غیروں پر کرم اپنوں پر ستم، ٹی آر ایس کی پالیسی

محمد نعیم وجاہت
2014ء کے عام انتخابات میں کانگریس پارٹی کا ملک بھر میں مایوس کن مظاہرہ رہا، یہاں تک کہ وہ لوک سبھا میں اپوزیشن کا موقف حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی۔ اس کے بعد ضمنی انتخابات یا جن ریاستوں میں انتخابات ہوئے، وہاں بھی عوامی اعتماد حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ جب کہ پہلی مرتبہ مرکز میں تنہا اکثریت حاصل کرنے والی بی جے پی نریندر مودی کی قیادت میں ہندوتوا ایجنڈے کو پوری طرح رو بہ عمل لانے کے لئے ماحول سازگار بنا رہی ہے۔ ایک سال کے دوران ملک کی ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو طرح طرح سے ذہنی طورپر پریشان کیا گیا۔ کبھی لوجہاد، کبھی گھر واپسی، کبھی یوگا، کبھی سوریہ نمسکار، کبھی بڑے جانور کی قربانی پر امتناع اور کبھی دینی مدارس کو تعلیمی ادارہ تسلیم نہ کرکے مسلمانوں کو اذیت دی گئی اور اگر مذکورہ معاملات میں کسی نے لب کشائی کی جرأت کی تو اسے پاکستان چلے جانے کا انتباہ دیا گیا۔

تعجب اس بات پر ہے کہ اصل اپوزیشن کانگریس اس قسم کے حالات اور معاملات کا مقابلہ کرنے میں یکسر ناکام رہی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کانگریس پارٹی سیکولرازم کے دفاع میں دو قدم آگے بڑھ رہی ہے تو چار قدم پیچھے بھی ہٹ رہی ہے؟۔ کیا کانگریس میں قیادت کا فقدان ہے؟ یا کانگریس کے سینئر اور جونیر قائدین کے قائدین کے درمیان رسہ کشی ہے؟ جو پارٹی صدر سونیا گاندھی کو اہم فیصلوں سے روک رہی ہے۔ آخر دس سالہ دورِ اقتدار میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دینے والے قائدین خاموش کیوں ہیں؟ اور سرگرمی نہ دِکھانے کی وجوہات کیا ہیں؟ یا 60 سال کی عمر مکمل کرنے والے قائدین کو راہول گاندھی کی قیادت میں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے؟۔ تلنگانہ کے سینئر قائد ڈی سرینواس اس کی زندہ مثال ہیں۔ 40 سال تک کانگریس میں رہتے ہوئے دو مرتبہ متحدہ آندھرا پردیش میں پردیش کانگریس کے صدر کی حیثیت سے انھوں نے خدمت انجام دی، وزارت میں شامل رہے، تین ماہ قبل وہ کونسل میں قائد اپوزیشن کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں اور سونیا گاندھی سے ان کے اچھے تعلقات تھے۔ وہ تلنگانہ کے واحد قائد ہیں، جنھیں ایک ہی دن میں دو مرتبہ اور ایک مہینہ میں 6 مرتبہ سونیا گاندھی سے ملنے کا اعزاز حاصل ہوا، اس کے باوجود صرف ایم ایل سی کی نشست نہ دینے پر ڈگ وجے سنگھ کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کانگریس سے مستعفی ہوکر ٹی آر ایس میں شامل ہو گئے۔

ڈی سرینواس سربراہ ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ سے ملاقات کرچکے ہیں، جب کہ چیف منسٹر تلنگانہ نے ان کو کئی طرح کی پیشکش کی ہے، جن میں راجیہ سبھا کی نشست، ایم ایل سی کے ساتھ وزارت یا حکومت کے مشیر اعلی کے عہدہ کے علاوہ ان کے فرزند کو بھی اعلی عہدہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کسی سینئر قائد کا عہدہ کے لالچ میں پارٹی چھوڑنا مناسب تو نہیں ہے، مگر اب وفاداری تبدیل کرنا سیاسی قائدین کے لئے فیشن بن گیا ہے۔ اصول، اقدار اور وفاداری کو بالائے طاق رکھ کر صرف ذاتی مفاد کو پیش نظر رکھا جا رہا ہے۔
ڈی سرینواس کا شمار تلنگانہ کے نظرانداز نہ کئے جانے والے قائدین میں ہوتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ مسلسل تین انتخابات ہار چکے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ سیاسی قائدین کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے اور انھیں اس بات کی بھی پروا نہیں ہوتی کہ جس پارٹی نے انھیں سیاسی زندگی عطا کی، وہ اسے معمولی وجہ کی بنا چھوڑ رہے ہیں۔ کے چندر شیکھر راؤ نے ضمنی انتخابات میں ڈی سرینواس کو نااہل، بیکار اور سنیاسی قرار دیا تھا، لیکن آج وہ ان کا والہانہ خیرمقدم کر رہے ہیں۔ چیف منسٹر تلنگانہ، ایشانت ریڈی کے ارکان خاندان کو کیا جواب دیں گے، جس نے ڈی سرینواس کی شکست کے لئے منت مانگتے ہوئے عثمانیہ یونیورسٹی میں اپنی جان دے دی تھی۔
ٹی آر ایس کی 14 سالہ تحریک میں حصہ لینے والوں، جیل جانے والوں، پولیس کی لاٹھی اور آنسو گیس کے شل کا سامنا کرنے والوں، متعدد مقدمات میں پھنس کر عدالتوں کا چکر کاٹنے والوں، ٹی آر ایس کے حقیقی کارکنوں اور تلنگانہ تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی رضاکارانہ تنظیموں کے قائدین کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، جب کہ مخالفین تلنگانہ کو ٹی آر ایس حکومت میں عزت و احترام کا مقام دیا جا رہا ہے۔ انھیں وزارت کے علاوہ ایم ایل اے، ایم ایل سی اور کارپوریشن کے عہدے دیئے جا رہے ہیں۔

علحدہ تلنگانہ ریاست کانگریس نے تشکیل دی ہے، تاہم تلنگانہ کے عوام نے کے چندر شیکھر راؤ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انھیں تشکیل حکومت کے لئے مکمل اکثریت فراہم کی۔ جمہوریت میں حزب مخالف کا اہم رول یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی غلطیوں اور عوام دشمن پالیسیوں کی نشاندہی کرتی ہے، مگر اپنے سیاسی مفاد کے لئے چیف منسٹر تلنگانہ دیگر جماعتوں کے ارکان اسمبلی کو ٹی آر ایس میں شامل کرکے ریاست سے اپوزیشن کا نام و نشان مٹانا چاہتے ہیں، جو جمہوری نظام کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اقتدار کی طاقت استعمال کرکے وہ فی الوقت اپنے سیاسی ایجنڈا کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں، مگر یہ کامیابی عارضی ہوسکتی ہے، کیونکہ مستقبل میں ٹی آر ایس کے حقیقی کارکنوں کے احتجاج کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جن امیدوں کے سہارے انھوں نے ٹی آر ایس کے لئے خود کو وقف کیا تھا، آج اس کا پھل دوسروں کو مل رہا ہے۔ کے چندر شیکھر راؤ کانگریس اور تلگودیشم قائدین کو اپنی جانب راغب کرنے میں تو کامیاب ہوئے ہیں، لیکن ٹی آر ایس کی تحریک میں شامل قائدین اور کارکنوں کے اعتماد سے محروم ہو رہے ہیں۔
انسانی جسم میں پروٹین کی ایک حد ہوتی ہے، جس کی کمی یا زیادتی انسانی جسم کے لئے نقصاندہ ہے۔ فی الوقت سیاسی طورپر ٹی آر ایس زیادہ پروٹین والے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ دیگر جماعتوں کو چھوڑکر ٹی آر ایس میں شامل ہونے والوں کو عہدے حاصل ہو رہے ہیں اور ٹی آر ایس سے وابستہ قائدین عہدوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کیا تلنگانہ کی ترقی میں کانگریس کے 18 اور تلگودیشم کے 10 ارکان اسمبلی رکاوٹ بن سکتے ہیں؟ اس تعلق سے چیف منسٹر تلنگانہ کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔

اقلیتوں کے ذہن میں یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ دس سال بعد تلنگانہ پردیش کانگریس کو سابق وزیر اعظم آنجہانی پی وی نرسمہا راؤ کی یاد کیوں آئی؟ جب کہ کانگریس کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے پی وی نرسمہا راؤ نے بابری مسجد کی شہادت میں بی جے پی، وشوا ہندو پریشد اور دیگر ہندوتوا تنظیموں کی مدد کی تھی۔ ہندوتوا طاقتیں انھیں اپنا ہیرو مانتی ہیں، اسی وجہ سے بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت دہلی میں شکتی استھل پر اندرا گاندھی کی یادگار کے قریب نرسمہا راؤ کی بھی یادگار قائم کر رہی ہے، جس کا افتتاح جاریہ ماہ کے اواخر میں ان کی برسی کے موقع پر ہوگا، جب کہ گاندھی بھون میں ان کی یوم پیدائش تقریب کا اہتمام کرکے ان کی یاد تازہ کی گئی۔ واضح رہے کہ سونیا گاندھی نے کانگریس کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد کانگریس دور حکومت میں بابری مسجد کی شہادت کے سلسلے میں ملک کے مسلمانوں سے معذرت خواہی کی تھی اور نرسمہا راؤ کو جیتے جی کانگریس کی سرگرمیوں سے دُور کردیا تھا۔ انھیں کانگریس کے تنظیمی ڈھانچہ یا کسی دستوری عہدہ پر فائز نہیں کیا گیا تھا، یہاں تک کہ ان کے انتقال کے بعد ان کی آخری رسومات بھی دہلی میں نہیں انجام دی گئیں۔ پھر اچانک دس سال بعد کانگریس کو پی وی نرسمہا راؤ کی یاد کیوں آگئی؟ کیا کانگریس پارٹی فرقہ پرستی کا جواب سیکولرازم کے ذریعہ دینے سے انحراف کر رہی ہے؟ یا فرقہ پرستی کے لئے نرم گوشہ اختیار کرکے ہندوتوا طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتی ہے؟۔
غور طلب بات یہ ہے کہ گاندھی بھون میں منعقدہ پی وی نرسمہا راؤ کی یوم پیدائش تقریب میں شرکت کرکے آل انڈیا کانگریس کے جنرل سکریٹری و انچارج تلنگانہ امور ڈگ وجے سنگھ نے کیا پیغام دینا چاہا؟ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ چند مسلم قائدین نے بھی بابری مسجد کی شہادت کو فراموش کرکے اس تقریب میں شرکت کی۔ اب تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہندوتوا کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے قائدین کانگریس پر مسلط ہو رہے ہیں، تاہم انھیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہندوستانی مسلمان بابری مسجد کی شہادت کے سلسلے میں ہندوتوا طاقتوں اور پی وی نرسمہا راؤ کو برابر کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔