قاضی عبدالغفار ایک ہمہ جہت شخصیت

نسیمہ تراب الحسن
قاضی عبدالغفار کی ہمہ جہت شخصیت کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے ۔ عام طور پر ان کے ذکر کے ساتھ ’’لیلی کے خطوط‘‘ اور ’’مجنوں کی ڈائری‘‘ کی مشہور منفرد کتابیں ذہن میں ابھرتی ہیں اور لوگ اسی میں کھوجاتے ہیں لیکن ہم ان کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کریں تو ان کی بے شمار صفات کا علم ہوتا ہے کہ وہ کیسی خوبیوں کے حامل تھے ۔
قاضی عبدالغفار کے والد کا نام خان بہادر قاضی ابرار احمد تھا جو زمیندار ہونے کے باوجود علم و ادب کا ذوق و شوق رکھتے تھے جس کے باعث وہ اپنے وطن مرادآباد میں درجہ اول کے آنریری مجسٹریٹ بن گئے ۔ انھوں نے اپنے بیٹے قاضی عبدالغفار کو ابتدائی تعلیم مرادآباد میں دلوائی ، میٹرک پاس کرنے کے بعد انھیں اعلی تعلیم کے لئے علی گڑھ بھیج دیا ، جہاں انھوں نے انٹرمیڈیٹ کیا۔ ان کے والد انگریزی سرکار میں مقبول تھے ۔ انھوں نے کوشش کرکے قاضی صاحب کو نائب تحصیلدار کی ملازمت دلوادی پھر وہ اپنی محنت سے تحصیلدار ہوگئے اور دو سال تک کام کیا ، لیکن انھیں شروع سے صحافت سے دلچسپی تھی ۔ قسمت سے مولانا محمد علی کو ان کی صلاحیتوں کا پتہ چلا اور انھوں نے اپنے اخبار ’’ہمدرد‘‘ میں بہ حیثیت نائب صدر مقرر کیا ۔ مولانا محمد علی سے قاضی صاحب نے وہ تمام گُر سیکھے جو اس فن کے معیار کے لئے ضروری ہوتے ہیں ۔ مولانا محمد علی کی نظربندی کے ساتھ یہ اخبار بند ہوگیا ۔ قاضی صاحب نے کلکتہ سے ’’جمہور‘‘ اور دلی سے ’’صباح‘‘ نکالا ۔ وہ جب حیدرآباد آئے تو 1935ء میں روزنامہ ’’پیام‘‘ نکالا ، یہ اپنے معیار کی وجہ سے پورے ہندوستان میں مشہور اور مقبول ہوا ۔ اہل قلم اور نوجوان نسل اس سے بہت متاثر ہوئی ۔ قاضی صاحب کا حیدرآباد میں نظام سرکار کے زمانے میں نواب مرزا اسماعیل کے عہد میں محکمہ اطلاعات کے ناظم کے عہدے پر تقرر ہوا ، وہ تین سال تک اس عہدے پر فائز رہے ۔

اردو کے تحفظ اور بقا کی خاطر قاضی صاحب نے ہر ممکن کوشش کی ۔ متعصوب سیاسی رہنماؤں اور ایوان حکومت کے تنگ نظر وزیروں سے بحث مباحثے کئے ، اسی کے ساتھ اہل اردو زبان کے دلوں میں اپنے حق مانگنے کا جوش و ولولہ پیدا کیا ۔ وہ اردو کو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور قومی اتحاد کی نشانی سمجھتے تھے اور اس مسئلے کو خلوص کے ساتھ حل کرنا چاہتے تھے ۔ اس سلسلے میں انھوں نے نہ تو فرقہ پرستی سے کام لیا اور نہ ہندی زبان کی مخالفت کی اور نہ اردو تحریک کے دوران حکومت کے خلاف رویہ احتیار کیا ۔ وہ ہندی کی سرکاری و قومی حیثیت کو تسلیم کرتے تھے اور نوجوان نسل کو اس کا سیکھنا ضروری بتاتے تھے ۔ قاضی صاحب اردو کے مستقبل سے مایوس نہیں تھے ۔ وہ اس کی مخالفت کو دور کرنے کی ہر طرح جد وجہد میں سرگرداں رہتے ۔ بالآخر قاضی صاحب نے اس مسئلے کو ’’اجتماعی محاذ‘‘ پر حل کرنے کی خاطر عوامی تحریک کا بیڑہ اٹھایا ۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جن بچوں کی مادری زبان اردو ہے ان کے لئے مادری زبان میں تعلیم کی آسانیاں بہم پہنچائی جائیں ، اس وفد کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کی قیادت میں وزیر تعلیم ، حکومت اترپردیش کو عرض داشت پیش کی گئی جو یو پی میں اس تحریک کے نمائندوں کی طرف سے تھی اور دس ہزار افراد کے دستخطوں کے ساتھ مربوط تھی ۔ لیکن اس کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ۔ قاضی صاحب نے ہمت نے ہاری پھر 23 دسمبر 1951 ء میں لکھنؤ میں ایک علاقائی زبان کنونشن منعقد کیا جس کی صدارت ڈاکٹر ذاکر حسین نے ہی کی ۔ قاضی صاحب نے اپنی تقریر میں وضاحت کے ساتھ کہا کہ ’’یہ تحریک غیر سیاسی اور محض دستوری ہے ، یہ کوئی سیاسی شورش نہیں بلکہ ایک اجتماعی دستوری مطالبہ ہے جو ایک محضر کی صورت میں پیش کیا جائے گا‘‘ ۔ اس محضر پر ہر مذہب کے اردو زبان بولنے پڑھنے لکھنے والے افراد کے دستخطوں کے ساتھ پیش کرنا تھا ، اس کام کو انجام دینا مشکل تھا ، ہر جگہ نشر و اشاعت کا سلسلہ جاری کیا گیا ۔ فارم چھپوائے گئے ، ان سب کاموں کے لئے پیسہ درکار تھا چنانچہ مرکزی انجمن کے تحت ایک سنٹرل فنڈ قائم کیا گیا ۔ تقریباً سترہ مہینے کی مسلسل جد وجہد کے بعد بیس لاکھ دستخط جمع ہوئے پھر ان کی جانچ اور ترتیب کا کام کیا گیا ۔ اس کے بعد لکھنؤ میں ورکرس کانفرنس ہوئی اور طے پایا کہ یہ عرض داشت ایک وفد جس میں قاضی عبدالغفار اپنے دوست ساتھیوں کے ساتھ صدر انجمن ترقی اردو (ہند) ڈاکٹر ذاکر حسین کی قیادت میں صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرشاد کے پاس یکم فروری 1953ء کو لے جا کر دیں گے ۔ اس پر عمل ہوا لیکن وائے قسمت صدر جمہوریہ کے فیصلے کا انتظار کرتے کرتے 16 جنوری 1956ء کو قاضی عبدالغفار اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔

قاضی عبدالغفار بڑی صلاحیتوں کے مالک تھے ۔ ایک ممتاز ادیب ہونے کی وجہ سے انھیں سماجی اور سیاسی مسائل سے گہری دلچسپی تھی ، جس کا عکس ان کی ادبی تخلیقات میں واضح دکھائی دیتا ہے ۔ ان کی تحریریں ہم کو اسلوب کو چاشنی سے مالا مال دکھائی دیتی ہیں ۔ ان کے فکر و خیال کی شوخیاں ، ان کے ذوق کی لطافت و نفاست کو ظاہر کرتی ہیں ۔ وہ زندگی اور فن ، اخلاقیات اور جمالیات دونوں کے ادا شناس تھے ساتھ ہی وہ وسیع النظر بھی تھے ۔ ان سب خوبیوں کے باوجود انتہائی منکسر تھے ، اپنی صفات سے بے نیاز ، نام ونمود کی ستائش سے بے پروا ۔ دوسروں کے کہنے پر انھوں نے اپنی سوانح حیات لکھی جو بے حد مختصر ہے ۔ اس کی چند سطور یہ ہیں:
’’میں اپنی زندگی کے حالات کیا عرض کروں ، سوائے اس کے کہ عمر کے بیالیس سال ایک جستجوئے بے معنی میں گزر گئے ، ابتدائی عمر سرکاری ملازمت میں گزری اس سے جی اکتایا تو اخبار نویسی کی بلا میں پھنس گیا ۔ حکیم مسیح الملک مغفور کی محبت میں شعر و شاعری کا چرچہ کرتا رہا ۔ مغفور ، حکیم اجمل خاں ، کبھی کبھی اصلاح فرمادیا کرتے تھے ۔ آج تک میرا کلام کبھی شائع نہیں ہوا‘‘ ۔
اس سے ہم کو ان کی سادہ مزاجی کا اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے مایہ ناز کاموں کا اظہار نہیں کیا۔ اپنی اہم تحریک کا راگ نہ الاپا ۔ جو کچھ لکھا انتہائی سادگی کے پہلو کے ساتھ ۔ وہ وفد خلافت کے ساتھ انگلستان گئے  ، ڈھائی ماہ بعد واپس آکر مرادآباد میں مقیم ہوگئے ۔ دوستوں کے اصرار پر اپنے اس سفر کے حالات قلم بند کئے جو ’نقش فرنگ‘ کے نام سے موسوم ہیں ۔ اس کا مطالعہ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم خود وہاں موجود تھے ۔ یوروپ میں انھوں نے ہندوستانی نادر اشیاء جیسے بنارسی ساڑیاں وغیرہ کی دکان کھولی یہاں کی چیزیں وہاں لے جاتے اور وہاں کی یہاں لاتے مگر تجارت ان کی طبیعت کے لئے موزوں نہیں تھی ۔ کچھ عرصے کے بعد بند کردی ۔

قاضی عبدالغفار ایک حساس طبیعت کے حامل تھے ۔ انصاف پسندی ان کا شعار تھا ۔ سماج میں پھیلی برائیاں ان کے دل و دماغ میں ہلچل مچاتی رہیں ۔ صنف نازک کا استحصال اور خاص کر بازار حسن کی جلوہ فروشی کے نظاروں نے انھیں ’’لیلی کے خطوط‘‘ لکھنے پر مائل کیا جو انشا پردازی کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ اس میں ایک عورت کے دکھی دل کی داستان ہے ۔ قاضی صاحب نے اس کے ذریعے یہ بتایا ہے کہ ایک طوائف کی زندگی نفرت انگیز نہیں درد انگیز زیادہ ہوتی ہے اور اس کو اس منزل پر پہنچانے والے دل پھینک نواب ، آوارہ مزاج نوجوان ہی نہیں لیڈران قوم ، پنڈت ، مولوی سبھی شامل رہتے ہیں ۔ اس مختصر داستان میں قاضی صاحب نے ایک لیلی ہی نہیں بلکہ ہزاروں بدنصیب عورتوں کی رودادا پر روشنی ڈالی ہے ۔ جو مردوں کی نفس پرستی کا شکار ہوتی ہیں ۔ اسی کے ساتھ ’’مجنون کی ڈائری‘‘ میں قاضی صاحب کا مقصد نوجوان نسل کی طرز زندگی ، انداز فکر اور عمل میں اصلاح کرنا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ دراصل نظام تعلیم کی خامی ہے کہ اس میں کردار سازی کو اہمیت حاصل نہیں ہے ۔جس کے باعث بے راہ روی اور بے مقصد زندگی کی راہوں میں بچے بھٹکنے لگتے ہیں ۔ ان کی دوسری تصنیفات عجیب ، تین پیسے کی چھوکری  ،سوانح (جو آثار جمال الدین افغانی کے بارے میں ہے) اور ایک آثار ’ابوالکلام‘ ایک نفسیاتی مطالعہ ہے ۔ انھوں نے ’حیات اجمل‘ بھی قلم بند کی ہے جو مسیح الملک حکیم محمد اجمل حاں کی سوانح حیات ہے ۔ سفرناموں میں ’نقش فرنگ‘ قابل دکر ہے ’اس نے کہا‘ عربی کے مشہور مصنف خلیل جبران کی تالیف ’النبی‘ کا آزاد ترجمہ ہے ۔
بقول قاضی عبدالغفار صاحب کی بیٹی فاطمہ عالم علی کے ، ابّا کو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہنا پسند تھا ، وہ اپنے فرصت کے اوقات گھر کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں گزار کر خوش رہتے ، بچیوں کے ڈوپٹے رنگتے ، اس میں لچکا ٹانکتے ، بیوی کے ہاتھوں میں مہندی لگاتے ، چوڑیوں کا انتخاب کرتے ، سنیما دیکھنے کا پروگرام اور پکنک کا اہتمام ہوتا ، غرض کہ یہ ہنگامہ رہتا ۔ ان کی شگفتہ مزاجی کا رنگ ، ترقی پسند نوجوانوں کے جمگھٹ میں دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔ پینسٹھ سال کی عمر سے صحت خراب ہوگئی تھی لیکن ان کے کام کرنے کے انداز میں فرق نہ آیا ۔ ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے ہاتھ میں گرم پانی کی بوتل تھامے وہ پڑھائی لکھائی میں مشغول رہتے ، ایسے میں اطلاع ملتی کہ کچھ لوگ ملنے آئے ہیں تو فوراً ان سے ملنے چلے جاتے ۔ کبھی شاہد صدیقی ، مخدوم محی الدین ، سلیمان اریب ، کبھی سردار جعفری اور کیفی اعظمی آجاتے اور شعر و شاعری کی پرلطف محفل جم جاتی ، بس قاضی صاحب کا بخار نارمل ہوجاتا اور طبیعت بحال ہوجاتی ۔ قاضی صاحب کو جگر کا کینسر تھا ۔ عزیز و اقارب کے کہنے پر انھوں نے آپریشن کروالیا ۔ شگفتہ مزاجی کا یہ حال تھا کہ آپریشن کے لئے لے جانے کو اسٹریچر آیا تو ہنس کر بولے ’’لیجئے ہماری سواری آگئی‘‘ ۔ آپریشن ناکام رہا ، کچھ دن ٹھیک رہے ، 17 جنوری 1956 کو ان کا انتقال ہوگیا ۔ اس زمانے میں وہ علی گڑھ میں رہتے تھے ۔ ان کی تدفین وہیں یونیورسٹی کے قبرستان میں ہوئی ۔

قاضی عبدالغفار کے سماجی شعور نے انھیں یہ محسوس کرنے کی طرف راغب کیا کہ سماج میں پھیلی ابتری کو ادب میں وضاحت سے نہ صرف پیش کیا جائے بلکہ بلکہ اس کو سدھارنے کی جد وجہد کی جائے ، کیوں کہ ادب کو ہم کسی مخصوص دور کے انتشار کی وجوہات کے اظہار کا اور صورتحال میں تبدیلی کا ذریعہ مانتے ہیں ۔ یہ ادبی عکاسی ہی سمجھدار قاری کو حالات بہتر بنانے پر اکساتی ہے ۔ ادیب و شاعر کے ذہنی ، جذباتی نقش و نگار اس کی تحریروں میں نمایاں دکھائی دیتے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر عبدالغنی :
’’قاضی عبدالغفار کی ادبی حیثیت کا تعین کرنے کے لئے یہ کہنا کافی ہوگاکہ ادب لطیف کی وہ تحریک جو ان کے دور میں چلی اس کے اندر اگر کوئی فکری مواد ہے اور اس کا کوئی مفہوم انسانی سماج کے لئے ہوسکتا ہے تو وہ بیشتر قاضی عبدالغفار ہی کی انشا پردازی کا مرہون منت ہے ، اس لئے کہ قاضی صاحب کے انشایئے من کی موج کی طرح بے راہ یا بے سمت و جہت نہیں ہیں ،بلکہ ان کا ایک سنجیدہ مقصد اور واضح رُخ ہے جب کہ اظہار و بیان کی وہ ساری لطافتیں اور نفاستیں ان انشائیوں میں موجود ہیں، جو ادب لطیف نام کی کسی بھی چیز کے لئے سرمایہ افتخار ہوسکتی ہیں‘‘ ۔ بہرحال ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ قاضی عبدالغفار کی تحریریں دلنشین اور خیال انگیز اظہار پر مبنی ہیں ، ساتھ ہی ان میں شگفتگی ، کشادہ دلی اور روشن خیالی کا امتزاج پایا جاتا ہے ۔