غریب ہندوستان میں مکیش امبانی کی بیٹی کی شادی عبرت بھی سبق بھی

محمد ریاض احمد
ہمارے وطن عزیز کو آزادی حاصل ہوئے 70 سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔ اس عرصہ میں ملک کی آبادی تقریباً 330 ملین سے بڑھ کر 130 ارب ہوگئی۔ زندگی کے ہر شعبہ میں ملک نے ترقی کی ہے۔ چاند پر کمند ڈالنے میں بھی ہم کامیاب ہوگئے۔ سائنس و ٹیکنالوجی بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں حاصل غیرمعمولی ترقی کے بھی ہم دعوے کرتے نہیں تھکتے۔ ہماری حکومتیں اور اقتدار کی کرسیوں پر براجمان سیاسی قائدین عوام کے سامنے معیشت کی ایک حسین تصویر پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہندوستانی معیشت تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور بہت جلد اسے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کا مقام حاصل ہوجائے گا۔ حالیہ عرصہ کے دوران ملک میں بینکوں اور سرکاری خزانہ کو لوٹ کر فرار ہونے والے بھگوڑے صنعت کاروں و تاجرین چاہے آپ انھیں وجئے مالیا کہہ لیں یا پھر نیرو مودی اور میہول چوکسی کا نام دیں، ان سے متعلق خبروں کے ساتھ یہ خبریں بھی اخبارات اور ٹی وی چیانلوں کی زینت بن رہی ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے انیل امبانی کے بشمول اپنے چند دوست صنعت کاروں کے قرض معاف کردیئے جو کچھ زیادہ نہیں تھے بقول صدر کانگریس راہول گاندھی صرف اور صرف 3.5 لاکھ کروڑ روپئے تھے۔ ایک طرف صنعت کار حکومتی قرض ادا نہ کرتے ہوئے عیش کررہے ہیں۔ دوسری طرف قرض کے بوجھ تلے کسان اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگیوں کا خاتمہ کررہے ہیں۔ ہمارے ملک کو آزادی کے ستر سال بعد بھی دولت مند ہونے کے باوجود غریب ملک ہی کہا جاتا ہے اور اس کی کئی وجوہات بھی ہیں۔ حکومت کے لاکھ دعوؤں کے باوجود یہ تلخ حقیقت ہے کہ آج بھی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے۔

عوام اب بھی روٹی کپڑا اور مکان کو ترستے ہیں، سر چھپانے کے لئے غریب فٹ پاتھوں پر سوتے اور عبوری پُلوں کے نیچے، بڑے بڑے پائپس کے اندر پناہ لئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خود ہمارے شہر میں ایسے مناظر ہر مقام پر دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی غریب کسی دکان کے سامنے بڑی بے فکری سے سوتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو کچھ غریب کسی ہوٹل کی سیڑھیوں اور سڑک کے کنارے رات گزارتے دکھائی دیتے ہیں۔ معیشت کی ترقی کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن عوام کی کثیر تعداد ہنوز خط غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے۔ ملک کی بعض ایسی ریاستیں بھی ہیں جہاں غربت کا یہ حال ہے کہ لوگوں کو اپنا تن ڈھانکنے کے لئے کپڑے تک میسر نہیں۔ یہ لوگ اپنے تن پر صرف ایک کپڑا ڈال کر موسم و حوادثِ دوراں کے اثرات سے بچنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں ہم نے دیکھا کہ شدید سردی میں بھی فٹ پاتھوں، بس و ریلوے اسٹیشنوں کے سائے میں سونے والوں کے پاس خود کو سردی سے بچانے کا کوئی انتظام نہیں تھا، کچھ اہل خیر حضرات اور فیض عام ٹرسٹ جیسی تنظیموں نے ان غریب ہندوستانیوں میں اوڑھنے کے لئے بلانکٹس اور زیب تن کرنے کے لئے گرم کپڑے تقسیم کئے۔ صرف دو تلگو ریاستوں میں سردی سے ٹھٹھر کر فوت ہونے والوں کی تعداد 35 ہوگئی جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں آسمان تلے زندگی گزارنے والے غریب ہندوستانیوں کا کیا ہوا ہوگا۔ ہندوستان شعبہ طب اور خلائی سائنس میں بھی دنیا کے چنندہ ممالک کی صف میں شامل ہوگیا ہے لیکن غربت کا حال یہ ہے کہ زندہ رہنے کے لئے لوگ اپنے گردے فروخت کررہے ہیں۔ عوام کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ غریب اور متوسط طبقہ اگر بیمار پڑجائے تو علاج کروانے کے موقف میں بھی دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ کارپوریٹ اسپتالوں میں علاج کے نام پر اس قدر زیادہ فیس کی مانگ کی جاتی ہے کہ وہ زندہ ہی مرجاتا ہے۔ حال ہی میں Global Hanger Index میں دیکھا گیا کہ ہمارے وطن عزیز کا مقام 119 ملکوں میں 103 واں رہا یعنی ہم اس معاملہ میں روانڈا، مالوی اور کانگو جیسے ملکوں سے بھی پیچھے ہوگئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق صرف ایک سال میں کھانا نہ ملنے کے باعث ملک میں 45 اموات ہوچکی ہیں۔ مودی حکومت کے لئے یہ انتہائی شرمناک بات ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کم از کم 196 ملین ہندوستانی ہر رات بھوکے سوتے ہیں کیوں کہ انھیں کھانا نہیں ملتا۔

ہمارے ملک کو بے روزگاری اور بیماریوں کے سنگین چیالنج کا بھی سامنا ہے۔ کروڑہا بچے صرف غذا نہ ملنے کے باعث ٹھٹھر جاتے ہیں۔ مؤثر طور پر ان کی جسمانی نشوونما نہیں ہوپاتی، اتنی ہی تعداد میں ناقص غذا کا شکار ہوکر 5 سال سے کم عمر کے بچے فوت ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان تمام مسائل و چیلنج کے باوجود یہاں کے دولت مندوں، کروڑ پتیوں و ارب پتیوں کے بچوں کی شادیوں میں کئے جانے والے اسراف اور ان کی پرتعیش سرگرمیوں کو دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان میں دولت کی کوئی کمی نہیں۔ ہمارا ملک ہرگز غریب نہیں۔ یہاں کے دولت مندوں کی شادیوں میں روپیہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ مہمانوں کی ایک دو ، دس بارہ تا بیس تیس ڈشس اور مشروبات سے نہیں بلکہ ملک کے ہر حصہ کے مشہور ذائقوں، میٹھوں و مشروبات سے ان کی تواضع کی جاتی ہے۔ تحفہ و تحائف کے نام پر دیئے جانے والے جہیز کو دیکھ کر عقلیں حیران رہ جاتی ہیں۔ ہمارا تو یہی خیال ہے کہ ہندوستان کے ارب پتی صنعت کاروں و سیاستدانوں کے گھرانوں کی شادیوں کا مقابلہ دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں کیا جاسکتا۔ انگریز تو ان شادیوں کے بارے میں جان کر حیرت میں غرق ہوجاتے ہیں۔ یہ ایسی شادیاں ہوتی ہیں جہاں امریکہ کے ایک نہیں دو سابق سکریٹریز آف اسٹیٹ ہیلاری کلنٹن اور جان کیری، بالی ووڈ کی موسیقی پر ناچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ امریکی گلوکار BEYONCE نغمہ سرائی کرنے لگتی ہے۔ امیتابھ بچن اور ان کے ارکان خاندان مہمانوں کی خاطر تواضع میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ جہاں ایسی شادیاں ہوتی ہوں اُس ملک کو غریب ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی ساری دولت صرف ایک فیصد سے بھی کم لوگوں (صنعت کاروں اور سیاستدانوں) میں آگئی ہے اور ہندوستانی سماج کا مابقی حصہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔

حال ہی میں ریلائنس انڈسٹری کے مالک مکیش امبانی کی بیٹی ایشا امبانی کی شادی اجئے پیرامل کے بیٹے آنند پیرامل سے ہوئی۔ اس شادی کے چرچے ملک و بیرون ملک کے میڈیا میں چھائے رہے۔ اسے صدی کی سب سے مہنگی شادی قرار دیا گیا۔ بلومبرگ اور میڈیا کے دوسرے ذرائع کی خبروں میں یہ انکشاف کیا گیا کہ اس شادی پر 100 ملین ڈالرس (710 کروڑ روپئے) خرچ کئے گئے۔ شادی سے قبل اودے پور راجستھان میں منعقدہ مہندی کی رسم میں مہمانوں کو لانے لے جانے کے لئے 100 چارٹرڈ طیاروں کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں۔ بعد میں ممبئی میں واقع مکیش امبانی کی پرتعیش 27 منزلہ قیامگاہ میں شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں بتایا جاتا ہے کہ امیتابھ بچن ان کے ارکان خاندان، شاہ رخ خان وغیرہ کو مہمانوں کی خدمات پر مامور کیا گیا تھا۔ آپ کو بتادیں کہ مکیش امبانی ہندوستان کے سب سے دولت مند ترین شخص ہیں جنھیں 47.3 ارب ڈالرس مالیتی اثاثوں کا مالک بتایا جاتا ہے۔ اس شادی کو ’’صدی کی شادی‘‘ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ تو صرف مصارف کی بات رہی۔ آنند کے والد نے اپنے بیٹے کو 450 کروڑ روپئے لاگتی ایک عالیشان بنگلہ بھی تحفہ بھی پیش کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پچھلے سال مکیش امبانی کی یومیہ آمدنی 187.9 کروڑ روپئے تھی۔ ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ یا ان کی بیوی نیتا امبانی دوسرے صنعت کاروں کی بہ نسبت فلاحی کاموں میں زیادہ خرچ نہیں کرتے۔ اس شادی میں جو مصارف کئے گئے ہیں اس بارے میں گورنر جموں و کشمیر نے بہت خوب کہا ہے کہ ملک کی ایک دولت مند شخصیت نے اپنی بیٹی کی شادی پر 700 کروڑ روپئے خرچ کردیئے، کسی چیاریٹی کو کچھ بھی عطیہ نہیں دیا۔ فلیگ ڈے تقاریب سے خطاب کے دوران ستیہ پال ملک کا یہ بھی کہنا تھا کہ اُس دولت مند نے اپنی بیٹی کی شادی پر جس طرح رقم خرچ کی ہے اس سے جموں و کشمیر میں 700 اعلیٰ معیاری اسکولس کھولے جاسکتے تھے یا پھر 7000 شہید فوجی جوانوں و عہدیداروں کی بیواؤں کی امداد کی جاسکتی تھی۔ بہرحال ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی صنعت کاروں و سیاستدانوں میں اپنی دولت کی نمائش کی خصلت پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر لکشمی متل نے اپنی بیٹی کی شادی پر 60 ملین ڈالرس خرچ کرڈالے تھے۔ بی جے پی لیڈر گالی جناردھن ریڈی نے اپنی بیٹی کی شادی پر 500 کروڑ روپئے سے زائد خرچ کئے۔ صرف شادی کے دن کیلئے انھوں نے ایک وسیع و عریض عالیشان عارضی محل تعمیر کروایا تھا جس میں مہندی کی رسم منعقد ہوئی۔ (یہ رسم ہندو بہت جوش و خروش سے ادا کرتے ہیں) وزیر فینانس ارون جیٹلی نے بھی 2015 ء میں اپنی بیٹی کی شادی عالیشان پیمانے پر کرتے ہوئے اپنے سر کا بہت بڑا بوجھ اُتارا تھا۔ اس شادی کو Wedding of the Year کہا گیا۔ وزیر حمل و نقل و شاہراہیں جہاز رانی ، آبی وسائل نتن گڈکری نے بھی اپنی بیٹی کی شادی کو دولت کی ریل پیل کے ذریعہ یادگار بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ 10 ہزار مہمانوں نے اس شادی میں شرکت کی تھی اور بتایا جاتا ہے کہ مہمانوں کے لئے 50 چارٹرڈ طیاروں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان شخصیتوں نے ان شادیوں پر پیسہ پانی کی طرح بہایا ہے۔ کیا وہ درست ہے؟ کیا وہ ملک کی خدمت ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ تو ملک کی بدخدمتی ہے۔ انھیں کم از کم ہندوستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زار سمجھے جانے والے عظیم پریم جی سے سبق حاصل کرنا چاہئے تھا۔ دولت کے لحاظ سے وپرو کے صدرنشین ہندوستان میں دوسرا مقام رکھتے ہیں۔ وہ 20 ارب ڈالرس دولت کے مالک ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں رشاد اور طارق پریم جی کی شادیوں میں کوئی شور شرابہ نہیں کیا۔ بڑی سادگی سے یہ شادیاں انجام پائیں۔ حد تو یہ ہے کہ اُن شادیوں میں مہمانوں پر واضح کردیا گیا تھا کہ دولہا دولہن کو تحائف نہیں بلکہ عطیات دیں تاکہ ان تحائف کی رقم سے لڑکیوں کیلئے اسکولس کھولے جائیں اور اس کے لئے میاچنگ گرانٹ عظیم پریم جی خاندان ادا کرے گا چنانچہ لڑکیوں کے 250 اسکولوں کے قیام کیلئے 400 کروڑ روپئے کے عطیات وصول ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس خاندان کے ایک صنعت کار دوست کی اہلیہ نے تحفہ میں 45 کروڑ روپئے کا چیک پیش کیا تھا۔ اس طرح عظیم پریم جی نے اپنے بیٹوں کی شادی میں سادگی اختیار کرتے ہوئے ملک کے تعلیمی شعبہ کو مستحکم کرنے اور لڑکیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا کام کیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ عظیم پریم جی نے پہلے ہی یہ اعلان کر رکھا ہے کہ اپنی نصف دولت وہ فلاحی و خیراتی کاموں پر خرچ کریں گے تاکہ ملک میں علم کی روشنی پھیلے۔ کاش دولت مند والدین اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادیوں کے موقع پر یتیموں، یسیروں، بیواؤں اور غریب خاندانوں کی بہبود کے اقدامات کرتے تو کتنا بہتر ہوتا۔ سب کو یہ جان لینا چاہئے کہ یہ دنیا فانی ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com