو کیسے اورکہاں ساتھ ہی کسی کے ساتھ کھڑے ہونے کی تعلیم ہی نہیں دی جائے گی تو ان سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔ ذرا آپ ٹھہر جایئے لڑکیوں کی تربیت میں ہورہی اس غفلت کے لئے آپ لڑکی کے والدین اور سرپرستوں کو بُرا بھلا کہنے کا حق بھی نہیں رکھتے کیونکہ اگر لڑکی کے والدین مسلم لڑکیوں کی بنیادی اسلامی تعلیم سے غفلت کررہے ہیں تو اس کے لئے اصل سبب لڑکے اور ان کے والدین ذمہ دار ہیں جو اپنے لڑکوں کی شادی سیرت اور دینداری دیکھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ ہمارا لڑکا تو لاکھوں میں ایک ہے اب اس کے لئے ایسی لڑکی چاہئے یا ویسی لڑکی چاہئے اور چاہت کے ان پیمانوں میں کہیں بھی کبھی بھی دینداری اور سیرت کا اچھا ہونا شامل ہی نہیں تو لازمی بات اس حوالے سے غفلت پر کسی کی توجہ ہی نہیں جائے گی ۔
یہ تو میرا نقطہ نظر تھا اور آپ کو میرا کالم پوری طرح پڑھنے کے بعد اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں تو بڑی اچھی بات ہے ۔ اب میرا سوال بھی سن لیجئے ۔ آپ مسلمان ہیں اور آپ کو بھی ملت کی ان بھٹکتی روحوں سے ہمدردی ہے تو خدا کے بزرگ و برتر نے آپ کو بھی دماغ دیا ہے تھوڑا وقت نکالئے تھوڑی دیر ٹھنڈے دماغ سے سوچئے اور اس مسئلے کا حل مجھے لکھ بھیجئے ۔ کیونکہ آپ کے ہاں کوئی اچھی بات ایسی تجویز ہو اور اس اچھائی سے دوسرے محروم ہوں تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ۔
خدارا سوچئے جذبات میں آنے کی بات نہیں جو کچھ نقصان ہوچکا ہے اس کا افسوس ہے تو ابھی سے اس آنے والے طوفان کا سامنا کرنے کی تیاری کیجئے جو بڑی تیزی کے ساتھ اور بڑی تیز رفتاری سے اپنے آنے کی دستک دے رہا ہے ۔ آخر میں ہماری یہی دعا ہے اے خدائے پاک و رحمن تو ہمیں گمراہی کے دلدل سے باہر نکال دے ۔ دنیا میں بھی ہمیں رسوائی کا سامان بننے سے بچادے اور آخرت میں بھی ہمیں سامان عبرت نہ بنا ۔ آمین ۔
بقول علامہ اقبال ؎
قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں ، تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں ، محفل انجم بھی نہیں
sarwari829@yahoo.com