عوام کا جن کو درد ہے معدودے چند ہیں

اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
حیدرآباد میں ترقی صاف صفائی اور ٹریفک کے مسائل کی یکسوئی سے متعلق مقامی جماعت کے ہورڈنگس ، بیانرس ، پوسٹرس نے شہریوں کے سامنے ان قائدین کی یہ شبیہ ام العیوب بن کر ابھر رہی ہے ۔ اپنے سے دور کے لوگوںکو جھوٹ کے ذریعہ گمراہ کیا جاسکتا ہے ۔ جس شہر میں لوگ رہتے ہیں ان سے ہی یہ کہا جارہا ہے کہ آپ کو ہم نے ایک صاف ستھرا شہر دیا ۔ کوڑا کرکٹ ،کچرا ، غلاظت سے پاک ماحول دیا ۔ صحت عامہ کا خیال رکھا ۔ پولیس ہراسانی اور اس سے ہونے والی اذیت ناک زندگیوں کو بچایا ۔ یہ سب پرانے شہر سے لیکر نئے شہر بلکہ ان قائدین کے جہاں جہاں بھی اپنے سکے چلنے کے دعوی کئے ہیں وہاں دروغ گوئی پوری ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ بال کھولے سورہی ہے ۔ بس اسٹاپس ہو یا چوراہوں پر ان دنوں ہورڈنگس آویزاں کرکے شہر کے قائدین بلند دعوی کررہے ہیں ۔ ان کی اس شان دروغ گوئی پر عام شہری حیرت زدہ ہیں ۔ اگر ان سے یہ سوال کیاجائے کہ انتخابات کے دوران کئے گئے وعدوں کا کیا ہورہا ہے تو وہ ہنستے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ وہ تو سیاسی تقریریں اور سیاسی وعدے تھے ان کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے ۔ یعنی یہ لوگ عوام کو ایک روپ دکھاتے ہیں اپنا سیاسی سکہ چلاتے ہیں دوسرے روپ میں وہ عوام کو احمق سمجھتے ہیں ۔ یعنی ان کے نزدیک سیاست اور جھوٹ میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ بلدیہ ملازمین کی ہڑتال سے شہر کوڑے داں میں تبدیل ہوگیا ویسے بھی روزانہ بلدیہ کا عملہ کس حد تک دیانتداری سے کام کرتا ہے اور بلدی کارپوریٹرس اپنے حصہ کے طور پر کس ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ سبھی جانتے ہیں ۔ شہر کے کسی بھی محلے میں جایئے یکساں مسائل نظر آئیں گے ۔ تلنگانہ بنانے کی ضد اور متحدہ آندھرا کی حماقت نے ریاستی حکومت کو تو یکسر مفلوج بنادیا ہے ۔ اب تلنگانہ بل کی پارلیمنٹ میں پیشکش کے بعد جو مراحل طے ہوں گے اس میں سیاستدانوں کی ریاستی سطح پر زبردست قلابازیاں دیکھنے کو ملیں گی ۔ شہری اور محلہ واری سطح پر تلنگانہ کا چرچہ جاری رہے گا ۔ ایسے میں لوگ خود پر ہونے والے سرکاری عہدیداروں کے مظالم ، زیادتیاں برداشت کرتے رہیں گے ۔ یہ حکومت کے ذمہ داروں کی ہی زیادتی ہے کہ عوام کو وقت پر برقی ، پانی میسر نہیں ۔ صفائی کا نام نہیں ۔ پولیس ظلم انتہا کو پہنچ چکا ہے ۔ پولیس ہرسانی کا شکار مسلم نوجوان محمد جعفر نے دواخانہ میں آخری سانس لے لی ہے ۔ اگر اس نوجوان کی موت کا واقعہ کسی دوسرے طبقہ میں پیش آتا تو یہ طبقہ ساری سرکاری مشنری کو آگ لگادیتے اپنے احتجاج کے ذریعہ حکومت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتا مگر محمد جعفر یا اس طرح کے مسلم نوجوانوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ ان کا تعلق ایک ایسے طبقہ اور سیاستدانوں سے ہے جو صرف ولیمہ کی دعوتوں ، دیگوں اور شادی خانوں کی زینت بننے کو اولین ذمہ داری محسوس کرتا ہے ۔ پولیس ٹریفک کی زیادتیاں ہوں یا لا اینڈ آرڈر کے عہدیداروں کا ظلم اس سے کوئی عام شہری محفوظ نہیں ہے ۔ جن لوگوںنے سیاست کو چوری چکاری ، دروغ گوئی کے علاوہ کچھ نہیں سمجھا ہے وہ عوام کی اہمیت کو کیا سمجھیں گے ۔ یہی سیاستداں جب پارلیمنٹ اور اسمبلی میں ہوتے ہیں تو اپنا اصل رنگ بھی دکھاتے ہیں ۔ پارلیمنٹ میں تلنگانہ بل کی پیشکشی کے دوران سیما آندھرا کے ارکان پارلیمنٹ نے چاقو ، پیپر اسپرے کا استعمال کرکے جمہوری تاریخ اور پارلیمانی تہذیب کو داغدار کردیا ۔ ملک کی 15 ویں لوک سبھا کو بری طرح ناکام کرنے والے یہ سرکاری اور اپوزیشن بنچوں کے ارکان کو چند ہفتوں میں رائے دہندوں سے رجوع ہونا ہے ۔ یہ رائے دہندے خاص کر آندھرا پردیش کے ووٹرس کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ ایسے لیڈرس کو دھتکاریں جو انہیں دھوکہ میں رکھ کر اسمبلی اور پارلیمانی تہذیب کو داغدار کرچکے ہیں ۔ پارلیمنٹ میں تلنگانہ بل کو روکنے کے لئے جس طوفانی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا اس پر وزیراعظم منموہن سنگھ نے صدمہ خیز تبصرہ کیا کہ ان کا دل خون کے آنسو رورہا ہے ۔ پارلیمنٹ کی حالت زار جمہوریت کے لئے افسوسناک ہے ۔ ایسے ملک اور ریاست کے رائے دہندوں کے سامنے اپنے لیڈروں کے چہرے بری طرح آشکار ہوچکے ہیں انھیں چند دنوں میں ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ بوتھ جانا پڑے گا ۔ عوام کا ووٹ کس کے حق میں جائے گا یہ فیصلہ کرنا ان کے عقل اوردانش کا امتحان کہلائے گا ۔ پارلیمنٹ کو چلنے نہ دے کر ارکان نے اپنی صلاحیتوں کا بدترین مظاہرہ کیا ہے لیکن جو حکومت کے ذمہ دار ہیں انھوں نے ایسے حالات پیدا کرنے کی اجازت دے کر اپنے فرائض میں کوتاہی برتی ہے ۔ وزیراعظم نے صرف صدمہ کا اظہار کرکے اپنی بے بسی کا رونا رویا لیکن ہونا تو یہ چاہئے کہ 15ویں لوک سبھا کے اختتام سے قبل ایک ایسا سخت ترین قانون لایا جائے جس کے تحت ایوان کے اندر کسی بھی مسئلہ پر ارکان پارلیمنٹ کو پرتشدد احتجاج کی اجازت نہیں ہوگی اور کوئی رکن 15 منٹ سے زیادہ ایوان کی کارروائی کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرے تو اسے از حود نااہل قرار دیا جائے ۔ اس قانون کو موجودہ پارلیمنٹ کے ارکان کی منظوری مل جائے تو بلاشبہ آنے والی پارلیمنٹ کے ارکان میں تہذیب و تمدن اور ایوان کے تقدس کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی موت کا بھی خاص خیال رہے گا کیوں کہ اگر کسی بھی عوامی منتخب لیڈر کو اپنے سیاسی موت کا خوف نہیں ہوگا تو وہ پھر من مانی کی ساری حدوں کو عبور کرلے گا ۔ وزیراعظم منموہن سنگھ سے لیکر اس ملک کے تمام سینئر دانشور و اخلاق حمیدہ کے حامل لیڈروں کو مل کر ٹھوس قدم اٹھاتے ہوئے پارلیمنٹ میں ایک سخت قانون پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ منتخب ارکان پارلیمنٹ ، ارکان اسمبلی کو اس وقت از خود نااہل قرار دیا جائے جب وہ ایوان کی کارروائی کو روکنے تشدد پر اتر آئے ، گربڑ کرے اور 15منٹ سے زائد احتجاج کرے ۔ جو سختیاں اس ملک کی پولیس کا ایک ادنی کانسٹیبل معصوم انسانوں پر کرتا ہے اس میں سے معمولی سختی بھی اگر پارلیمنٹ کے اندر لائی جائے تو امن و سکون کے ساتھ کارروائی ہوگی ۔ پولیس محکمہ کا ادنیٰ کانسٹیبل اپنے مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے معصوم انسانوں کو خوفزدہ کرکے رکھ دیتاہے ۔ سڑک پر چلنے والے موٹر رانوں ، موٹر سیکل سواروں کو چالان کی من مانی رسیدیں پھاڑ کر بے بس بنا کر جیب ہلکی کردیتاہے تو اس طرح کے ظلم کا شکار عوام کی خاموشی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا ۔ جب پارلیمنٹ اسمبلی میں ان کی نمائندگی آنے والوں کو قانون کا پابند بنایاجائے جب سیاستداں قانون کا پابند ہوگا تو ساری سرکاری مشنری بھی صحیح راستے پر چلے گی اور سرکاری محکموں میں کام ایمانداری سے ہوگا تو شہریوں کو بھی قانون ،اصول اور ضوابط پر عمل کرتے کی ترغیب ملے گی ۔ ٹریفک کی خلاف ورزی کی عادت ترک کرنے کے لئے یہ مجبور ہوں گے کیوں کہ ان پر سخت قانون ہے اور رشوت کے ذریعہ اب کوئی کام نہیں نکالا جاسکے گا ۔ اگر رشوت کا خاتمہ ہوجائے تو 99 فیصد عوامی زندگی میں انقلابی تبدیلیا ںآئیں گی ۔ بیرون ملکوں میں خاص مغرب اور امریکہ میں عوامی زندگی کو پاک و صاف بنانے ٹریفک قواعد پر سختی سے عمل کرنے کے لئے قوانین کو سختی سے روبہ عمل لایاجاتا ہے ۔ سیاستدانوں سے لے کر سرکاری محکموں کے عام کرمچاری تک قوانین کی پابندی کرتے ہیں ۔ سڑک پر معمولی کاغذ کا ٹکڑا بھی پھینکنے کی وہ جرات نہیں کرسکتے ورنہ وہ بھاری جرمانے کی زد میں آجاتے ہیں ۔ امریکہ میں سڑک پر تھوکنے کا جرمانہ 1000 ڈالر ہے ۔ اس سے ہٹ کر کئی خلاف ورزیوں کے کئی مختلف جرمانے اور سزائیں ہیں اس لئے ہر کوئی قانون و قواعد پر سختی سے عمل کرتا ہے تب ہی وہاں کی عام اور عوامی زندگی کو سکون سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ ہمارے ملک میں دن رات کی قانونی خلاف ورزیاں ہوتی رہتی ہیں اگر یہاں کا غاٹے قسم کا شہری امریکہ پہنچ کر ویسی ہی حرکتیں کرے گا تو اسے دن میں تارے دکھائے جائیں گے ۔ اس لئے ایسے شہریوں کے لئے امریکہ ایک کھلی جیل لگتی ہے اور یہ لوگ اپنے ملک میں ملنے والی مکمل آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر تمام دیگر انسانوں کو تکلیف کا باعث بنتے ہیں ۔ شہریوں کو اپنے گھر ، محلہ ، علاقہ ، شہر میں کس طرح رہنا ہے یہ ان کی عادت اور ان کے منتخب کردہ لیڈروں کی نیت پر منحصر ہے ۔ ہمارے شہر یا ملک کے کسی بھی شہر میں ان دنوں گٹیڈ کمیونٹی کا رجحان زور پکڑرہا ہے ۔ آپ میں سے کوئی شہری جو عام بستیوں میں رہتا ہے وہ گیٹڈ کمیونٹی علاقہ کا دورہ کرے تو اسے محسوس ہوگا ۔ رکھ رکھاؤ اور طرز زندگی میں کتنا فرق ہے یہاں رہنے والے بھی وہی انسان ہیں جو کل تک ان کے ساتھ اس بستی اورمحلے میں رہتے تھے لیکن ان کے شعور اور مزاج کے انھیں صاف ستھرا ، پاکیزہ ماحول پیدا کرنے کی ترغیب دی اور وہ اپنے ہمسایوں ، پڑوسیوں ، چار دیواری والی اس نئی بستی کے مکینوں کو کوئی تکلیف دیئے بغیر پرسکون زندگی گذارتے ہیں ۔ ایسا ماحول سارے شہر میں ہوسکتا ہے ۔ شہر کو ایک گیٹڈ کمیونٹی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اس کے لئے قانون ، سرکاری عوام اور قائدین کے مزاج میں مثبت تبدیلی ضروری ہے اس ملک ، ریاست ، شہر ، بستی ، محلہ میں عوام کا ایک دوسرے کی تکالیف کا خیال رکھنے والے معدودے چند ہیں ۔
kbaig92@gmail.com