ڈاکٹر محمد ناظم علی
غالب اردو کے عظیم شعراء میں سے ایک ہیں ۔ انھوں نے اردو شاعری کو اعلی تخیل ، اعلی فکر اور اعلی انداز بیان عطا کیا ۔ ان کے کلام میں فکر کی گہرائی و گیرائی پائی جاتی ہے ۔ ان کی شاعری میں فکر و فن کی رنگارنگی اور تنوع پایا جاتا ہے ۔ ان کے انداز بیان میں تازگی ، ندرت ، جدت پائی جاتی ہے ۔ زندگی کے تجربات ، مشاہدات ، حوادث ، حالات کوائف کو فنی رکھ رکھاؤ کے ساتھ فکر انگیز و مدبرانہ انداز سے پیش کرنے میں انفرادیت رکھتے ہیں ۔ غالب کے کلام میں فلسفہ حیات و طرح داری ، شگفتگی اور شوخی ملتی ہے ۔ غالب فارسی کے اعلی شاعر تھے ۔ فارسی نثر میں کئی تصانیف ملتی ہیں وہ اردو و فارسی کے عمدہ نثار شاعر تھے ۔ ان کے اردو کلام کا انتخاب ان کی زندگی ہی میں پہلی مرتبہ 1841 ء میں شائع ہوا ۔ چھ ماہ کی قید کے زمانے میں بہ زبان فارسی لکھی گئی 84 اشعار کی ایک نظم سبدچین ہے جو ان کے کلیات میں شامل ہونے سے رہ گئی ہے ۔
ان کی تصانیف میں مہر نیم روز جولائی 1850 ء میں مغلیہ حکومت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے غالب کو مغلیہ دور کی تاریخ لکھنے کا کام تفویص کیا ، جس کے لئے ماہانہ 50 روپئے تنخواہ مقرر کی گئی تھی اور خطاب نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ ملا تھا ۔ ایسا اعزاز استاد ذوق کو بھی نصیب نہ ہوا ۔ غالب نے ابتداء تا بابر تاریخ رقم کی ہے جو ان کی فارسی تحریر کا نمونہ ہے ۔ دستنبو غالب کا فارسی میں روزنامچہ ہے جس میں انھوں نے غدر کے واقعات لکھے ہیں ان تصانیف سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ غالب میں مورخ اور تاریخ لکھنے کا ملکہ و لیاقت تھی خود ان کے اردو خطوط کے مجموعہ عود ہندی 1867 ء اردو معلی 1869 میں شائع ہوا ، میں تاریخی حقائق کے ساتھ اہم واقعات و حوادث کے رونما ہونے کے تاریخی حقائق موجود ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غالب اپنی نثری تخلیقات میں ایک زندہ مورخ کی طرح موجود دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ چشم دید حالات بیان کررہے ہیں جو دیکھا وہ لکھا یہ تاریخی حقائق ہیں یازدہم کی ترکیب اپنے خط میں استعمال کی اکثر لوگ غدر 10 مئی 1857 لکھتے ہیں لیکن غالب نے 11 مئی 1857 میرٹھ میں بلوا ہوا لکھا ہے ۔
اس مورخ کی صفات ان کی شخصیت میں موجزن تھی ۔ غالب لغت نویسی کے اصول سے واقف تھے اس لئے ’’قاطع برہان‘‘ کا جواب ’’برہان قاطع‘‘ کے تحت نام سے دیا ۔ یہ تو رہا غالب کی زندگی ادبی تصانیف کا تعارف و صفات ، لیکن غالب کو جدید شاعر کہا جاتا ہے اس لئے کہ انھوں نے ایک تہذیب کو ختم ہوتے دیکھا ، دوسری جدید تہدیب کو دیکھا ، زندگی گزاری ۔ 1858 ء کے بعد انگریزوں نے دلی پر اپنا مکمل قبضہ جمالیا اور بتدریج اپنی زبان و تہذیب مسلط کرنے لگے ویسے غالب جب پنشن کے سلسلے میں کلکتہ جارہے تھے تو دریائے ہگلی میں اسٹیمر (پانی کے بھانپ سے چلنے والے جہازوں) کو دیکھا اور نئی ایجادات پر انکشافات یعنی جدید حالات سے آگہی غالب کو حاصل ہوتی رہی ہے ۔ یہی جدیدیت اور جدید حالات تھے اور ان کو محسوس کیا اور اپنے کلام میں کہیں نہ کہیں اشارہ کرتے رہے ۔ غالب قدیم اور کلاسیکیت کو برقرار رکھتے ہوئے جدید علوم و فنون حالات کا ادراک حاصل کیا نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا میں رونما ہونے والی سماجی ، سیاسی ، ثقافتی ، تبدیلیوں سے آگاہ ہوتے رہے ۔ غالب کو جدید اور جدیدیت کا اولین شاعر کہیں تو بے جانہ ہوگا ۔ اپنی نثر و نظم میں ان دنیاوی عصری بلکہ جہاں کو پیش کیا ۔ زمان و مکان کے لحاظ سے ہر شاعر اپنے دور کا جدید شاعر کہلاتا ہے ۔ بشرطیکہ زمانے کی تبدیلیوں کو بھانپ لیں۔ غالب تو اپنے زمانے سے آگے تھے ۔ وقت سے پہلے پیدا ہوگئے تھے ۔ ان میں ایسی دیدہ وری تھی کہ حال و مستقبل کا شعورہ و اشارہ ان کے اظہار میں مل جاتا تھا ۔ غالب ، مدبر ، دانشور اور مفکر شاعر تھے ۔ نظری و عملی سیاست میں حصہ نہیں لیا مگر سیاسی شعور بالیدہ تھا ۔ انگریزی و انگریزوں کی تہذیب و چال و چلن کو پرکھ لیا تھا ۔ غدر کے ہنگامہ میں سب پکڑے گئے مگر یہ بے قصور نکلے ۔ انگریزوں کے قابض ہونے کا غم تھا ۔ مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہونے کا غم بھی تھا ۔ ان کے کلام میں غم عشق ، غم روزگار دونوں موجود ہے ۔ غالب کا تخیل ، فکر ، خیال ، انداز بیان ، حشر خیز اور حشر انگیز تھا ۔ انہوںنے اپنی غزل اور نثر میں جو کچھ لکھا وہ ادبی قارئین کو فکر کرنے کے ساتھ چونکانے والا تھا ۔ خود غالب کے دیوان کا پہلا شعر جو حشر خیز تخیل کا موجب ہے وہ کہتے ہیں ؎
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
اس ایک شعر کی تشریح ، تعبیر ، تفسیر کرنے کیلئے اردو کے دانشور و آزمودہ کار ادیب و نقاد ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید نے لگ بھگ ایک ضخیم کتاب تصنیف کی ہے ۔ جس میں اس شعر کا پس منظر ، محاکمہ ، تجزیہ ، تنقیدی جائزہ ، جامع تفصیل سے تاریخی اور تہذیبی حوالوں سے پیش کیا ہے ۔ ایک دانشور کا ایسا لکھنا کیا غالب کے حشر خیز تخیل کی علامت نہیں ہے ۔ تخیل حشر انگیز حشر خیز تب ہی بنتا ہے جبکہ وہ شخصیت جہاندیدہ ہو اور زندگی و زمانے کا گہرائی و گیرائی سے عمیق مطالعہ کیا ہو ۔ پورے globe پر اس کی نظر ہو ۔ حشر خیز تخیل کائناتی سطح کے مطالعہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ زندگی و زمانے کے مشاہدات ، مطالبات سے پیدا ہوتی ہیں ۔ غالب کا کوئی شعر لے لیں یا چند منتخب شعر اخذ کرلیں ، انکی تشریح کریں معنی و تشریح کی پرتیں کھلتی جائیں گی ۔ اسی لئے تو غالب پر جتنی شرحیں لکھی گئی ہیں اتنی کسی اور شاعر پر نہیں لکھی گئی ۔