غربت اورمنشیات کے چنگل سے بچنے والے بچے اسمگلروںکی جال میں

جسیم الدین نظامی

ہندوستان میں شہر مسلسل پھیل رہے ہیں۔ اس باعث ٹریفک بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ بڑھتی آبادی اور ٹریفک کے شور سے بڑے شہروں کے بے گھر افراد رات بھر اس خوف میں زندہ رہتے ہیں کہ وہ کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائیں۔ہندوستان کے بھیڑ والے اور مصروف شہروں میں بسے لاکھوں بے گھر افراد میں سے ایک منجیت کور بھی ہے۔ اْسے یہ نہیں معلوم کہ اْس کی عمر کتنی ہے اور وہ کب سے نئی دہلی کی ایک فٹ پاتھ پر زندگی بسر کر رہی ہے۔ اْس کا سارا سامان پلاسٹ بیگز میں بند ہے اور گندے کپڑے دھو کر انہیں سوکھنے کے لیے فٹ پاتھ کی ریلنگ پر ڈال دیتی ہے۔برسوں پہلے وہ شمالی ہندوستانی شہر لدھیانہ میں رہتی تھی اور پھر ایک دن اْس کے سسرال والوں نے جائیداد کے تنازعے پر اْسے گھر سے نکال دیا۔ وہ اپنے دو بیٹوں کو لے کر نئی دہلی پہنچ گئی۔ ابتداء میں وہ خوراک کے لیے ایک گردوارے جایا کرتی تھی۔ اْس کے پاس کوئی رقم نہیں تھی کہ وہ کسی گھر میں جا بستی۔ اْس کے دونوں بیٹے ایک گردوارے کے باہر فٹ پاتھ پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔عالمی نیوزایجنسی رائٹر کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے منجیت کور نے بتایا کہ اْس کے پاس کوئی جگہ نہیں کہ جہاں جا کر وہ آباد ہو جائے اور اْس کے نام جائیداد کا بھی کوئی ٹکڑا نہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ ہندوستان میں ایسے بے گھر افراد کو سردی یا شدید گرمی میں پناہ کا کوئی مقام دستیاب نہیں ہوتا۔ یہ پلاسٹک شیٹ کی چھت تلے گرمی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس انہیں ڈراتی دھمکاتی رہتی ہے لیکن وہ کہاں جائیں۔ اسی طرح جب لوگوں کو فٹ پاتھ پر چلنے میں دشواری ہوتی ہے تو وہ اْن پر لعن طعن کرتے ہیں۔ انہیں مسلسل آرامی اور حادثوں کا خوف بھی لاحق رہتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس ایک چھوٹا سا کمرہ لینے کے پیسے بھی نہیں اور جو ہوتے ہیں، وہ اْن کی شکم کی آگ ٹھنڈی کرنے پر خرچ ہوجاتے ہیں۔دارالحکومت نئی دہلی میں کئی ہزار انسان بے گھری کا شکار ہیں اور مسلسل لوگوں کی آمد ہو رہی ہے۔ یہ لوگ روزگار کی تلاش میں دیہات اور چھوٹے قصبوں سے نئی دہلی جیسے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ انجام کار جب نئے آنے والوں کو بھی کو کوئی جگہ نہیں ملتی تو وہ کسی فٹ پاتھ یا پھر کوئی کچی بستی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اسی طرح بے شمار لوگ فٹ پاتھ کے علاوہ مختلف پلوں اور فلائی اوورز کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ہندوستان میں بے گھر افراد کی کْل تعداد میں 10 فیصد خواتین ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہندوستان میں ایسے لاچار و بے سرو سامان افراد کی تعداد کا تعین کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے اور بے گھری کی شکار خواتین کے بارے میں قابل اعتماد ڈیٹا تو میسر ہی نہیں۔حقوق کے اداروں کے مطابق صرف نئی دہلی میں بے گھر افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں بے گھر افراد کی تعداد میں کمی ہوئی ہے لیکن یہ سات برس پہلے کی بات ہے۔تاہم اس معاملے کا سب سے تاریک اور گھنائونا پہلویہ ہے کہ غربت اوربے گھری کے شکار افراد کے بچے پہلے منشیات فروشی کی لت کا شکار ہوتے ہیں اورجب وہ اس چکر سے نکلتے ہیں تو انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔قبل ازیںاقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے مطابق ایسے بچے جو منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے تشدد سے بچ نکلتے ہیں، وہ انسانوں کے اسمگلروں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ دوسری طرف یونیسیف کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ہزاروں بچے ایسے ہیں، جو یا تو تنہا یا پھر اپنے اہل خانہ کے ساتھ السلواڈور، ہونڈوراس اور گوئٹے مالا سے امریکہ کی جانب سفر کر رہے ہیں اور انہیں میکسیکو سے گزرنا پڑتاہے۔رپورٹ کے مطابق ہر برس ایسے ہزاروں بچوں کو ایک طرف منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ افراد کا سامنا ہوتا ہے تو بہت سے بچے انسانوں کے اسمگلروں کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’خاندانوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک طویل سفر ہے، جس میں ان معصوم بچوں کے انسانوں کے اسمگلروں یا دیگر جرائم پیشہ عناصر کے ہتھے چڑھ جانے کے خطرات موجود ہیں۔‘‘یونیسیف کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت سے تارکین وطن، جنہیں مختلف ممالک کی جانب سے ملک بدر کیا گیا، وہ اپنے پیچھے چھوڑے گئے قرضوں یا جرائم پیشہ عناصر کے دائرے میں پھنس گئے۔یونیسیف کی اس رپورٹ کے مطابق امریکہ سے قریب 24ہزار 200 خواتین اور بچوں کو جنوری اور جون کے درمیانی عرصے میں ملک بدر کیا گیا اور ایسی ملک بدریوں میں میکسیکو سرفہرست تھا۔یونیسیف کے علاقائی ڈائریکٹر خوزے بیرگوآ کے مطابق، ’’مختلف ممالک کی سرحدوں پر سخت ترین چیکنگ کی وجہ سے تارکین وطن اور مہاجرین بہ شمول بچے بہت خطرناک راستوں کا انتخاب کر رہے ہیں۔‘‘انہوں نے رائٹرسے بات چیت میں کہا، ’’حراست سے بچنے کے لیے یہ بچے چھپ کر سفر کرتے ہیں، جہاں کوئی نہیں جانتا کہ یہ کہاں ہیں، ایسے میں جرائم پیشہ عناصر اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘یونیسیف کے مطابق وسطی امریکہ میں ایسے بچوں کی حتمی تعداد معلوم نہیں، جو جنسی استحصال یا جبری مشقت کا نشانہ بن چکے ہیں۔ واضح رہے کہ وسطی امریکہ اور بحیرہ کیریبیین کے خطے میں بچوں کی اسمگلنگ ایک نہایت منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہو چکی ہے، جہاں انسانوں کی ٹریفکنگ کے متاثرہ ہر پانچ افراد میں سے تین بچے ہوتے ہیں۔ جبکہ ہندوستانی پولیس نے ہندوستان سے بیرون ملک بچے اسمگل کر نے والے ایسے گروہ کو گرفتار کر لیا جس نے 300 بچے امریکہ اسمگل کئے ہیں۔ہندوستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق راجو بھائی گملے والا کے نام سے جانا جاتا گجرات کا رہائشی نے اسمگلنگ کا یہ کام 2007 میں شروع کیا تھا، وہ امریکہ میں مقیم اس دھندے میں ملوث لوگوں کے ہاتھ بچے 45 لاکھ میں بیچتا تھا۔ان بچوں کی عمریں 11 سے 16 سال کے درمیان تھیں اور ان کا تعلق غریب گھرانے سے تھا۔پولیس کے مطابق اس غربت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے بچوں کے والدین نے انہیں بیچا تھا۔پولیس نے مزید بتایا کہ اس گروہ کا پہلی دفعہ مارچ میں پتہ چلا تھا جب ایک ہندوستانی اداکارہ کی ایک دوست کی جانب سے انہیں کال موصول ہوئی۔پولیس نے مزید بتایا کہ اداکارہ کی دوست نے انہیں بتایا کہ وہ ایک سلون میں موجود ہیں جہاں دو بچیاں بھی ہیں جن کو میک اپ کر کے ان کی شناخت چھپائی جارہی ہے، اسی شک کی بنا پر انہوں نے پولیس کو اطلاع دی تھی جس کے بعد اس گروہ کی گرفتاری عمل میں آئی۔