غزہ کے گھریلو ساختہ راکٹس

اسرائیل کے انتہائی عصری دفاعی نظام کیلئے درد سر !!

لوڈے مورس ، آڈم ٹائیلر، دی واشنگٹن پوسٹ
معاشی طور پر تباہ حال غزہ پٹی طویل عرصہ سے اسرائیلی بارڈر کے کنٹرول میں ہے جس میں سخت ترین پابندیاں کسی بھی چیز پر جسے یہ (اسرائیلی) ہتھیار سازی میں معاون سمجھتے ہوں، چاہے وہ حقیقت میں نہ ہو، سب کچھ شامل ہے لیکن ماہرین کے بموجب جو حماس (جو مظلوم فلسطینیوں کی سچی خیر خواہ ہے) اور اسلامک جہاد کے اسلحہ ، ہتھیار وغیرہ کو حاصل کرتے ہوئے اس کا تجزیہ کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ مذکورہ دونوں تنظیموں نے 5000 تا 20,000 راکٹس کا ذخیرہ جمع کیا ہے۔
ہفتہ کے اختتام پر دہشت پسند گروپس (جو دراصل مظلوم ہیں) وہ جمع شدہ اسلحہ کا ایک قابل نظر انداز حصہ ہے یعنی 700 راکٹس و مارٹر اسرائیل کی طرف حملہ میں استعمال کرتے ہیں ۔ واضح رہے کہ یہ اطلاعات و جان کاری اسرائیلی ملٹری کی جانب سے فراہم کی گئی ہے اور اس کے جواب میں دہشت پسند حملوں کے لئے مشہور اسرائیلی (بزدل) فوج ان (فلسطینیوں) پر تابڑ توڑ اور انتہائی قاہرانہ انداز میں فضائی حملے کرتی ہے۔

یاد رہے کہ کسی بھی ہتھیار (یا اسلحہ) کے مؤثر ہونے کیلئے اس کا انتہائی عصری ہونا، یا پھر فاصلہ یا پھر اس کا چھوٹا یا بڑا ہونا اہم نہیں ہوتا بلکہ مذکورہ تخیلات کے برعکس ہوتا ہے ۔ فلسطینی راکٹس نہایت ارزاں اور آسانی سے بنائے گئے ہوتے ہیں اور کئی معاملات میں ان ہتھیاروں اور راکٹس میں استعمال کیا گیا مواد کسی پٹاخہ میں موجود مواد کو کئی راکٹس میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
’’ان (فلسطینی) ہتھیاروں کو صرف اعداد و شمار کے راکٹس کہنا زیادہ صحیح ہوگا جس میں صرف تعداد کا شمار ہوتا ہے ، کوالٹی کا نہیں ‘‘۔ یہ معلومات بوزگانر، ڈائرکٹر انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے کاؤنٹر ٹیررازم نے فراہم کیں ۔ جب (عصری) چھوٹے میزائیل مہیا نہ ہوسکیں تو یہ نہایت ہی آسان ہے کہ وہ ایک راکٹ تیار کریں بجائے اس کے کہ وہ (اپنے سخت جانی دشمن) اسرائیل کیلئے ترنوالہ/ آسان ہدف بن جائیں‘‘۔

سال 2014 ء میں اسرائیل سے جب زبردست اور مہلک جنگ کا دور جاری تھا ، چار اسرائیلی اسی راکٹ کا شکار بنے تھے جو ہفتہ کے اختتام پر غزہ پٹی میں پیش آیا تھا اور اس دور کی جنگ میں پہلا واقعہ تھا ۔اس سے برا فروختہ اسرائیل نے بے دردی سے فضائی حملے کرتے ہوئے 25 فلسطینیوں کو درجہ شہادت پر فائز کردیا۔ ویک اینڈ پر آغاز ہونے والے اس واقعہ کے بعد پیر کو ہی بقول چند فلسطین گروپوں کے جنگ بندی کے نتیجہ میں امن قائم ہوا ۔
حماس ، جواب غزہ پٹی پر کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے ، اس نے سال 2001 ء سے قسام راکٹس تیار کرنا شروع کیا جو کہ دوسرے انتفادہ کے دوران تھا ۔ سال 2007 ء سے اس راکٹ کی پہنچ بلحاظ فاصلہ تقریباً 7 میل تک پہنچ گئی اور ابھی ’’قسام 3 ‘‘ راکٹ کی پہنچ بلحاظ فاصلہ ’’تقریباً 10 میل‘‘ تک پہنچ چکی ہے ۔ یہ امر دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ان میں سے کچھ میزائیلس کی پہنچ اس سے ز یادہ دیکھی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر مارچ میں اسرائیلی ملٹری نے کہا کہ فلسطینی راکٹ تل ابیب کے قریب ایک گھر پر گرا جس میں سات ارکان خاندان زخمی ہوئے ۔ اس راکٹ کی پہنچ بلحاظ فاصلہ 75 میل درج کی گئی ۔ واضح رہے کہ یہ راکٹ گھر میں بنایا گیا تھا جس کا اقبال خود (ظالم) اسرائیلی ملٹری نے کیا۔
’’وہ نہایت ہی مختصر اور کم چیزیں چاہتے ہیں‘‘ یا کوامڈرار، ریٹائرڈ میجر جنرل اور سابق اسرائیلی قومی سلامتی مشیر نے یہ بات کہی۔ ان (فلسطینیوں) کے اندر (یعنی عقل و دماغ میں) ہر طرح کی صلاحیتیں موجود ہیں‘‘۔ ’’مصر کے راستے وہ (فلسطینی) راکٹ بنانے کی مشنری اسمگل کرتے ہیں جبکہ ایران اور لبنانی دہشت پسند گروپ ’’حزب اللہ‘‘ انہیں (فلسطینیوںکو) ماہرین فراہم کرتا ہے‘‘ یا کو امڈرار نے یہ بات کہی۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قسام راکٹ بنانے کیلئے چند سو ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ گورنر گانر نے یہ بات کہی جبکہ عصری راکٹس کو تیار کرنے میں بہت زیادہ خرچ آتا ہے جو کہ اسرائیل کے دفاعی نظام پر خرچ کئے جانے والے اخراجات کا صرف عشر عشیر ہی اس قسام راکٹ پر خرچ ہوتا ہے ۔

دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیلی راکٹ آئرن ڈوم دفاعی نظام کیلئے اسے ہزاروں ڈالرس خرچ کرنا ہوتا ہے۔ اسرائیل کی ملٹری نے کہا کہ ایک ہفتہ کے دوران فلسطین کی طرف سے کم از کم 690 راکٹس اور مارٹرس داغے گئے جس میں سے 90 راکٹس سرحد تک پہنچنے میں ناکام رہے ۔ مزید یہ کہ آئرن ڈوم سسٹم نے 240 راکٹس کو راہ میں ہی روک لیا ۔ اس سسٹم کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی بھی راکٹ کا تجزیہ کرتا ہے کہ کیا واقعی اس (راکٹ) کو کھلے میدان میں گرنے دینا چاہئے یا پھر اسے (فضا میں ہی) راہ میں روک لینا چاہئے۔ اس (آئرن ڈوم) سسٹم کی دوسری خوبی یہ ہے کہ یہ 87 فیصد نہایت ہی صحیح طر یقہ سے تجزیہ کرتے ہوئے اسے راہ میں روک لیتا ہے اور شہری علاقوں میں 35 راکٹس کو مار گراتا ہے ۔ ’’اس میں سوچ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ مخالف سمت والوں میں بے چینی، افرا تفری پیدا کی جاسکے اور ہوسکے تو کسی کو مار گرادے‘‘ ۔ گورنر گانر نے یہ بات کہی۔
اسرائیلی ڈومیسٹک سیکوریٹی ایجنسی دی شبک نے کہا کہ سال 2008 ء کے اختتام پر ، اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تین ہفتوں کی کشمکش اس بات پر تھی کہ فلسطین کو راکٹس کی اسمگلنگ کو روکا جاسکے ۔ جسے فلسطینی غزہ پٹی پر استعمال کرتے تھے ۔ ایجنسی نے مزید کہا کہ ہزاروں راکٹس میں 25 میل کی دوری پر نشانہ لگانے والے بھی شامل ہیں، سال 2010 ء میں غزہ پٹی پر لائے گئے جو زیادہ تر سوڈان ، مصر اور سنائی جزیرہ نما کی سرنگوں کے ذریعہ غزہ پٹی میں لائے گئے ، اس وقت سے مصر اس بات کے لئے کوشاں ہے کہ وہ اپنی سرحد کو اسمگلنگ کیلئے استعمال نہ ہونے دے جس کی وجہ سے دہشت پسندوں (دراصل مظلوموں) کو ان ہتھیاروں کو حاصل کرنے میں انتہائی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایان ولیمس جو سنٹر برائے اسٹراٹیجک اور بین الاقوامی مطالعہ کے ساتھی ہیں ، ساتھ ہی ساتھ اس گروپ کے میزائیل ڈینفس پراجکٹ کے ڈائرکٹر بھی ہیں، کہا کہ ماضی میں وہ راکٹس یا اس کے پرزے غزہ میں اسمگل کر کے بعد ازاں راکٹ تیار کرلیتے تھے ۔ ولیمس نے مزید کہا کہ گھریلو ساختہ مصنوعات عمومی طور پر ایران کے ذریعہ ممکن ہوتی تھی جس کے ذریعہ دہشت پسند گروپس ( جو دراصل مظلوم فلسطینی ہیں) غزہ پٹی میں ’’زیر زمین راکٹ‘‘ تیار کئے جاتے تھے تاکہ ان کا پتہ نہ چل سکے ۔
تاہم اب حماس اور اسلامک جہاد نے خام مادہ برائے تیاری راکٹ اور دھماکو اشیاء کو اپنے پاس منتقل کرلیا ہے۔ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیر جنرل ، اسرائیلی ڈیفنس فورسس نے کہا کہ ’’تیار کئے جانے والے راکٹس کی کوالٹی بالکل الگ ہے اور مزید یہ کہ گھر پر تیار کردہ میزائلس اگرچیکہ لمبی مسافت تک حملہ کرنے کے قابل ہیں ، تاہم وہ اپنے نشانہ تک پہنچنے کا ’’گائیڈنس سسٹم ‘‘ اس میں منفقود ہے ۔ اسلامک جہاد ، جس کی ایران حمایت کرتا ہے ، اس نے ایک نیا راکٹ متعارف کروایا جو بدر ۔ 3 کی ہوبہو نقل ہے ، ہفتہ کے اختتام پر اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بدر ۔3 کے ذریعہ شہر اشکیلان کو نشانہ بنائے گا۔ تاہم اسرائیلی ملٹری نے اس پیشرفت کی توثیق نہیں کی ۔ گورنر گانر نے کہا کہ بدر۔3 سے متعلق زیادہ جان کاری تو حاصل نہیں ہوئی تاہم حماس اور اسلامک جہاد دونوں نے یہ طریقہ اپنایا ہے کہ وہ قدیم راکٹس میں تھوڑی سی تبدیلیاں کرتے ہوئے اسے داغا کرتے ہیں تاکہ فریق مخالف میں ان کی ہیبت بیٹھی رہے ۔ ان ہتھیاروں کا سائز بھی ہمیشہ مختلف ہوا کرتا ہے ۔ گانر نے کہا کہ غزہ پٹی میں 15000 تا 20,000 راکٹس ہوسکتے ہیں۔ ہرزاگ نے اس کے برعکس کہا کہ حماس اوراسلامک جہاد کے پاس تقریباً 6000 راکٹس دونوں کے پاس علحدہ علحدہ موجود ہوں گے ۔ غزہ پٹی پر 2014 ء میں تنازعہ سے قبل اسرائیلی انٹلیجنس نے اندازہ ظاہر کیا تھا کہ فلسطینی خطہ میں 11,000 راکٹس ہوں گے ۔ ہرزاگ نے یہ بات کہی تاہم ہر زاگ نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی ملٹری آپریشنس نے ان موجودہ ہتھیاروں کی مقدار کو 2/3 میں کمی لائی ہے ۔ لیکن یہ بھی ضرور ہے کہ فلسطینیوں نے پھر سے دوبارہ اپنے ہتھیاروں کی مقدار / تعداد میں اضافہ کرلیا ہے ۔
اب ان (فلسطینیوں) کے پاس ہتھیاروں کا زائد ذخیرہ نہیں ہے ۔ اور جو موجود ہے ان میں کم مسافت والے راکٹس موجود ہیں جس میں تقریباً 6 میل کی مسافت والے راکٹس ہیں۔ ان میں بعض 1000 راکٹس ایسے بھی ہیں جو 18 میل تک کا بھی فاصلہ طئے کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے جنوبی اسرائیلی شہروں جیسے بیرشیبا اور اشکیلان کا احاطہ کرسکتے ہیں۔ ’’ان میں بعض چھوٹے راکٹ جو طویل مسافت کے حامل ہیں جو 75 تا 100 سے زائد کیلو میٹرس کا احاطہ کرسکتے ہیں، انہیں یہیں (فلسطینی) تیار کیا گیا ہے ‘‘۔ ہرزاگ نے یہ بات کہی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ یہ کئی درجن (12 عدد) یا اس سے زائد بھی ہوسکتے ہیں‘‘۔
ہرزاگ نے کہا کہ سب سے بڑی پیشرفت جو حالیہ لڑائی میں ہوئی ہے وہ ’’برکان راکٹ ‘‘ ہے جو زبردست وزن کو اٹھاتے ہوئے زائد از 100 کیلو بھی ہوسکتا ہے ، لے جاسکتا ہے ۔
کم مسافتی ہتھیاروں میں ، اس قسم کے راکٹس نے اسرائیل کو پھر ایک بار شش و پنج اور چیلنج میں مبتلا کردیا ہے جس سے اس کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ، ہرزاگ نے اس خطرہ کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ اس لئے ہوا ہے کیونکہ اسرائیلی ڈوم سسٹم ان (فلسطینی) میزائیلوں کے لئے انتہائی ناکارہ و ناقص ثابت ہوا ہے جو 2.5 میل سے کم کی رفتار سے اپنے ہدف پر پہنچتے ہیں۔