کے این واصف
خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب نے اب سے کوئی پانچ دہائیوں قبل دنیا کیلئے روزگار کے دروازے کھولے تھے ۔ سعودی عرب GCC کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ اسی لئے مملکت سعودی عرب میں سب سے زیادہ غیر ملکی آئے اور روزگار سے لگے ۔ ان غیر ملکیوں میں سب سے زیادہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے باشندوںنے سعودی کو نقل مکانی کی لیکن اب لگتا ہے مملکت کے دروازے غیر ملکیوں کیلئے بند ہونے لگے ہیں۔ سیاسی یا اقتصادی حالات سے قطع نظر حکومت صرف یہاں بسے غیر ملکیوں کی آبادی میں بڑی حد تک کمی لانا چاہتی ہے۔ شاید اس سے مملکت کو یہاں رہنے والوں کیلئے بنیادی ضرورتوں کی فراہمی پر جو کروڑہا ریال سبسیڈی کی صورت میں خرچ کرنا پڑھ رہا ہے نفوس کی تعداد میں کمی سبسیڈی کا خرچ کم کرسکتی ہے ۔ جیسا کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے ، حکومت کے اس عمل سے مجموعی طور پر بظاہر مملکت کی سماجی اور اقتصادی حالات پر کافی اثر پڑے گا لیکن کوئی بڑا فیصلہ لینے سے قبل دیکھا تو یہ جاتا ہے کہ اس کے فوری اثرات جو بھی ہوں، اسکے مستقبل میں کیا نتائج برآمد ہوں گے ۔ ہوسکتا ہے کہ فیصلہ ’سعودی وژن 2030 ‘‘ کا حصہ ہو۔
سعودی عرب کے پچھلے سالانہ بجٹ جس کا اعلان ڈسمبر کے آخری ایام میں ہوا تھا جس میں بہت سے ایسے اعلان کئے گئے تھے جس کا راست اثر یہاں برسرکار غیر ملکیوں کے مزید قیام پر ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی باشندے یہاں سے رختِ سفر باندھنے کی سوچنے لگے ہیں۔ اس معاملے پر اپنے اظہار خیال یا قیاس آرائی سے قبل اس ہفتہ یہاں شائع ماہرین اقتصادیات کے ایک جائزے پرنظر ڈالتے ہیں ۔ عربی روزنامہ ’’الاقتصادیہ‘‘ میں شائع جائزہ میں ماہرین اقتصادیات نے امکان ظاہر کیا ہے کہ معاشی اخراجات کم کرنے کیلئے 25 سے 40 فیصد تک تارکین وطن اپنے اہل خانہ کو وطن بھیج دیں گے ۔البتہ اس کا معاشی حالات پر منفی اثر نہیں پڑے گا ۔ 2017 ء کے وسط میں مرافقین اہل خانہ پر فیس عائد کئے جانے کے بعد 25 سے 40 فیصد غیر ملکی خاندان سعودی عرب کو خیر باد کہہ دیں گے ۔ دوسری طرف ماہرین اقتصادی نے توقع ظاہر کی ہے کہ سعودی عرب میں مقیم غیر ملکیوں کے مرافقین پر فیس عائد کرنے کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے ۔ غیر ملکیوں کے 25 فیصد خاندان مملکت کو خیرباد کہہ گئے تب بھی سعودی معیشت متاثر نہیں ہوگی۔ ماہرین کے مطابق مرافقین سے وصول کی جانے والی فیس نجی اداروں خصوصاً ریٹیل کمپنیوں کی تنظیم نو ، سعودیوں کے نام سے غیر ملکیوں کے کاروبار کی بندش اور نجی بڑے اداروں کے مضبوط ہونے کا باعث بنے گی ۔ ماہرین نے توقع ظاہر کی کہ مرافقین (اہل خانہ ) پر فیس عائد کرنے کا خوشگوار اثر طویل مدت بعد ظاہر ہوگا ۔ مختصر عرصہ میں اس کے اچھے اثرات نمایاں ہونے لگیں۔ جدہ ایوان تجارت و صنعت کے ڈپٹی چیرمین نے بتایا کہ اس فیصلہ سے بعض لوگ 2017 ء میں مشکل محسوس کریں گے ۔ کم ازکم 40 فیصد غیر ملکی خاندان سعودی عرب کو خیر باد کہہ دیں گے ۔ اس کا فائدہ بنیادی ڈھانچے پر دباؤ کم ہونے کی صورت میں ظاہر ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ 25 فیصد غیر ملکی خاندان اخراجات کم کرنے کیلئے سعودی عرب چھوڑ دیں گے ۔ اس سے اقتصادی حالات متاثر نہیں ہوں گے ۔ کئی پڑوسی ممالک ایسا تجربہ کرچکے ہیں ۔
کسی بھی شہر یا ملک میں اس کی آبادی کی ضرورت کے اعتبار سے سپلائی مہیا کی جاتی ہے ۔ یعنی مکانات ، اسکولس ، دواخانے ، شاپنگ مالس وغیرہ وغیرہ ۔ آج سعودی عرب کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں وہاں کے مکینوں کی طلب کے مطابق یہ ساری چیزیں مہیا ہیں ، جو سپلائی اور مانگ کے توازن کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اب اگر اقتصادی ماہرین کے جائزے کے مطابق 25 تا 40 فیصد خارجی باشندے یہاں سے نقل مکانی کرجاتے ہیں تو اس کا فوری اثر سپلائی اور طلب کے توازن پر پڑے گا ۔ ویسے پچھلے تین ، چار سال سے مملکت میں مجموعی طور پر خانگی شعبہ کے ملازمین معاشی مشکلات کا شکار رہے۔ ان میں سب سے زیادہ تعمیراتی شعبہ کے ملازمین متاثر رہے ۔ جنہیں کئی کئی ماہ سے تنخواہیں حاصل نہیں ہورہی تھیں جسکی وجہ سے خارجی باشندوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اہل خانہ کو وطن واپس بھیج رہے ہیں ۔ یہ سلسلہ آہستگی کے ساتھ سہی مگر تین ، چار برس سے چل رہا ہے ۔ کچھ لوگوں نے ا پنے اہل خانہ کو وطن بھیج دیا اور کچھ لوگ اس کیلئے ذہن بنا رہے ہیں لیکن پچھلے دنوں خارجی باشندوں پر فیملی ٹیکس عائد ہونے کی جو خبر آئی ہے تب سے ایک بہت بڑی تعداد نے یہ تہہ کرلیا کہ اب فیملی کے ساتھ یہاں رہنا ان کے بس کا نہیں رہا کیونکہ متوسط درجہ آمدنی والے کسی بھی خارجی باشندے کیلئے ممکن نہیں کہ وہ ہزاروں ریال صرف فیملی ٹیکس ادا کرسکے کیونکہ خارجی باشندوں کی اکثریت کا خرچ اور آمدنی تناسب تقریباً برابر برابر ہوتا ہے۔ اگر ان پر فیملی ٹیکس کے نام پر ہزاروں ریال کی ادائیگی آن پڑے تو وہ کسی صورت بھی یہ بوجھ نہیں ا ٹھا پائیں گے اور ان کے پاس فوری طور پر اپنی فیملی وطن واپس بھیج دینے کے سواء اور کوئی راستہ نہیں رہ جاتا اور پھر صرف فیملی ٹیکس ہی ایک معاشی بوجھ نہیں بلکہ آنے والے دنوں (جولائی 2017 ء) میں یہاں بجلی ، پانی اور پٹرول کے دام بھی بڑھنے والے ہیںاور جب پٹرول کے دام بڑھیں گے تو اس کا اثر ضروریات زندگی کی ہر شئے پر پڑ ے گا ۔ دوسرے یہ کہ جب سے مملکت کا تعمیراتی شعبہ معاشی مشکلات سے دوچار ہوا تب سے مملکت کے بازاروں اور شاپنگ مالس میں ویرانی سی نظر آنے لگی تھی کیونکہ لوگ کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ صرف اشد ضروری چیزوں ہی کی خریداری کرنے لگے تھے۔ اب اگر اقتصادی ماہرین کے جائزے کے مطابق 40 فیصد خارجی باشندے اپنے اہل خانہ کووطن واپس بھیج دیں گے تو یہاں بازار اور شاپنگ مالس کے علاوہ خانگی اسکولس ، خانگی دواخانے اور دیگر خدمات کے شعبہ بھی ویرانی کا منظر پیش کریں گے اور ظاہر ہے کہ کام نہ ہوگا تو اداروں اور دکانوں سے ملازمین بھی فارغ کردیئے جائیں گے ۔ خیر سب تو ہوئے نئے قوانین کے بظاہر اثرات لیکن نئے قوانین بنانے والوں نے تو اس کے طویل مدتی فوائد یا اثرات پر غور کرنے یہ قوانین نافذ کرنے کا تہہ کیا ہوگا اور دوسری بات یہ کہ کوئی بھی ملک یا حکومت کا یہ اختیار ہے کہ وہ جو کچھ بھی ملک کے مفاد میں ہو اس پر عمل کرے اور نئے قوانین وضع کرے ۔ لہذا اب یہاں مقیم غیر ملکیوں کو چاہئے کہ وہ نئے آشیانے ، نئی منزلیں تلاش کریں لیکن نئی منزلوں کی تلاش ان کیلئے ممکن ہے جنہوں نے اپنی عملی زندگی ابھی ابھی شروع کی ہے ۔ مسئلہ تو ان کیلئے ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا بہتر حصہ ، طاقت و توانائی یہاں جھونک دی، یہاں دو ، تین دہائیوں جیسا طویل عرصہ گزاردیا مگر پھر بھی اپنی ملازمتیں کچھ عرصہ اور جاری رکھ تو سکتے ہیں لیکن نئی ملازمت کی تلاش ان کیلئے ممکن نہیں۔ نہ وہ نئے آشیانیوں کی تلاش ہی میں نکل سکتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے این آر آئیز کوہم دو زمروں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔ ایک وہ جنہوں نے یہاں اپنے قیام کے دوران ٹھیک ٹھاک کمایا اور مستقبل کیلئے کافی کچھ بچایا بھی یا آئندہ آمدنی کے ذرائع پیدا کرلئے ، بچوں کی تعلیم اور دیگر ذمہ داریوں سے بھی سبکدوش ہوچکے۔ دوسرے وہ این آر آئیز ہیں جو ملازمت کے حالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے نہ بچت ہی کرسکے نہ کوئی جائیداد ہی پیدا کی اور نہ ہی ابھی تک بچوں کی تعلیم یا دیگر ذمہ داریوں سے فارغ ہوئے اور یہاں ایسے این آر آئیز کی تعداد ہی زیادہ ہے ۔ اب اگر یہاں ان کے اطراف گھیرا تنگ ہوتا ہے اور یہاں ان کا مزید قیام ممکن نہیں رہتا تو ان کے آگے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ روزنامہ سیاست نے پچھلے کئی برس سے اس کالم کی وساطت سے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو این آر آئیز کی فلاح و بہبود اور وطن میں بازآبادکاری سے متعلق کئی تجاویز پیش کیں۔ نیز یہاں کی سماجی تنظیموں نے بھی ان تجاویز کو تحریری طور پر ارباب مجاز تک بھی پہنچایا ۔پچھلے ماہ ’’پرواسی بھارتیہ دیوس‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے اس کالم میں بھی ہم نے اپنی پچھلی تجاویز بڑی حد تک دہرائی تھی لیکن لگتا ہے ہماری تجاویز اور سماجی تنظیموں کی نمائندگیاں سرد خانوں کے حوالے ہوجاتی ہیں۔ بے شک پرواسی بھارتیہ دیوس کا اجتماع خلیجی این آر آئیز کے مسائل پر بحث کرنے یا ان کا حل ڈھونڈنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، مگر خلیجی این آر آئیز کے مسائل کا حل ڈھونڈنا بے حد ضروری ہے۔ اس کیلئے حکومت کو کوئی پلیٹ فارم یا موقع نکالنا چاہئے ۔ خلیجی این آر آئیز پچھلی پانچ دہائیوں سے ملک کی معیشت کے استحکام میں قابل لحاظ حصہ ادا کر رہے ہیں، ملک پر کوئی بوجھ بنے بغیر ۔ ان پر اب اگر بُرا وقت آیا ہے تو ان کے لئے فوری طور پر حکومت کو کوئی قدم اٹھانا چاہئے ۔ خلیجی این آر آئیز کی زندگی میں یہ ایک مشکل وقت آن پڑا ہے جو حکومت ہند کے بعجلت سنجیدہ اقدام کا متقاضی ہے۔
پچھلے دنوں ہم نے ہندوستانی اخبارات میں پڑھا کہ مرکزی حکومت ’’ورشٹھا پنشن بیمہ یوجنا‘‘ کے ذریعہ ہندوستان کے تمام Senior Citizens کو وظیفہ فراہم کرے گی۔ہماری تجویز ہے کہ این آر آئیز بھی جو ساٹھ سال کی عمر سے تجاوز کرچکے ہیں ، وزارت خارجہ ان کا ڈاٹا جمع کرے اور اس طرح کی ایک خصوصی پنشن اسکیم وطن لوٹنے والے خلیجی ممالک کے این آر آئیز جو Senior citizen کے زمرے میں آتے ہیں، ان کیلئے ایک خصوصی ’’این آر آئیز پنشن اسکیم ‘‘ کا انتظام کرے ۔ نیز ان سینئر این آر آئیز کیلئے حکومت تلنگانہ کی متعارف کردہ اسکیم ’’آروگیہ شری‘‘ جس میں مفت علاج کی سہولت ہوتی ہے بھی متعارف کرائے تاکہ بڑی عمر کے این آر آئیز جو ملازمتوں سے فارغ کردیئے گئے ہیں اور وطن واپس آگئے ہیں، انہیں مفت علاج کی سہولت حاصل ہو کیونکہ ان این آر آئیز نے حکومت یا ملک پر کوئی بوجھ بنے بغیر عمر کا بڑا حصہ خلیجی ممالک میں گزارا اور اپنے Remitences کے ذریعہ ملک کو اربوں روپیہ کا زر مبادلہ فراہم کیا ۔ اب عمر کے آخری حصہ میں حکومت کو انہیں کچھ راحت پہنچانے کی ذمہ داری لینی چاہئے ۔ یہ ان کا حق بھی بنتا ہے ۔ نیز جو این آر آئیز ابھی Senior Citizen کے زمرے میں نہیں آئے اور ملازمت ختم ہونے کی وجہ سے وطن واپس آکر از سر نو زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہیں،انہیں حکومت کچھ خصوصی مراعات فراہم کرے تاکہ وطن میں ان کی بازآبادکاری آسان ہو۔