علی سردار جعفری کی افسانہ نگاری ایک اجمالی جائزہ

ڈاکٹر افسر فاروقی
سردار جعفری کی شناخت بحیثیت شاعر مسلم ہے، لیکن ان کی زنبیل میں شاعری کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے ، وہ ایک اچھے مضمون نگار ، ڈرامہ نگار ، افسانہ نویس ، مکتوب نگار ، مترجم اور صحافی تھے۔
سردار جعفری کی ہمہ جہت شخصیت ان کے افسانوں میں بھی نمایاں نظر آتی۔ ان کی پہلی ادبی تخلیق افسانوں کا مجموعہ ہے جو 1938 ء میں شائع ہوا جبکہ شعری مجموعہ 1946 ء میں ، یعنی ادبی دنیا سے پہلے افسانہ نگار سردار جعفری متعارف ہونے اور پھر شاعر سردار جعفری ۔ سردار جعفری کے افسانوں کا مجموعہ ، منزل ، کے نام سے حلقہ ادب لکھنو میں بسلسلہ انجمن ترقی پسند مصنفین 1938 ء میں شائع کیا۔
لیکن بقول جعفری ان کا پہلا افسانہ ’آتشیں قمیض‘ تھا۔ ’لالۂ‘ صحرائی ‘ ’ہجوم و تنہائی‘ وغیرہ بھی طالب علمی کے زمانے میں لکھے ہوئے افسانے ہیں جن کے شائع ہونے کی کوئی سند دستیاب نہیں ہے۔ سردار جعفری کاپہلا مطبوعہ افسانہ ’ تین پاؤ گندھا ہوا آٹا‘ ہے، جس کا ذکر ستارہ جعفری بھی کرتی ہیں ۔ ، یہ شاید ’ساقی‘ یا ’نیرنگ ‘ میں چھپا۔ اس وقت تک سردار جعفری کے افسانے چھپنے لگے تھے، مطبوعہ افسانوں میں ’لچھمی‘  مارچ 1937 ء میں چھپا۔
اس افسانے کو پڑھ کر یہ احساس ہوتاہے کہ جاگیردارانہ و زمیندارانہ ماحول کا پروردہ سردار جعفری انقلابی ہوگیا تھا ، ترقی پسند تحریک نے سردار جعفری پر گہرا اثر ڈالا۔ دراصل 1935 ء سے شروع ہونے والی یہ تحریک 1936 ء کے پریم چند کی صدارت میں ہونے والے جلسے کے بعد اس قدر مقبول ہوئی کہ اس زمانے کا تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ اپنے آپ کو انقلابی سمجھنے لگا۔ ترقی پسند تحریک کے اغراض و مقاصد نے نوجوانوں میں ایک نیا عزم ، ایک نیا جوش اور ایک نیا ولولہ پیدا کردیا۔

ادب چونکہ معاشرے کی پیداوار ہے، اس لئے اس تحریک کے واضح اثرات معاشرے اور ادب پر نظر آنے لگے۔ سردار جعفری انقلاب کے حامی تھے ، اس لئے ان کے ا فسانوں کی فضاء پر بھی بغاوت ، انقلاب اور سرمایہ دارانہ طبقے سے نفرت کا جذبہ موجود ہے۔
ان کے افسانے ’لچھمی‘ کا موضوع سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تحت پیدا ہونے والی برائیاں ہیں۔ افسانہ چونکہ طالب علمی کے زمانے کا ہے۔ جوش میں لکھا گیا ہے ، اس لئے موضوع کے اعتبار سے اہم ہونے کے باوجود اختتام تک پہنچتے پہنچتے وہ تاثر قائم نہیں رکھ پاتا جس کی توقع تھی ۔ افسانے کا موضوع ہے، ایک دیہاتی معصوم دوشیزہ کا سرمایہ داروں کے ہاتھوں استحصال، لچھمی نے لاکھ انکار کیا ، اپنے آپ کو کارخانے کے مالک سے بچانے کی بے حد کوشش کی لیکن حاصل ، سنیے
’’لیکن لچھمی نے سرمایہ کی مادی قوتوں کی پروا کئے بغیر اس شراب کا ایک قطرہ بھی ضائع کرنے سے انکار کردیا جو قدرت نے اس کے شباب کے پیمانے میں بھردی تھی‘‘۔ (افسانہ ’لچھمی‘ سردار جعفری)
لیکن اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ عورت اس ذلت سے خود کو بچالے، آگے لکھتے ہیں: ’’جب خواہشات کی شکست ہونے لگتی ہے تو گناہوں کی فتح ہوتی ہے اور جب مکاریوں کا اثر زائل ہونے لگتا ہے تو جبر کے سمندر سے تشدد کا خوفناک دیوتا ابروؤں پر بل ڈال کر باہر آتا ہے ۔ آخر ظلم کے ہاتھوں نے غریب لچھمی کو اسی حجلہ عشرت تک پہنچادیا، جہاں گناہوں کے فانوس میں ارتکاب جرم کی شمعیں جل رہی تھیں‘‘۔ (افسانہ ’لچھمی‘ سردار جعفری)

ان کے افسانوں کا مجموعہ ’منزل‘ 1938 ء میں شائع ہوا، افسانہ نگار کے نام کے آگے بی اے بھی لکھا ہے، یعنی سردار جعفری بی اے ہوچکے تھے، خیالات میں پختگی آگئی تھی ، اس کتاب کا انتساب ہے ’آنے والے انقلاب کے نام‘ جس کی وضاحت انہوں نے پیش لفظ میں اس طرح کی ہے۔
’’یہ افسانے ہندوستان کی اس تحریک کی پیداوار ہیں جس نے زندگی کا تصور بدل دیا۔ اس لئے ان میں تلخی کا احساس باعثِ  تعجب نہیں جو درمیانی طبقہ کی ’طبع نازک‘ پر گراں گزرے گی مگر اس کو کیا کیا جائے کہ ہمارا موجودہ نظام زندگی کچھ ایسا ہی ہے‘‘۔ (’منزل‘ پیش لفظ)
ترقی پسند تحریک کا نعرہ ’ادب برائے زندگی‘ ان کے افسانوں میں جابجا نظر آتا ہے۔ ان افسانوں کی تخلیق کا جواز انہوں نے پیش لفظ میں یوں پیش کیا ہے۔ ’’یہ میرے افسانوں کاپہلا مجموعہ ہے، ان میں آپ کو کہیں کہیں اس ذہنی انتشار کی جھلک ملے گی جو درمیانی طبقہ کا ورثہ ہے‘‘۔ (’منزل‘ پیش لفظ)
کتاب کا نام مجاز کی نظم ’اندھیری رات کا مسافر‘ کا مرہون منت ہے، وہ لکھتے ہیں :
’’کتاب کے نام کے متعلق مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ یہ اس لئے نہیں رکھا گیا کہ اس مجموعہ میں اس نام کا ا یک افسانہ بھی شامل ہے ، بلکہ اس لئے کہ ہم ایک انقلابی دور سے گزر رہے ہیں، جو موجودہ دنیا سے بہت مختلف ہے، ہمیں وہاں تک پہنچنا ہے‘‘۔ (’منزل‘ پیش لفظ)
گویا پیش لفظ کے ہر ایک لفظ سے سردار جعفری کا ان افسانوں کو لکھنے کا مقصد و منشاء واضح ہے۔

’پاپ‘ 1936ء میں لکھا گیا۔ موضوع غریب عورتوں کا امیروں کے ہاتھوں استحصال ہے۔ اندرا جو غریب برہمن کی بیٹی ہے، اسے ایک مسلمان لڑکا اپنے جال میں پھنسالیتا ہے اور آخر میں اپنے پاپ کو اس کے شوہر کے سر ڈالنے کی کوشش کرتاہے ، تو پتہ چلتا ہے کہ وہ لڑکی شادی شدہ نہیں ہے، اس کی بیٹی اس کے پاپ کے نشہ کی دین ہے ، اپنے اس افسانے میں سردار جعفری نے سماج کے اس گھناؤنے پہلو کی عکاسی کرتا ہے جس کے یہاں عورت کی کوئی حقیقت اور عزت نہیں ہے ، وہ صرف استعمال کی شئے ہے ۔
ان کا اگلا افسانہ ’بارہ آنے‘ 1937 ء میں لکھا گیا ۔ یہ افسانہ غریب طبقے کی حالت زار کا نقشہ پیش کرتا ہے جسے اپنی بھوک مٹانے اور جینے کیلئے ’بارہ آنے ‘ میں اپنی عصمت کا سودا کرنا پڑتا ہے۔
’مسجد کے زیر سایہ ‘ 1938 ء میں لکھا گیا ۔ اس کا موضوع بھوک ہے۔ 1938 ء میں لکھے اس مجموعے کا آخری افسانہ آدم زاد ہے ، ایک ایسی عورت کی کہانی جس کا شوہر محاذ جنگ جانے کے بعد لوٹا نہیں اور پورا گاؤں اس کے خلاف ہوگیا ، سماج کی گھناؤنی تصویر جہاں ہر شخص مال مفت پر ہاتھ صاف کرنا حق سمجھتا ہے اور شریف سفید پوش عورت کو گناہگار بنادیتے ہیں، اس گناہ کا کوئی شریک نہیں ، بزدل مردوں کی ایک کمزور عورت کو بد کردار بناکر بری الذمہ ہونے کی کہانی سردار جعفری کے یہ افسانے سماج کی ان سچائیوں پر مبنی ہیں جن سے سماج روبرو ہونا نہیں چاہتا، ایسے سماج کے سیاہ دھبے جو صرف اور صرف پوشیدہ رکھنے کے لئے ہوتے ہیں، ان کو روشنی میں لانے سے سماج ڈرتا ہے۔
ان افسانوں کا موضوع کمزور اور غریب طبقے کے وہ مسائل ہیں جو کبھی بھی ختم نہیں ہوئے  ہر دور ، ہر زمانے میں نئی نئی تحریکوں کے اُبھرنے کے باوجود یہ مسائل چولا بدل بدل کر آج بھی سماج میں موجود ہیں، دکھ درد، ظلم ، جبر عورتوں کا استحصال ، تشدد اور ایسی ہی بے شمار برائیاں ان افسانوں کا موضوع ہے ، سماج پر گہرا طنز ہے ، جسے یہ شریف سماج سننا بھی گوارہ نہیں کرتا۔ سردار جعفری ’منزل‘ کے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں۔
’’یہ چیزیں اگر آپ کو گوارہ نہیں تو منہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں اور اگر بار خاطر ہیں، تو پھر آپ اس نظام کو کیوں نہیں ختم کردیتے، جس میں یہ قابل نفرت چیزیں پل رہی ہیں‘‘۔
حالانکہ یہ افسانے سردار جعفری کے  طالب علمی کے زمانے کے تحریر کردہ ہیں لیکن یہاں انقلاب لانے کا سماج کو بدلنے کا جو جذبہ ترقی پسندوں کے یہاں تھا وہ نمایاں ہے، ان افسانوں میں وہ درد ، وہ کسک اور چبھن نظر آتی ہے ، جو ایک اچھے افسانہ نگار کی خصوصیت ہے۔

’منزل‘ 1938 ء کی اشاعت کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ نگار سردار جعفری کہیں کھو گیا، اس درمیان سردار جعفری کا کوئی افسانہ منظر عام پرنہیں آیا۔ پھر تقریباً دس سال کی طویل خاموشی کے بعد 1949 ء میں انہوں نے قحط بنگال سے متاثر ہوکر ایک معرکتہ الآراء افسانہ نیا ادب کے خاص نمبر کیلئے لکھا۔ یہ افسانہ تھا ’چہر و مانجھی۔ اس افسانہ کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی اور چہر و مانجھی کی بدولت سردار جعفری ایک مختصر عرصہ کیلئے کرشن چندر کی صف کے افسانہ نگار تسلیم کرلئے گئے۔ ان کا آخری افسانہ گلینا ہے، جو جنگ کے موضوع پر لکھا گیا ایک بے حد خوبصور افسانہ ہے۔
چہرو مانجھی کا موضوع ، ظلم و جبر کے خلاف ا یک کمزور عورت کا ا حتجاج ہے ، بلکہ Women empower کی کہانی ہے ۔ جب عورت کو کمزور سمجھنے کی غلطی سماج کرتا ہے تو یہی کمزور عورت جب انتقام پر آمادہ ہوتی ہے تو پھر وہ بغاوت کردیتی ہے ۔ چہرومانجھی بھی ایک ا یسی ہی عورت ہے ، سردار جعفری لکھتے ہیں:
’’آخری جملہ سن کر چہرو کو گھن آگئی ، اس کے ہونٹ تلخی سے اینٹھ گئے اور اس نے اپنی وحشی آنکھوں سے مجھے گھور کر دیکھا پر بولی … بھدر کی لوگ  ایک سے ہوتے ہیں اور سب غریبوں کی سیوا کرتے ہیں، چاچا میں تمہیں بھولی نہیں ہوں، اپنی ماں کی کوکھ کو بھی نہیں بھولی ہوں ، مجھے خوب یاد ہے کہ میں کون ہوں، تم مچھیرے ہو اور میں کسان کی لڑکی ہوں ، میں ہر بھدرک کو اس کیچڑ میں چلاتی ہوں‘‘ (افسانہ چہر و مانجھی)
یہ افسانہ ہے ایک کسان کی بیٹی چہر گل کے گھر سے نکل کر بازار تک پہنچنے کا ، یہ وہ لڑکی ہے جسے سب نے کمزور سمجھ کر اس کا اس استحصال کیا ، لیکن اب اس کی باری ہے ، وہ ان سفید پوشوں سے اس طرح انتقام لیتی ہے کہ انہیں جابجا بے عزت کرتی ہے۔
’’کوکس بازار میں ہر ایک کی زبان پر چہر و مانجھی کا نام تھا، چہر و بیس برس کی لڑکی تھی جس نے مزدوری کرتے کرتے مزدوروں کی سرداری حاصل کرلی تھی اور اب مانجھی کہلاتی تھی جو اپنے حسن کی وجہ سے فوجی افسروں کے منہ چڑھی ہوئی تھی جو کسی سفید پوش آدمی کو برداشت نہیں کرسکتی تھی جو ہرایک کی بے عزتی کردیتی تھی ، جو درجنوں شریف آدمیوں کو کیچڑ میں چلا چکی تھی‘‘۔
سردار جعفری کا  یہ کردار بیک وقت دو متضاد کیفیتوں کا حامل ہے ، وہ مردوں سے متنفر ہے لیکن اس کے دل کے کسی نرم گوشے میں گھر بسانے کی خواہش اب بھی زندہ ہے۔ سردار جعفری کے یہ چھوٹے چھوٹے اشارے اس بات کے غماز ہیں۔
’’محبت کرنے کیلئے ہمت کی ضرورت ہے ، مجھے بزدل آدمیوں سے نفرت ہے‘‘۔ یاپھر ’’میں مچھلی نہیں ہوں، میں عورت ہوں ، چہرو ہوں ، گل چہر میرا نام ہے ، مجھے کوئی مچھلی کی طرح نہیں پکڑسکتا‘‘۔
سردار جعفری کا یہ کردار اچھوتا ہے ، حالانکہ بے شمار عورتیں اس درد و کرب سے گزرتی رہتی ہیں لیکن جس درد و کرب کا اظہار یہ کردار کرتا ہے وہ بے حد متاثر کن ہے۔

جب چہر و بھوک کی شدت سے نڈھال گیارہ دن کے فاقوں کے بعد زمیندار کے پاس کھانا مانگنے جاتی ہے تو وہ اس سے بدلے میں اس کی جوانی طلب کرتا ہے ، گیارہ دن کی بھوک لیکن پھر بھی اسے یہ سودا نامنظور ہوتا ہے ۔ وہ بھاگ آئی ، دو دن کے بعد یعنی تیرہ دنوں کے فاقوں کے بعد جب بھوک برداشت سے باہر ہوگئی وہ پھر زمیندار کی دہلیز پر تھی ، لیکن ہوا کیا سنیے:
’’زمیندار نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا، اس کا بیٹا جو مجھے گھسیٹ کر باہر لایا تھا ، سیر بھر چاول میں میرا جسم خرید لے گیا ۔ تب سے میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے پاس میرا جسم نہیں ہے ، میری جوانی نہیں ہے ، میری خوبصورتی نہیں ہے ، یہ سب تو سیر بھر چاول میں بک چکا ہے ‘‘۔ (افسانہ ’’چہر و مانجھی‘‘)
سردار جعفری نے چہر و مانجھی کے ذریعہ اس زمانے کے قحط زدہ بنگال کی بڑی واضح اور سچی تصویر پیش کی ہے، اس زمانے میں زیادہ تر غریبوں نے نہ صرف اپنی عصمت بلکہ اپنے بچوں تک کے سودے اس چاول کے عوض کئے تھے ۔ مثالیں اور بھی ہیں ، کردار اور بھی ہیں لیکن طوالت کا خوف بھی غالب ہے ، بس اتنا ہی کہ سردار جعفری کا اپنا مخصوص لب و لہجہ ایک منفرد انداز ہے ، جو ان افسانوں میں بکھرا پڑا ہے ۔ ان کے طرز تحریر میں کہیں بھی لفاظی یا تکرار نہیں ، یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ محض 10 ، 11 افسانوں کو سامنے رکھ کر کیا ، کسی کو افسانہ نگار کہہ دینا درست ہے ؟ ہوسکتا ہے کہ نہ ہو ، لیکن افسانہ نگار کے قد و قامت کا اندازہ اس کے افسانوں کی تعداد سے نہیں بلکہ افسانوں کی ادبی قدر و محبت سے لگایا جاسکتا ہے۔
سردار جعفری کو افسانہ نگاروں کی صف میں جگہ دینے کیلئے ان کا ایک افسانہ چہرو مانجھی ہی کافی ہے ۔ ان کے افسانے فنی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں، ان کی تحریر میں سادگی اور زبان کا خوبصورت استعمال موجود ہے ۔ سردار جعفری کی فنی چابکدستی نے ان کے افسانوں کو یادگار بنایا اور سردار جعفری کو افسانہ نگار۔