محمد نعیم وجاہت
عام انتخابات کا بگل بجنے کے لئے گنے چنے دن رہ گئے ہیں۔ کانگریس نے ایک بار پھر سیاسی بساط پر اپنی چال چلتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کو بہت بڑی آزمائش میں مبتلا کردیا ہے۔ مرکزی کابینہ نے 32 ترمیمات کے ساتھ 294 صفحات پر مشتمل تلنگانہ بل 12 فروری کو راجیہ سبھا میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تلنگانہ مسودہ بل اسمبلی سے دہلی پہنچتے ہی قومی دارالحکومت میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں۔ کانگریس نے ایک تیر سے دو شکار (یعنی چت بھی اپنی، پٹ بھی اپنی) کی پالیسی پر عمل کیا ہے اور 15 ویں لوک سبھا کی میعاد ختم ہونے سے صرف 15 دن قبل تلنگانہ بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ملک کی 29 ویں ریاست کی تشکیل کے لئے کانگریس پارٹی تیار ہے یا نہیں؟ یہ الگ بحث ہے، لیکن اس فیصلہ سے کانگریس نے آم اور گٹھلی دونوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اگر یہ بل پارلیمنٹ میں منظور ہوگیا تو علاقہ تلنگانہ میں کانگریس کا بول بالا ہوگا اور پورے ملک میں ایک قدیم مسئلہ کو حل کرنے اور وعدہ پورا کرنے کا تاثر دیا جائے گا اور اگر اتفاق سے بل کی منظوری میں ناکامی ہوئی تو بی جے پی، تلگودیشم، وائی ایس آر کانگریس کے علاوہ تلنگانہ کی تائید کا وعدہ کرکے منحرف ہونے والی سیاسی جماعتوں کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر تلنگانہ عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور سیما۔ آندھرا کے کانگریس قائدین کو ریاست کی تقسیم روکنے میں کامیابی حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا، تاکہ وہ عوام کے درمیان اپنی کامیابی کا ادعا کرسکیں اور عوام کو یہ تیقن دے سکیں کہ اگر انھیں دوبارہ کامیاب بنایا گیا تو وہ ریاست کو کبھی تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ علاوہ ازیں کانگریس کی اس منصوبہ بندی کو کامیاب اور ناکام بنانے میں بی جے پی کے رول کا آئندہ دس دنوں میں اندازہ ہو جائے گا۔
تلنگانہ تحریک کی 60 سالہ تاریخ ہے، جس کے لئے ہزاروں نوجوانوں اور طلبہ نے اپنی زندگیاں قربان کی ہیں۔ سی پی ایم کے سوا تمام جماعتوں نے تلنگانہ کی تائید کی اور اپنے انتخابی منشور میں اس کو شامل کیا۔ 2004 اور 2009ء کے عام انتخابات میں تلنگانہ مسئلہ سرفہرست رہا، جب کہ ہر جماعت نے تلنگانہ سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا تھا۔ بی جے پی نے راجیہ سبھا اور اسمبلی میں تلنگانہ مسئلہ پر خانگی بل بھی پیش کیا تھا۔ کانگریس کی جانب سے پارلیمنٹ میں بل پیش کرنے پر مکمل تائید کا ایک سے زائد مرتبہ سشما سوراج اور دیگر قائدین نے اعلان کرتے ہوئے کانگریس پر اپنا موقف ظاہر نہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ اسی طرح 2009ء کے عام انتخابات میں ٹی آر ایس سے اتحاد کرنے والے صدر تلگودیشم چندرا بابو نائیڈو نے اقتدار حاصل ہونے پر اسمبلی میں تلنگانہ قرارداد منظور کرنے کا اعلان کیا تھا، جب کہ وائی ایس آر کانگریس کے صدر جگن موہن ریڈی نے پارٹی کے پہلے پلینری اجلاس میں تلنگانہ ریاست کی تشکیل پر اعتراض نہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے دستور ہند کے آرٹیکل 3 کے تحت ریاست کی تقسیم کا مرکزی حکومت کو مشورہ دیا تھا۔
آندھرا پردیش کی سیاسی جماعتوں کے کل جماعتی اجلاس میں مشاورت کے بعد مرکزی حکومت نے 30 جولائی 2013ء کو اور بعد ازاں کانگریس کی فیصلہ ساز باڈی سی ڈبلیو سی نے علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد سے تلگودیشم اور وائی ایس آر کانگریس نے مختلف بہانوں کی آڑ میں تلنگانہ کی مخالفت شروع کردی۔ اسی طرح کانگریس ہائی کمان کا ہر فیصلہ قبول کرنے اور اس پر عمل آوری کا وعدہ کرنے والے چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے بھی کانگریس ہائی کمان کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور اسمبلی میں تلنگانہ بل کو مسترد کرنے کے علاوہ دہلی پہنچ کر ریاست کی تقسیم کے خلاف احتجاج کیا۔
سربراہ تلگودیشم این چندرا بابو نائیڈو اور صدر وائی ایس آر کانگریس جگن موہن ریڈی نے بی جے پی کے بشمول ملک کی تمام قومی اور علاقائی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کرتے ہوئے علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل روکنے کی نمائندگی کی۔ تاہم چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کا مخالف تلنگانہ موقف دیکھ کر، بی جے پی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور عین انتخابات سے قبل پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے تلنگانہ بل کی کامیابی کا سہرا کانگریس کے حق میں نہیں جانے دینا چاہتی، لیکن وہ کھل کر اس کی مخالفت بھی نہیں کرسکتی، کیونکہ مستقبل میں تلگودیشم سے اتحاد اس کی ترجیحات میں شامل ہے، لہذا وہ مختلف بہانے تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ علاوہ ازیں سیما۔ آندھرا کے ساتھ انصاف کرنے کی صورت میں تلنگانہ کی تائید کرنے ورنہ تائید نہ کرنے مرکزی حکومت کو انتباہ دے رہی ہے۔ واضح رہے کہ بی جے پی کی تائید کے بغیر تلنگانہ بل کا منظور ہونا آسان نہیں ہے، اسی لئے کانگریس پارٹی بی جے پی سے مشاورت کو ترجیح دے رہی ہے۔ مرکزی وزیر جے رام رمیش، ڈگ وجے سنگھ اور سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل نے بی جے پی کے قومی صدر راجناتھ سنگھ، بی جے پی کی پارلیمانی قائد سشما سوراج اور سیما۔ آندھرا سے تعلق رکھنے والے بی جے پی قائد وینکیا نائیڈو سے ملاقات اور تجاویز حاصل کرتے ہوئے کانگریس کور کمیٹی اور کابینہ کے اجلاس میں اس کا جائزہ لے کر ان قائدین کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔تلنگانہ مسئلہ پر سیما۔ آندھرا سے تعلق رکھنے والے مرکزی وزراء اور کانگریس ارکان پارلیمنٹ کے درمیان پھوٹ پڑ گئی ہے، تاہم مرکزی وزراء حیدرآباد کو دس سال تک مرکز کا زیر انتظام علاقہ قرار دینے، بھدرا چلم ڈیویژن کو سیما۔ آندھرا کا حصہ بنانے، آمدنی کو آبادی کے تناسب سے تقسیم کرنے، 20 سال تک نئی ریاست سیما۔ آندھرا کو ٹیکسس سے مستثنیٰ رکھنے، آئندہ دس برسوں تک حیدرآباد میں سیما۔ آندھرا والوں کو تعلیم اور ملازمت میں مساوی مواقع فراہم کرنے، مرکزی حکومت کی جانب سے سیما۔ آندھرا میں نئی راجدھانی کے قیام کے لئے بھاری فنڈس فراہم کرنے اور علاقہ ساحلی آندھرا و رائلسیما کے لئے علحدہ علحدہ پیکیجس دینے کی صورت میں ریاست کی تقسیم قبول کرنے، ورنہ پارلیمنٹ میں تلنگانہ بل کے خلاف ووٹ دینے کے علاوہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی نہ چلنے دینے کا انتباہ دے رہے ہیں، جب کہ سیما۔ آندھرا کے کانگریس ارکان پارلیمنٹ یو پی اے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی نوٹس پیش کرنا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں سیما۔ آندھرا کے کانگریس قائدین چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کی قیادت میں کانگریس ہائی کمان سے بغاوت کر رہے ہیں۔
مرکزی کابینہ نے حیدرآباد کو مرکز کا زیر انتظام علاقہ بنانے کے مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے دس سال تک حیدرآباد کو دونوں ریاستوں کا دارالحکومت بنانے اور نظم و ضبط کے اختیارات گورنر کو تفویض کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں سرکاری طورپر 32 ترمیمات کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ہائی کمان کی جانب سے ان کے مطالبات قبول نہ کرنے پر سیما۔ آندھرا کے کانگریس قائدین ناراض ہیں، تاہم فی الوقت ہائی کمان چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کے خلاف سخت کارروائی کا جائزہ لے رہی ہے اور چیف منسٹر اس کارروائی سے قبل مستعفی ہونے پر غور کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ریاست کی تقسیم کے خلاف پیش کردہ 9 درخواستوں کو مسترد کردیا ہے، جس کے بعد مرکزی حکومت اور کانگریس ہائی کمان نے اطمینان کی سانس لی۔
راجیہ سبھا انتخابات میں پہلی مرتبہ ٹی آر ایس امیدوار ڈاکٹر کے کیشو راؤ تلنگانہ کے نمائندہ کے طورپر منتخب ہوئے ہیں۔ آندھرا پردیش کے عوام ذہنی طورپر تقسیم ہو گئے ہیں، صرف سرحدوں کی تقسیم باقی ہے۔ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے تمام جماعتوں کے ارکان اسمبلی نے تلنگانہ کی تائید کی ہے، جب کہ سیما۔ آندھرا کے ارکان اسمبلی نے جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر ریاست کی تقسیم کی مخالفت کی ہے۔ راجیہ سبھا انتخابات میں تلنگانہ کے کانگریس ارکان اسمبلی نے صرف ایم اے خان کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا، جس پر وہ لمحۂ آخر تک کاربند رہے۔ اسی دوران دہلی میں چیف منسٹر کی موجودگی میں کانگریس قائدین و کارکنوں کے درمیان ہاتھا پائی ہو گئی، جس میں تین خاتون وزراء معمولی زخمی بھی ہوئیں۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد تلنگانہ اور سیما۔ آندھرا کے عوام کا متحد رہنا اب ممکن نہیں ہے، مگر سیاسی جماعتیں عوامی جذبات کو سمجھنے کی بجائے سیاسی مفادات کو زیادہ اہمیت دے رہی ہیں۔