رشیدالدین
شاہی امام مولانا سید احمد بخاری کی صدر کانگریس سونیا گاندھی سے ملاقات پر بی جے پی تلملا اٹھی ہے۔ نریندر مودی جو وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں، انہیں بھی اس ملاقات میں عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش دکھائی دے رہی ہے۔ اب تو یہ مسئلہ الیکشن کمیشن تک پہنچ چکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم قائدین سے سونیا گاندھی کی ملاقات میں آخر کیا برائی ہے اور پھر ملک میں سیکولر ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچانے کی کوشش پر بی جے پی اور نریندر مودی کیوں چراغ پا ہیں؟ انتخابات کے موقع پر ہر پارٹی کوشش کرتی ہے کہ اسے تمام طبقات کی تائید حاصل ہو۔ قائدین اور امیدواروں کی انتخابی مہم کے حصہ کے طور پر مختلف طبقات کے رہنماؤں سے ملاقات کوئی نئی بات نہیں۔ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنا یقیناً جرم ہے لیکن سیکولر ووٹ تقسیم ہونے سے روکنے کی بات کوئی جرم نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی منشور کی اجرائی پر بھی روک لگنی چاہئے کیونکہ اس میں مختلف طبقات سے الگ الگ وعدے کئے جاتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ریاستوں کی تقسیم کا وعدہ بھی شامل ہوتا ہے ۔ کیا یہ عوام کو تقسیم کرنا اور علاقہ واریت کے جذبات کو ہوا دینا نہیں ہے؟ دراصل ہندوتوا اور جارحانہ فرقہ پرستی کی پالیسی پر گامزن بی جے پی کو سیکولر ووٹ تقسیم ہونے سے روکنے کی کوشش اسے کامیابی کی راہ میں اہم رکاوٹ اور خطرہ دکھائی دے رہی ہے۔ گجرات میں نفرت کی سیاست کے ذریعہ ہزاروں بے گناہوں کی نعشوں پر اقتدار کا تخت سجانے والے نریندر مودی کیلئے سیکولرازم کسی گالی سے کم نہیں۔
مودی کو ناراضگی یہ نہیں کہ انہیں مسلم ووٹ حاصل نہیں ہوں گے بلکہ اس بات کا خوف ہے کہ سیکولر ووٹوں کی عدم تقسیم کی کوشش سے وہ سیکولر ہندو رائے دہندوں کی تائید سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندو آبادی کی اکثریت سیکولرازم اور مذہبی رواداری پر ایقان رکھتی ہے۔ مودی گزشتہ 15 برس سے گجرات میں جو کرتے رہے اور اب ملک بھر میں اسی تجربہ کو دہرانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو شخص جس جرم میں مبتلا ہو اسے دوسرے بھی مجرم دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں تک الیکشن 2014 ء کا تعلق ہے، سیکولر ووٹ کو تقسیم سے روکنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مجوزہ انتخابات ، ترقی یا عوام کی بھلائی پر نہیں بلکہ راست طور پر سیکولرازم اور فرقہ پرستی کے درمیان مقابلہ ہے اور عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ملک کے دستور اور روایات کی پاسداری کریں گے یا پھر نفرت یا منافرت کی کھیتی کرنے والوں کو اقتدار سونپ دیں گے۔ یہ صرف کسی ایک مذہب یا اس کے مذہبی رہنماؤں کی ذمہ داری نہیں بلکہ 84 کروڑ سے زائد رائے دہندوں اور سیکولرازم کی دعویدار جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری کی عظیم روایات کا تحفظ کرتے ہوئے ملک کے اتحاد و سالمیت کے امین ثابت ہوں۔ افسوس تو ان جماعتوں پر ہے جو مسلمانوں کو ہمیشہ ہی ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور حصول اقتدار کے ساتھ ہی ان کے مسائل کو فراموش کردیا جاتا ہے ۔ انتخابات میں جب کبھی ان جماعتوں کو اپنا موقف کمزور دکھائی دے تو سیکولرازم کی دہائی دے کر مسلمانوں کے آگے ووٹ کیلئے اپنا کاسہ بڑھا دیتے ہیں۔ کانگریس ہو کہ مختلف علاقائی جماعتیں تمام اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ اب تو بی جے پی کو بھی محسوس ہونے لگا ہے کہ اقلیتوں کی راہداری سے گزر کر ہی اقتدار کی منزل تک پہونچا جاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے بھی سیکولرازم کا نقاب اوڑھ لیا ہے اور اسے مسلمانوں کی یاد شدت سے آنے لگی ہے ۔ کبھی پرانی غلطیوں پر ندامت تو کبھی آئندہ غلطی نہ کرنے کا عہد ۔ بی جے پی کو ایک بار اقتدار کا موقع فراہم کرنے اور آزمانے کی دہائی دیتے ہوئے بی جے پی نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ووٹ کی طاقت کو پہچان لیا ہے ۔
اب جبکہ میڈیا کی جانب سے نریندر مودی کے پروجیکشن کے بعد کانگریس بھی خود کو کمزور محسوس کرنے لگی ہے لہذا اس نے نقصان کی تلافی کیلئے مسلم ووٹ بینک کو مستحکم کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا ۔ شاہی امام احمد بخاری کی قیادت میں مسلم قائدین کی سونیا گاندھی سے ملاقات اسی کی ایک کڑی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صدر کانگریس خود مسلم رہنماؤں سے ملاقات کو پہنچتیں، بجائے اس کے مذہبی رہنما خود ان کی کوٹھی پر پہنچے۔ کانگریس کا عجیب تحکمانہ کلچر ہے کہ اسے مسلمانوں کے ووٹ بھی چاہئے لیکن اپنے مقام پر۔ بعض مسلم قیادتوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنا وقار کم کیا ہے ۔ بعض قائدین خود کو مسلمانوں کی تائید کے ’’ہول سیل ڈیلر‘‘ کی طرح سیاسی جماعتوں سے رجوع ہوتے ہیں۔ مسلم ووٹ کے یہ دعویدار موسم کی طرح رنگ بدلتے ہیں۔ ہر الیکشن میں ایک نئی سیاسی جماعت کی تائید ان کا شیوہ بن چکا ہے ۔ ایک مذہبی رہنما تو راجیہ سبھا کی نشست کیلئے ہمیشہ ایک نئی پارٹی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں گجرات میں نریندر مودی کی جانب سے ان کی خوب مہمان نوازی بھی کی گئی۔ کسی نے اس طرح کے ٹھیکیداروں کے بارے میں میوہ فروش کی مثال پیش کی جس کی ٹھیلہ بنڈی پر موسم کے اعتبار سے میوہ فروخت ہوتا ہے۔
جہاں تک شاہی امام کی جانب سے سیکولر ووٹ کی تقسیم روکنے کی کوششوں کا سوال ہے ، اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ پانی پیاسے تک جانے کے بجائے پیاسا خود کنویں کے پاس پہنچتا۔ اس طرح مسلم مذہبی شخصیتوں کی توہین ہوئی ہے۔ جس طرح کانگریس کے بینی پرساد ورما نے ندوۃ العلماء پہنچ کر مسلم پرسنل لا بورڈ کے سربراہ مولانا رابع حسنی ندوی سے ملاقات کی، اسی طرح تمام اکابرین سے صدر کانگریس کو خود جاکر ملاقات کرنی چاہئے تھی۔ شاہی امام سابق میں ملائم سنگھ یادو کی بھی تائید کرچکے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شمالی ہند میں شاہی امام کی آواز مسلم رائے دہندوں پر خاصا اثر رکھتی ہے اور نتائج کو الٹنے کی بھی طاقت موجود ہے۔ ملائم سنگھ یادو اور پھر اکھلیش یادو کی کامیابی میں شاہی امام کے رول کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ شاہی امام کی کانگریس پارٹی کو تائید کے سبب اترپردیش کی سیاست میں اہم تبدیلیوں کی پیش قیاسی کی جارہی ہے۔ ان کی تائید سے اترپردیش میں کمزور کانگریس کو ایک نئی طاقت ملی ہے جس سے بی جے پی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں شاہی امام اور دیگر اہم شخصیتوں کی مشترکہ آواز کی ضرورت تھی۔ اترپردیش میں علماء کونسل اپنے طور پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ جس سے سیکولر ووٹ کی تقسیم روکنے کی کوششوں کو دھکا لگے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم مسلم پرسنل لا بورڈ دیگر جماعتوں و شخصیتوں کے ساتھ مشترکہ پلیٹ فارم کے ذریعہ فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی مہم چلائے۔ ویسے بھی الیکٹرانک اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ جس طرح بی جے پی اور نریندر مودی کی تشہیر کی جارہی ہے، انہیں روکنے کیلئے صرف کانگریس پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے بہتر تو تیسرا محاذ ہے جس میں بائیں بازو اور دوسری جماعتیں موجود ہیں جو کانگریس سے زیادہ سیکولر اور اقلیتوں کی ہمدرد ہیں۔ شاہی امام کا صرف کانگریس کی طرف مکمل جھکاو معنیٰ خیز ہے ، اس سے شخصی مفادات کی تکمیل تو ہوسکتی ہے لیکن ملک کو قوم کے وسیع تر مفادات کا تحفظ نہیں ہو پائے گا۔ بی جے پی کو مسلم مذہبی رہنماؤں کی سونیا گاندھی سے ملاقات پر تو اعتراض ہے
لیکن پارٹی صدر راج ناتھ سنگھ کی جانب سے مسلم دانشوروں کے اجلاس پر وہ کیا کہے گی؟ بی جے پی جس کا کلچر سادھو سنتوں کا ہے، وہ کس طرح دوسری جماعتوں کو مذہبی قائدین سے ملاقات پر روک سکتی ہیں۔ انتخابات کے دوران ہر پارٹی کو کسی بھی شخصیت سے ملاقات کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ تاہم مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کی اجازت نہیں۔ حال ہی میں نریندر مودی اور دیگر بی جے پی قائدین نے بابا رام دیو کے یوگا کیمپ میں شرکت کی تھی۔ اروند کجریوال جب وارناسی پہنچے تو انہوں نے مندر پہنچ کر پنڈتوں کا آشیرواد حاصل کیا۔ ہندوستان ایک کثیر مذاہب اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہے اور ہر مذہب کی بڑی شخصیتوں سے دعائیں اور آشیرواد لینا یہاں کی روایات میں شامل ہیں۔ مذہبی رواداری ملک کی شان اور پہچان ہے اور جب یہ برقرار رہیں تو ملک متحد رہ پائے گا۔ بی جے پی نے جارحانہ فرقہ پرستی کو ہوا دیتے ہوئے مرکز میں اقتدار پر قبضے کا منصوبہ بنایا ہے اور سیکولر طاقتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کوششوں کو ناکام کریں۔ سابق میں وی پی سنگھ بھی مسلم مذہبی رہنماؤں کی تائید حاصل کرچکے ہیں۔ 1977 ء میں اس وقت کے شاہی امام عبداللہ بخاری نے ایمرجنسی کے خلاف جنتا پارٹی کے ایجی ٹیشن کی تائید کی تھی۔ اس وقت تو تائید حاصل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی گئی لیکن آج کے بی جے پی قائدین خوفزدہ دکھائی دے رہے ہیں۔
دراصل انہیں بھی مسلم ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہوچکا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ مسلم ووٹ متحدہ طور پر بی جے پی کے خلاف استعمال ہوں۔ نریندر مودی جنہوں نے ترقی کے نام پر اپنی مہم کا آغاز کیا تھا، انتخابی مہم کو بتدریج فرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں۔ اپنی انتخابی ریالیوں میں وہ ذبیحہ گاؤ کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نریندر مودی کی کامیابی کیلئے مختلف میڈیا گھرانوں کے ذریعہ فرضی اوپنین پولز کا سہارا لیا جارہا ہے تاکہ عوامی فیصلہ پر اثر انداز ہوسکیں۔ این سی پی کے سربراہ شرد پوار بھی اس لہر کا شکار ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی واحد بڑی پارٹی کے طور پر ابھرے گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہاراشٹرا میں این سی پی کے موقف کو کمزور دیکھ کر شرد پوار نے آئندہ این ڈی اے سے مفاہمت کا ذہن بنالیا ہے۔ انتخابی مہم کو فرقہ واریت اور نفرت کا رنگ دینے پر منورؔ رانا نے کہا ؎
فضاء میں گھول دی ہیں نفرتیں اہل سیاست نے
مگر پانی کنویں سے آج تک میٹھا نکلتا ہے