عوام کی پریشانیاں حکمرانوں کا تختۂ مشق

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
میٹرو لائن کا کام کب پورا ہوگاشہریو ںکو اندازہ نہیں، ٹریفک بہاؤ کب بہتر ہوگا یہ بھی پتہ نہیں، شہر عالمی درجہ کا کب بن جائے گا اس کی خبر صرف اخبارات میں ہے۔ چارمینار پیدل راہرو پراجکٹ سے سیاحوں کو کوئی دلچسپی نہیں پھر بھی یہ پراجکٹ کب ختم ہوگا، یہ بھی واضح نہیں ہے، کیونکہ شہریوں کو ان دنوں ان تمام اُمور سے کوئی سروکار نہیں‘ انہیں تو بس گرمی سے چھٹکارا ملنے کا بے تابی سے انتظار ہے۔ پینے کے پانی کی قلت کب دور ہوگی یہ محکمہ آبرسانی کے رحم و کرم پر نہیں بلکہ قدرت کی کرم فرمائیوں پر منحصر ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو اس سے پہلے اتنی فکر نہیں تھی یہ لوگ بے تاب اور پریشان ہورہے ہیں۔ اِدھر اُدھر پھر رہے ہیں متبادل انتظامات کرنے کے اعلانات کررہے ہیں اور یہ کرووہ کرو کے دوران موسم گرما گذر جائے گا۔ اگر بارش نے مہربانی کی اور دونوں شہروں کے تالاب لبریز ہوگئے تو پھر حکمرانوں کی فکر دور ہوجائے گی۔ پراجکٹس کے تعلق سے اعلانات کاغذ کی ردی میں چلے جائیں گے۔ عوام کی پریشانیاں ہر سال حکمرانوں کا ایک تختۂ مشق بنی ہوئی ہیں۔

حیدرآباد میں میٹرو ریل کا کام مقررہ وقت سے بہت دور تک چلا گیا ہے۔ شہر کی سڑکوں پر جگہ جگہ رکاوٹوں سے جو مسائل پیدا ہورہے ہیں اس سے عام شہری روزانہ پریشان ہیں اور گزشتہ دنوں کولکتہ میں جو فلائی اوور کی تعمیر کے دوران انہدام کا واقعہ پیش آیا تھا، اب حیدرآباد میٹرو ریل کے تعلق سے عوام کا یہ عام احساس ہے کہ اس پُل کی تعمیر اور تکمیل کے بارے میں شکوک اس لئے پیدا ہورہے ہیں کیونکہ ریل پراجکٹ کے اصل کنٹراکٹر ’ لارسن اینڈ ٹوبرو ‘ نے اس کام کے کئی حصوں کو مختلف خانگی کنٹراکٹرس کے حوالے کئے ہیں۔ خدانخواستہ اگر کل کو کوئی بڑا حادثہ پیش آئے تو اس کی ذمہ داری کس کے سر ہوگی؟ اور متاثرہ لوگ معاوضہ کے لئے کس سے رجوع ہوں گے؟ ۔ اس تناظر میں میٹرو ریل کوریڈور میٹرو انڈیا نے اصل کنٹراکٹر سے وضاحت طلب کی ہے کہ آیا اس نے میٹرو ریل کام کو مختلف کنٹراکٹرس کے حوالے کرنے سے قبل حفاظتی انتظامات کا کوئی منصوبہ بنایا ہے؟ کیونکہ جب کوئی بڑا کنٹراکٹر گتہ لیتا ہے تو دیگر چھوٹے چھوٹے گتہ داروں کو کام تفویض کرتا ہے ان حالات میں سنگین لاپرواہی اور تعمیراتی اُصولوں سے ہٹ کر کام کیا جاتا ہے جس سے حادثے ہوتے ہیں جیسا کہ لکھنؤ میں حال ہی میں لارسن اینڈ ٹوبرو کی زیر نگرانی تعمیر ہونے والا پُل منہدم ہوگیا تھا جس سے ایک شخص ہلاک اور 6زخمی ہوئے تھے۔ کولکتہ میں 31مارچ کو فلائی اوور انہدام میں 27 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ پنجہ گٹہ حیدرآباد میں سال 2015 کو نمس کے قریب میٹرو ریل ورکس کے دوران 10 کیلو گرام وزنی لوہے کی شئے ایک موٹر راں پر گر پڑی تھی جس سے اس کی جان تو بچ گئی مگر وہ اپنے پیروں سے محروم ہوگیا تھا۔ میٹرو ریل کے تعمیراتی کاموں کے معیار اور اس کی تکمیل کے مسئلہ پر حکومت لاپرواہی سے کام لے رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس پراجکٹ سے فوائد کے بجائے پریشانیاں بڑھ جائیں گی جس کے لئے خود حکومت ذمہ دار ہوگی۔
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اس لئے بھی خوش نصیب ہیں کہ تلنگانہ کے عوام ایک لحاظ سے بے زبان ہیں کیونکہ انہیں حکمرانوں سے شکایت کرنے کی عادت ہی نہیں ہے، ان لوگوں نے ہمیشہ ہی حکمرانوں پر حد درجہ بھروسہ کیا ہے۔ ہر عام انتخابات کی ایک رسم یہ ہوتی ہے کہ لوگ اپنے آپ سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ آنے والے انتخابات تک خود کو کسی طرح بدلیں گے اور جس پارٹی کو اقتدار سونپ رہے ہیں اس سے کتنی توقعات وابستہ رکھیں گے۔ لوگوں کا اپنے حکمرانوں کے ساتھ یہ عہد و پیماں وعدوں تک محدود ہوتا ہے کیونکہ سیاستدانوں کے یہ وعدے وفا نہیں ہوپاتے، نہ ہی ان کی پرانی عادتیں چھوٹتی ہیں اور نہ نئے منصوبے اپنے انجام تک پہنچ پاتے ہیں تو پھر عوام نے اجتماعی طور پر تلنگانہ حاصل کرلیا اور حکومت بنانے کا  فیصلہ بھی اجتماعی طور پر ہی کیا۔ مگر ان کی اجتماعی ضروریات کو پورا کرنے کا عہد و پیماں حکومت نے فراموش کردیا۔ عوام کو اندر ہی اندر چندر شیکھر راؤ سے نفرت ہورہی ہے تو کہیں یہ بھی خیال ہورہا ہے کہ سابق حکومت کہیں بہتر تھی۔ پہلے ریاست میں اتنی شدید خشک سالی اور دیگر مسائل تو نہیں ہوتے تھے۔ عوام کو یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ مقام صبر ہے کہ مقام شکر، انہوں نے ایک جوش کے ساتھ ریاست حاصل کی تھی، اور اب ایک دُکھ ہے جس کا مداوا نظر نہیںآتا۔

یہاں ایک بات ضرور نوٹ کی جائے کہ سابق چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو نے جو اس وقت منقسم ریاست آندھرا پردیش کے چیف منسٹر ہیں اپنی 66ویں سالگرہ کے موقع پر دعویٰ کیا کہ تلنگانہ اور حیدرآباد میں آج خوشحالی جوکچھ بھی ہے انہی کی پالیسیوں کی مرہون منت ہے، ان کے ویژن کی بدولت ہی تلنگانہ کو زبردست ریونیو حاصل ہورہا ہے اور انہوں نے ہی حیدرآباد کو عالمی نقشہ میں نمایاں مقام دینے میں اہم رول ادا کیا۔ آئی ٹی کو فروغ دیا اور ان ہی کی کوششوں کی وجہ سے آج آئی ٹی صنعت تلنگانہ کے لئے سونے کی کان بن گئی ہے۔ انہوں نے جتنی محنت کی تھی اس کے فوائد آج تلنگانہ کی حکومت اٹھارہی ہے۔ نائیڈو نے یہ بھی کہا کہ جب انہوں نے1995 میں اقتدار حاصل کیا تھا تو ریاست کا خزانہ خالی تھا، سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کیلئے پیسہ نہیں تھا۔ تاہم انہوں نے اپنے صاف ستھرے ویژن کے ساتھ ریاست کو فروغ دینا شروع کیا اور حیدرآباد اب ایک نالج سٹی بن گیا ہے۔ تلنگانہ کے موجودہ چیف منسٹر کو آندھرا پردیش کے چیف منسٹر کے اس دعویٰ پر غصہ ضرور آئے گا، اور ان کا خیال ہوگا کہ اگر کوئی شخص بے رحم اور بد اخلاق ہوتا ہے تو اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے تلنگانہ کا پانی نہیں پیا کیونکہ تلنگانہ کے لوگوں کو اس بات پر یقین ہے کہ گنڈی پیٹ کا پانی پینے والا دروغ گوئی کرتا ہے اور نہ کسی کا دل دُکھا سکتا ہے۔

نائیڈو نے اگر تلنگانہ کی ترقی کے بارے میں اپنے ویژن کا حوالہ دیا ہے تو کے سی آر کے پاس بھی اس کا جواب بھی ہوگا۔ مگر اس وقت جواب دینے کے لائق کوئی کام بھی تو نہیں ہیں۔ مختصر مدت میں نائیڈو کی لمبی لمبی پھیک کا جواب دینا بھی مناسب نہیں ہے۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے سی آر صرف دو سال پورے کرنے جارہے ہیں، ابھی انہیں 3سال تک حکومت کرنی ہے تو وہ نائیڈو کو ایک نہ ایک دن لاجواب کرہی دیں گے۔ بلاشبہ حیدرآباد اس نئی ریاست تلنگانہ کا اکنامک گیٹ وے ہے، یہ ملک میں آئی ٹی کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ حیدرآباد کی آبادی اب ایک کروڑ سے تجاوز کررہی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس شہر کے نئے حکمراں کا ویژن پرانے حکمرانوں کی طرح نہیں ہے۔ شہر کا مستقبل بے ڈھنگے پن سے بڑھتا جارہا ہے۔ پانی، برقی، بلدی، سفری اور دیگر سہولتوں کے معاملے میں یہ شہر حکومتوں کی عدم توجہ کی شکایت کررہا ہے۔ مستقبل کے لئے بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان تو ہوتا ہے مگر اس کی انجام دہی ندارد ہوتی ہے۔ حسین ساگر کو صاف ستھرا بنانے کا مسئلہ برسوں سے سنائی دیتا آرہا ہے، اب تو تلنگانہ حکومت نے اس آلودہ پانی والے تالاب کو پینے کے پانی کی جھیل میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ تو دن میں خواب دیکھنے یا پھر عوام کو دن میں تارے دکھانے والی بات کے مترادف ہے کیونکہ جس تالاب کو دانستہ طور پر گندہ بنایا گیا اس کو صاف کرنے کا عزم پتھر پر سر مارنے کے برابر ہے۔ ہر سال گنیش وسرجن کے موقع پر بے تحاشہ مورتیوں کا وسرجن ہوتا ہے بعد ازاں سال بھر اس کی صفائی کی باتیں ہی ہوتی رہتی ہیں۔ کیا حکمرانوں کو یہ کہتے ہوئے اندازہ  نہیں ہوتا کہ شہری ان کی باتوں کا مذاق بنائیں گے اور انہیں مسخرا سمجھ کر طعنہ دیں گے۔ کیا واقعی ممکن ہے کہ حسین ساگر کو پینے کے پانی کی جھیل کے طور پر ترقی دی جائے گی۔ موسیٰ ندی کے پراجکٹ کو برسوں سے لیت و لعل کا شکار بنانے کے بعد حسین ساگر حکومت کا پسندیدہ مشغلہ بن رہا ہے تو یہ سراسر شہریوں کی خشک آنکھوں میں حسین ساگر کا آلودہ پانی چھڑک دینا ہے۔
kbaig92@gmail.com