ظفر آغا
چند روز قبل تک میرا بیٹا مونس محمد آغا دہلی میں ڈینگو جیسی مہلک بیماری کا شکار ہو کر اسپتال میں موت سے لڑرہا تھا ۔ پروردگار کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ اب سیکڑوں افراد کی دعاؤں کے سبب صحت یاب ہو کر گھر واپس لوٹ آیا ۔ اس سخت بیماری کے دوران ہمارے خاندان پر دو تین راتیں ایسی بیتیں کہ ہم امید بھی چھوڑ بیٹھے تھے ۔ ایسے سخت حالات میں بس دو چیزیں تھیں جن کا آسرا تھا ۔ ایک رب الکریم کی ذات پاک ، جس سے ہر وقت ہم ، ہمارے اہل خانہ اور ہمارے چاہنے والے دعاگو تھے اور دوسرے وہ افراد جن کے خون پلیٹیلٹ (Platelet) میرے بیٹے کو ناامیدی کی حالت میں چڑھایا جارہا تھا ۔ کیونکہ ڈینگو ایک ایسا مرض ہے جس کا کوئی علاج یا دوا نہیں ہے ۔ اس مرض میں ایک مخصوص مچھر کسی فرد کو کاٹ لیتا ہے اور اس کے خون میں اپنے انڈے چھوڑ دیتا ہے ۔ وہ انڈے جب خون کے اندر پھوٹتے ہیں تو وہ انسان کے خون میں موجود platelet کھانا شروع کردیتے ہیں ۔ ایک صحت مند شخص کے خون میں platelet کی تعداد تین ، چار لاکھ ہونی چاہئے ۔ ڈینگو کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد یہ تعداد میرے بیٹے کے خون میں گھٹ کر محض تین سے پانچ ہزار پہنچ گئی تھی ۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ میرے بیٹے کی جان پر کیا بیت رہی ہوگی اور ہمارا کیا حال رہا ہوگا ۔
یوں تو یہ میری ذاتی زندگی کا ایک امتحان تھا جس کا ذکر ایک کالم کا موضوع نہیں ہونا چاہئے ، لیکن اس سخت امتحان کے وقت کچھ ایسا ہوا جس نے ہندوستان کا وہ تابناک چہرہ پیش کیا ،جس کا ذکر کرنا میرے لئے لازمی ہے ۔ ہوا یوں کہ جب میرے بیٹے کی حالت بے حد نازک ہوگئی تو رات کوئی بارہ بجے ڈاکٹر نے یکایک کمرے میں آکر کہا کہ حالت نازک ہے اور بیٹے کو platelet چڑھانا ہے، خون کا انتظام کیجئے ۔ میرے بیٹے کا بلڈ گروپ O+ ہے چنانچہ اب وہی بلڈ گروپ چاہئے تھا ۔ اب ذرا تصور کیجئے رات بارہ بجے کہاں سے خون لائیں ۔ ادھر بیٹا زندگی اور موت کی کشمکش میں پڑا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کی یہ بات سننے کے چند منٹوں کے اندر میرے ساتھ میرا چپراسی تھا جو فوراً بولا میرا خون بھی O+ ہے ، آپ لے لیجئے ۔ آپ جانتے ہیں اس کا نام کیا ہے ؟ اس کا نام تلسی داس پٹیل ہے اور وہ ہندو ہے ۔ تلسی داس کے خون سے نکلی platelets سے کسی طرح میرے بیٹے کے اوپر منڈلاتا خطرہ ایک رات کے لئے ٹل گیا ۔
صبح ہوتے ہی میرے ذہن میں خیال آیا کہ ابھی platelets کی اور ضرورت پڑسکتی ہے ۔ چنانچہ میں نے اپنے ایک عزیز اور سوشل ورکر جناب سہیل ہاشمی کو فون کرکے کہا کہ بھائی O+ خون کا کچھ انتظام کرو۔ سہیل صاحب سوشل میڈیا پر کافی سرگرم ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے فوراً فیس بک پر میرے نام اور فون نمبر کے ساتھ O+ خون کی ضرورت کا ایک پوسٹ ڈال دیا ۔ آپ یقین کیجئے کہ اس کے دس منٹ کے اندر میرا فون بجنے لگا ۔ ایک دہلی کیا ،نہ جانے کہاں کہاں سے لوگ اپنا خون دینے کے لئے اصرار کرنے لگے ۔ اور ان تمام فون کالس میں 95 فیصد افراد ایسے تھے جن کو میں بالکل نہیں جانتا تھا اور نہ ہی وہ مجھ کو جانتے تھے ۔ میرے بیٹے کو چار بار platelets چڑھا جن میں تین تلسی داس ، مادھو چندرا اور چندر شیکھر نام کے افراد کا platelets تھا اور ایک نوجوان ذاکر تھا ۔ اب میرے بیٹے کی رگوں میں ہندو اور مسلم خون کی گنگا جمنی دھاریں بہہ رہی ہیں ۔ جس سے میرے بیٹے کی زندگی بچ گئی اور اب وہ صحت یاب ہو کر گھر آچکا ہے ۔
یہ ہے وہ اصل ہندوستان جہاں آج بھی کروڑوں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی جان بچانے کو کسی بھی ہندوستانی کی چاہے اس کا کوئی بھی مذہب ہو ، اپنا خون تک دینے کو تیار ہیں ۔ کیا اس انسان دوست ہندوستان کو مٹایا جاسکتا ہے ؟ اور اس ملک کی تاریخ بھی یہی کہتی ہے کہ یہ ہندوستان ابد سے ازل تک قائم رہے گا ۔ کیونکہ 1947 ء میں بٹوارے کے بعد جو ہندوستان خون میں نہا گیا تھا ایک بار جب نفرت کا طوفان تھما تو پھر واپس اپنی اسی گنگا جمنی تہذیب پر لوٹ آیا جو اس کا طرہ امتیاز تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک بار پھر ہندوستان نفرت کے سیلاب سے جوجھ رہا ہے ۔ حالات اس قدر نازک ہیں اور نفرت کی موجیں اس قدر تند و تیز ہیں کہ دہلی سے سو کیلومیٹر کے کم فاصلے پر محمد اخلاق نامی شخص کی اس کے گھر میں گھس کر لوگوں نے جان لے لی ۔ وہ بھی صرف اس جھوٹی خبر پر کے اس کے گھر میں گائے کا گوشت کھایا جارہا ہے ۔
اخلاق کے ساتھ ابھی دادری میں جو واقعہ پیش آیا ۔ اس میں نفرت کی وہی جھلک نظر آرہی ہے ، جو 1947 میں بٹوارے کے وقت نظر آئی تھی ۔ لیکن گھبرایئے نہیں وہ سیلاب بھی گزر گیا اور یہ سیلاب بھی گزر جائے گا ۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے حالات میں ان کروڑوں ہندوؤں سے محبت کا رابطہ رکھا جائے جو مونس محمد آغا نام کے ایک مسلم بچے کے لئے آدھی رات میں بھی اپنا خون دینے کو تیار تھے اور جن کے ہندو خون سے ایک مسلم بچے کی جان بچ گئی !