عوام اب اس حکمراں سے کیا مانگیں گے

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راؤ نے دکھا دیا کہ وہ محدود صلاحیتوں کے مالک نہیں ہیں ۔ حکومت چلانے اور اپنے رائے دہندوں کو پارٹی کے حق میں فیصلہ کرنے کے جذبہ کو مستحکم کرنے کی بہتر حکمت عملی رکھتے ہیں ۔ وہ دلیر شخص ہیں اس لیے وقت سے قبل اسمبلی تحلیل کروادیا اور نگرانکار چیف منسٹر کی حیثیت سے انتخابات کا مقابلہ کریں گے ۔ اصل صلاحیت اور ان کے دلیر پن کا ثبوت تو انتخابی نتائج کے بعد ہی ملے گا ۔ انہوں نے انتخابات کے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالدیا ہے ۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ انہیں نہ صرف مرکز کی سرپرستی حاصل ہے بلکہ وہ کھرب پتی افراد اور طاقتور لابی کے نور نظر بن گئے ہیں ۔ اگر سیاسی پنڈتوں کے تجزیہ پر یقین کیا جائے تو اسمبلی کو تحلیل کرنے کی غلطی کرنے والے حکمرانوں کو شکست کا ہی منہ دیکھنا پڑا ہے ۔ ٹی آر ایس کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ ریاست کی موجودہ صورتحال کا ایک پہلو یہ ہے کہ کانگریس پارٹی نے پہلے سے زیادہ خود کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے ۔ اب وہ بہتر مظاہرہ کرنے کی پیشرفت کرتی ہے تو اسمبلی میں یا تو کانگریس کا غلبہ ہوگا یا پھر معلق اسمبلی وجود میں آئے گی ۔ تاہم ٹی آر ایس کو اپنی کارکردگی اور عدم کارکردگی کے امتحان سے گذرتے ہوئے رائے دہندوں کی آراء حاصل کرنی ہے ۔ اگر ٹی آر ایس قائدین کے بشمول سیاستدانوں نے سیاست کو ایک کھیل سمجھا ہے تو آزاد ہند میں یہی سیاست نے ان کی زندگیاں سنواری بھی ہیں اور برباد بھی کردی ہیں ۔ عوام کی صداؤں کو سیاسی الفاظ مل نہیں پائے نہ قسمت بدلی اور نہ ہی راحت کی برسات ہوئی ۔ خاص کر تلنگانہ حاصل کر کے بھی عوام کے لیے نئی صبح نہیں ہوئی ۔ یہ راہ سیاست ایسی ہے جہاں کوئی آئے گا تو کوئی جائے گا ۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو دوبارہ اقتدار پر لانے کی کوشش کرنے والی اس کی قیادت کو یہ امید ہے کہ عوام اسے دوبارہ اقتدار حوالے کریں گے اور اپوزیشن کانگریس کو یہ یقین ہے کہ اس مرتبہ حکومت وہ ہی بنائے گی ۔ وہ اب پہلے سے زیادہ بن سنور کر میدان انتخابات میں اترنے والی ہے اس کا عوام کے تئیں والہانہ مزاج ظاہر کرتا ہے کہ اس نے ماضی کے دھکوں سے سبق حاصل کیا ہے ۔ خاص کر مسلمانوں سے کی گئی نانصافیوں کا اسے احساس ہوچکا ہے جو کام 70 سال میں نہیں کیا اب کانگریس آنے والے چند مہینوں میں کرنے کا وعدہ کررہی ہے ۔ جب سے ٹی آر ایس نے اپنا کثیر جلسہ عام منعقد کیا ہے ۔ کانگریس کو ہوش آنے لگا ہے کہ اس کو اب صرف وعدوں کے بجائے کام کرنا ہوگا ۔ ٹی آر ایس نے جو کام گذشتہ چار سال میں نہیں کئے ہیں اب کانگریس اسے کر کے دکھانا چاہتی ہے ۔ ٹی آر ایس کے شور اور اس کے چڑھتے سورج کی روشنی میں کانگریس کو اپنا قد چھوٹا نظر آنے لگا ہے ۔ اس لیے کانگریس کے پردیش کمیٹی کے صدر نے وعدے اور دعوے کرنے شروع کئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کانگریس برسر اقتدار آئے تو اقلیتوں کے لیے سب پلان تیار کرے گی ۔ عبادت گاہوں کو موت برقی سربراہ کی جائے گی ۔ غریبوں کے لیے سالانہ 6 پکوان گیاس سیلنڈرس کی مفت سربراہی ، ایس سی ، ایس ٹی کے لیے 200 یونٹ برقی مفت ، صحافیوں اور غریبوں کو 5 لاکھ روپئے تک مفت علاج ، حیدرآباد کے لیے علحدہ منشور جاری کرنے کا منصوبہ بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ کانگریس قائدین بھی سمجھ گئے ہیں کہ جب تک عوام کو ہتھیلی میں جنت نہ دکھائی جائے ان کا کچھ بھلا نہیں ہوگا ۔ ٹی آر ایس نے یا مرکز میں مودی نے عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھا کر اقتدار حاصل کیا تھا ۔ اقتدار کے بعد ان دونوں ریاستی اور مرکزی حکومتوں نے اپنی آنکھوں میں اقتدار کی حریص کو روشن رکھا اور عوام کے لیے بڑی دور تک رات ہی رات اور اس رات کی تاریکی دیدی ۔

اس سچائی کے باوجود عوام ٹی آر ایس کو دوبارہ آزمانا چاہتے ہیں تو ان کے اندر اچھے اور برے کو پرکھنے کی عادت نہیں ہے ۔ دھوکے کی دیوار پر لگے آئینہ میں سیاستداں کا چہرہ دیر تک نہیں رہے گا ۔ چیف منسٹر کے چندر شکھر راؤ نے شائد آئینہ میں اپنے چہرہ کو دیکھ لیا ہے ۔ اس لیے انہیں یقین ہوگیا ہے کہ وہ آئندہ پانچ سال کے لیے دوبارہ منتخب ہوں گے ۔ چیف منسٹر نے اپنے جلسہ عام کے ذریعہ عوام کے سامنے واضح پیام رکھا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کا مقصد ریاست کے عوام کے لیے بہتر زندگی فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن اپوزیشن کانگریس نے ٹی آر ایس کی عوامی بہبود کی اسکیمات کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی ہے ۔ تلنگانہ حکومت کی مختلف اسکیمات اور پروگرامس ریاست کے ہر ایک طبقہ کے لیے فائدہ مند ہورہے ہیں ۔ اگر ریاست میں کانگریس کو اقتدار پر لایا گیا تو پھر اس کے اندر اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ ٹی ار ایس کے مقابل ان اسکیمات پر عمل کر کے دکھائے ۔ اس تعلق سے انہوں نے ایک مثال دی کہ ان کی حکومت نے زونل سسٹم منظور کروا کر دکھایا ہے ۔ زونس بنائے جانے سے مقامی افراد کو 95 فیصد روزگار کے مواقع ملیں گے ۔ اگر ٹی آر ایس اقتدار پر نہیں رہے گی تو پھر روزگار کے یہ مواقع حاصل ہونا ممکن نہیں ہوگا ۔ انہوں نے علاقائی پارٹیوں کی اہمیت اور قومی پارٹیوں کی خرابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ٹاملناڈو کی مثال دی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ریاست کی ترقی میں ان علاقائی پارٹیوں کا اہم رول ہوتا ہے ۔ قومی پارٹیاں ریاستوں کی ترقی کے کام نہیں آتی ہیں ۔ یہ نام نہاد قومی پارٹیاں ریاستوں کا مالیہ ہڑپ کرلیتی ہیں اور ریاستی عوام کے حق میں فلاحی کام انجام نہیں دیتی ۔ جہاں کہیں علاقائی پارٹیوں کی حکمرانی ہوتی ہے وہاں عوام کے لیے ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں اور یہ پارٹیاں ریاستی عوام کے عزت نفس کا احترام کرتی ہیں ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ علاقائی سطح پر طاقتور سیاسی پارٹیوں کو ہی ریاستی عوام کا اصل ہمدرد ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے تو کانگریس اور بی جے پی جیسی قومی پارٹیوں کو ریاستی سطح پر قدم جمانے کا موقع نہیں ملے گا ۔ چیف منسٹر نے اس جلسہ عام میں ایک گھنٹہ طویل تقریر کر کے سنہرے تلنگانہ کی جانب پیشرفت کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ تلنگانہ میں علحدہ ریاست کی تحریک کے دور سے ہی روزگار کا مسئلہ چھایا رہا ہے ۔ سرکاری ملازمتوں میں مقامی نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے لیکن اس تلخ حقیقت کے باوجود نئی ریاست میں مقامی افراد کو سرکاری ملازمتیں حاصل نہیں ہوئی ۔ غیر انتظامی جائیدادوں پر بھی روزگار نہیں دیا گیا ۔ ریاستی حکومت اپنی سابق حکومتوں کی طرح آوٹ سورسنگ پالیسی پر ہی عمل کیا جب کہ تلنگانہ کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کی یہ دیرینہ خواہش تھی کہ انہیں نئی ریاست میں سرکاری ملازمتیں حاصل ہوں گی جب ان نوجوانوں کی توقعات پورے نہیں ہوں گے تو ٹی آر ایس کس منہ سے دوبارہ اقتدار کی خواہش کرتی ہے ۔ تلنگانہ کے نوجوانوں کی ہزارہا خواہش سو گئے حکومت کے کاغذی وعدوں کی قبروں میں ۔ ایسی حکومت کا کیا فائدہ جو خود کو خدائی سمجھے کہ اپنے سوا اسے کچھ دکھائی نہ دے ۔ چیف منسٹر کے جذبات و احساسات جب انتخابات کی آگ پر کاغذ کی مانند رکھے جائیں گے تو باقی کیا بچا رہ جائے گا ۔ یہ غور طلب امر ہے ۔۔
kbaig92@gmail.com