فون نہیں بچوں کو اسمارٹ بنایئے

محمد مصطفی علی سروری
رات ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا، گڈی ملکا پور میں واقع ایک فنکشن ہال میں عارف محمد ایک دعوت میں شرکت کیلئے آیا ہوا تھا۔ 23 نومبر 2017 ہفتہ کی رات یوں تو اس دعوت میں اور بھی بہت سارے لوگ موجود تھے مگر چند لوگ جو بظاہر تو سادے لباس میں تھے عارف کو ڈھونڈ رہے تھے، اور پھر انھیں جیسے ہی عارف کا سامنا ہوا اُن لوگوں نے عارف کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور شادی خانے سے لیکر چلے گئے۔ حالانکہ محمد عارف کوئی مجرم نہیں تھے مگر جن لوگوں نے اُن کو سادہ لباس میں آکر پکڑ لیا وہ کوئی اور نہیں پولیس والے تھے۔ عارف کا قصور کیا تھا یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا، مگر اُس سے پہلے یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ عارف ایل ایل بی کا کورس کررہا تھا اور بنجارہ ہلز پر واقع ایک لاء کالج کا اسٹوڈنٹ ہے۔ پولیس کے مطابق عارف نے اپنے فیس بُک پر ایک ایسی خبر Share کی تھی جس میں ایک فلم بنانے والے نے اُس شخص کے لئے ایک لاکھ کا انعام دینے کا اعلان کیا تھا جو وزیر اعظم نریندر مودی پر چپل پھینکے۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا کی 27 نومبر 2017 کی خبر کے مطابق سادہ لباس میں ملبوس پولیس والوں نے عارف کو مسلسل 17 گھنٹوں تک حراست میں رکھ کر پوچھ تاچھ کی اور اتوار 24 نومبر کی رات کو گچی باؤلی پولیس اسٹیشن سے رہا کردیا۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق عارف نے اپنی فیس بُک وال پر لکھا تھا کہ ’’ دوستو، مودی جی 28نومبر کو حیدرآباد آرہے ہیں‘‘ پولیس والوں نے اس ریمارک پر یہ تصور کرلیا کہ عارف لوگوں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ مودی پر اُس وقت چپل ماریں جب وہ حیدرآباد میں ہوں جبکہ عارف نے پولیس کی حراست سے چھوٹ کر آنے کے بعد اخبار کو بتلایا کہ وہ فیس بُک پر اپنی بات پوری نہیں کرپائے، وہ تو لکھنا چاہتے تھے کہ ’’ مودی جی کی حیدرآباد آمد پر کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے حیدرآباد کا نام بدنام ہو۔‘‘ خیر 17 گھنٹوں کی پوچھ تاچھ کے بعد بالآخر لاء کے اس اسٹوڈنٹ کو رہائی نصیب ہوگئی۔ قارئین کرام ! اس خبر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم لوگ اپنی فیس بُک کا کس طرح استعمال کرتے ہیں پولیس والے اُس پر پوری نظر رکھتے ہیں۔
ایک شکل تو یہ ہوسکتی ہے کہ ہم پولیس والوں کو بُرا بول کر کہ ہمیشہ ہم مسلمانوں کے پیچھے پڑی رہتی ہے خاموش ہوجائیں۔ دوسرا کام ہم یہ کرسکتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اپنے گھر والوں اور عزیز و اقارب کو سکھلائیں کہ فیس بُک ہو یا واٹس اپ، سوشیل ویب سائیٹس ہو یا ای میل‘ انٹر نیٹ کا ذرا سا بھی غیر ذمہ دارانہ استعمال ہمیں پریشانیوں میں ڈھکیل سکتا ہے، اور ہمارے چاہنے والوں کیلئے بھی مسائل پیدا کرسکتا ہے۔
ذرا اندازہ لگایئے کہ کوئی نوجوان گھروالوں کو یہ بتلاکر جائے کہ وہ دعوت میں جارہا ہے اور دعوت میں سادہ لباس میں اجنبی لوگ اس کو اپنے ساتھ پکڑ کر لے جائیں اور مسلسل 17 گھنٹوں تک پوچھ تاچھ چلتی رہے اور گھر والوں سے اس دوران کوئی رابطہ نہ ہو تو گھروالوں کا کیا حال ہوگا۔
ثاقب کی عمر 19 برس بتلائی گئی ہے اور یہ کوئی پانچ مہینے پہلے کی بات ہے جب ثاقب نے کھانا کھانا بند کردیا تھا۔ ثاقب کو نہ تو کوئی بیماری نے آگھیرا تھا اور نہ ثاقب کو ڈاکٹرز نے کھانے سے منع کیا تھا اور نہ ہی وہ کوئی روزہ رکھ رہا تھا بلکہ ثاقب مسلسل کھانا نہ کھاکر بھوک ہڑتال کررہا تھا اور اس بھوک ہڑتال کے پیچھے ثاقب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ اس کے گھر والے اس کو ایک موبائیل فون دلوادیں۔ ثاقب کا تعلق اُتر پردیش کے ضلع سہارنپور سے ہے اور فی الحال ثاقب اپنے گھر سے 270 کلو میٹر دور واقع ہریانہ کی ہسار جیل میں ہے۔ ثاقب پر الزام ہے کہ وہ اُس نے واٹس اپ پر وزیر اعظم مودی کی ایک ایسی فوٹو بھیجی ہے جس کے ساتھ چھیڑ خانی کی گئی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی اس جعلی فوٹو کو Share کرنے کے بعد بی جے پی کے ایک ورکر نے پولیس میں ثاقب کے خلاف شکایت درج کروائی۔ پولیس نے اس شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے ثاقب کو ڈھونڈ نکالا۔ ثاقب سہارنپور سے دور اُتر کھنڈ کے ایک گاؤں میں ٹیلرنگ کا کام کررہا تھا، ہریانہ پولیس نے اس کو وہاں سے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کردیا اور ثاقب کو عدالت نے 14 دنوں کی جوڈیشیل ریمانڈ میں بھیج دیا۔ زلیخا خان ثاقب کی ماں ہے، اخبار انڈین اکسپریس کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے اس نے بتلایا کہ ثاقب نے کچھ دنوں تک روٹی کا ایک نوالہ نہیں کھایا اور بس یہی ضدکرتا رہا کہ اس کو ایک Touch Screen والا فون دلایا جائے۔
ثاقب کے گاؤں میں لوگ ایک ہزار کا فون ہی عام طور پر استعمال کرتے ہیں Touch Screen فون کے بارے میں کوئی بھی نہیں سونچتا ہے کیونکہ 8 ہزار کی آبادی والے اس گاؤں میں تعلیم یافتہ کوئی نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ یومیہ اجرت پر کام کرکے گذارہ کرتے ہیں۔ثاقب کی ضد کو دیکھ کر اس کے والد سلیم نے قرضہ لیا اور ثاقب کو ساڑھے سات ہزار کا Touch Screen والا فون خرید کر دلایا۔ اپنے بچے کی گرفتاری اور پھر جیل ہوجانے پر سلیم نے اخبار کو بتایا کہ وہ تیسری جماعت کے بعد اسکول چھوڑ چکا ہے ، بچہ ہے اس کو یہ نہیں معلوم کہ فون پر کیا نہیں کرنا چاہیئے۔ اب وہ ہریانہ کے ہسار جیل میں بند ہے اور رورہا ہے۔ اس نے اپنی غلطی مان لی ہے، اپنے گھر سے دور جیل میں وہ پریشان ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ اس کی رہائی کے لئے کیا کرنا چاہییء۔
ثاقب کے دو کمروں اور بغیر استرکاری والی دیواروں کے گھر میں اس کی 80 سال کی دادی اپنے گھر آنے والوں کے آگے ہاتھ جوڑ کر درخواست کررہی ہے کہ اس کے پوترے کو کوئی اس مصیبت سے بچالے۔ بوڑھی دادی نے مصیبت کی اس گھڑی میں اپنی اس بچت کی تین ہزار کی رقم کو اپنے بیٹے سلیم کے حوالے کردی جو اس نے لوگوں کے گھروں میں برتن دھوکر جمع کررکھے تھے۔
ثاقب کا قصور یہی تھا کہ اس نے وزیر اعظم مودی کی بعض ایسی تصاویر دوسروں کو فارورڈ کردی جو کہ اصلی نہیں تھیں جن کے ساتھ چھیڑ خانی کی گئی تھی۔ ( بحوالہ اخبار انڈین اکسپریس، 26 نومبر 2017)
سوشیل میڈیا خاص کر نوجوان نسل میں جس تیزی کے ساتھ فروغ پارہا ہے اس تیزی کے ساتھ مسائل بھی سامنے آتے جارہے ہیں۔ڈی سنجیو تلنگانہ آرٹی سی میں برسرکار ایک کنڈکٹر ہے۔ اس کے خلاف ویجلینس ونگ اور آر ٹی سی نے کارروائی شروع کی ہے۔ سنجیو پر الزام ہے کہ اس نے فیس بُک پر حکومت تلنگانہ کی بعض پالیسیوں کے خلاف اپنی رائے پیش کی۔ آر ٹی سی کے انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے آرٹی سی کنڈکٹر نے لکھا کہ ایک جانب آر ٹی سی اپنے ملازمین کو 16 گھنٹے کام کرنے کیلئے مجبور کررہی ہے مگر انہیں اگلے دن چھٹی نہیں دی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور پوسٹ میں سنجیو نے لکھا کہ حکومت نے GHMC سے آر ٹی سی کو 250 کروڑ دینے کا اعلان کیا ہے۔ مگر عملی طور پر آر ٹی سی کو ایک بھی پیسہ نہیں ملا۔ آر ٹی سی کے انتظامیہ نے اپنے ملازم کی اس فیس بک پوسٹ کا سخت نوٹ لیکر اس کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے اور ایک اطلاع کے مطابق کنڈکٹر کو معطل بھی کردیا گیا ہے۔
( بحوالہ انڈین اکسپریس 10 اکٹوبر 2017 )
نت نئے قوانین بنائے جارہے ہیں، اب فیس بُک ہو یا واٹس اپ اس پر آپ کیا لکھتے ہیں اور کیا فارورڈ کرتے ہیں اس کے متعلق آپ سے پوچھ تاچھ کی جاسکتی ہے۔ آپ کو جیل بھی بھیجا جاسکتا ہے اور آپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کی جاسکتی ہے۔ ایک تویہ مسئلہ ہے کہ حکومت پر نکتہ چینی تنقید اور حکومتی قائدین کی فرضی اور جعلی تصاویر آپ کے لئے مسائل پیدا کرسکتے ہیں تو دوسری طرف اگر ہم اپنے بچوں کو انٹر نیٹ اور فیس بک کا صحیح استعمال سکھائیں گے تو تب بھی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
انگریزی اخبار دکن کرانیکل میں 22 نومبر 2017 کو شائع ایک رپورٹ کے مطابق آن لائین اپنی تفصیلات لوگوں کے ساتھ Share کرنا لڑکیوں کیلئے خاص کر سنگین مسائل کا سبب بن رہا ہے۔ آن لائین ہراسانی کے اس برس 24 کیسیس درج کئے جاچکے ہیں۔ جبکہ جھوٹے فرضی پروفائیل کے 22کیسیس پولیس نے اس برس درج کئے ہیں۔
پولیس کے حوالے سے اخبار نے لکھا ہے کہ اب مجرمین سوشیل میڈیا خاص کر فیس بک اور واٹس اپ کا استعمال کررہے ہیں اور لڑکیوں کو بلیک میل کیا جارہا ہے۔ ان کے ساتھ فراڈ کیا جارہا ہے۔ فرضی آئی ڈی کے ساتھ لڑکیوں کے ساتھ پہلے دوستی اور پھر دوستی کے نام پر تصاویر اور دیگر تفصیلات جمع کرنا اور اس کے سہارے لڑکیوں کے استحصال کے کئی واقعات سامنے آرہے ہیں۔
اب بچوں کو فون، اسمارٹ فون کی نہیں بلکہ آلات و اوزار اور ٹکنالوجی کے صحیح استعمال سے واقف کروانے کی ضرورت ہے۔ پولیس کے حوالے سے کرانیکل کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اس برس ہماری ریاست میں خواتین کے خلاف آن لائن ہراسانی کے 40 کیسیس ابھی تک درج ہوچکے ہیں۔
کاش کوئی سمجھائے کہ فون دلانے سے کوئی اسمارٹ نہیں بنتااور اسمارٹ بننے والے لوگ بھی کسی کے چاہے وہ فون ہو ٹکنالوجی غلام نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے شر سے محفوظ رکھے۔ حکمرانوں کے شر سے، شیطان کے شر اور سمجھ میں آنے والے اور سمجھ میں نہ آنے والے ہر دو طرح کے شُرور سے ہماری حفاظت فرمائے۔ اور ہمارے فونوں کو نہیں بلکہ ہمارے بچوں کو اسمارٹ بنادے اور ایسا اسمارٹ بنا جیسا کہ نبی کریمؐ نے ہم مسلمانوں کو بننے کیلئے کہا ہے( آمین )۔
sarwari829@yahoo.com