عقیل احمد
پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو ان کے اغوا کے تین سال بعد افغانستان میں امریکی و افغان فوج نے اغوا کنندگان کے چنگل سے آزاد کرایا اب وہ اپنے ماں باپ بھائی بہنوں اور بیوی بچے کے ساتھ خوشحال زندگی گذار رہے ہیں۔ رہائی کے باوجود علی حیدر گیلانی پر ہنوز اپنے اغوا کنندگان کی ہیبت طاری ہے۔ واضح رہے کہ علی حیدر گیلانی کو پاکستان کے پارلیمانی انتخابات کے دوران ان کے آبائی مقام ملتان سے القاعدہ کے جنگجوؤں نے اغوا کرکے افغانستان پہنچادیا تھا۔ وہ اپنے اغوا کے وقت پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے انتخابی مہم چلارہے تھے۔ حال ہی میں بی بی سی کی صائمہ خلیل نے ان کا انٹرویو لیا جن سے علی حیدر گیلانی کے اغواء، پاکستان اور افغانستان کے مختلف مقامات پر انہیں محروس رکھنے کے دوران پیش آنے والی مشکلات، پاکستانی پولیس کی نااہلی اور امریکی و افغان فورس کی صلاحیتوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ علی حیدر گیلانی نے پہلی مرتبہ اپنے اغوا اور محروسی کے دوران کے دردناک لمحات کو شیئر کیا ہے، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح انہیں ڈرامائی طور پر اغواء کیا گیا اور کیسے ڈرامائی انداز میں ان کی رہائی عمل میں آئی۔ رہائی کے وقت ایک ایسا لمحہ آیا جب ان کی جان جاتے جاتے بچ گئی۔ بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ لاہور میں واقع گیلانی خاندان کا بنگلہ قلعہ میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں بلند دھاتی گیٹس چوکس مسلح گارڈس اور بلٹ پروف گاڑیاں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ اس خاندان کے ارکان کو القاعدہ، طالبان اور ان کی قبیل کی دوسری تنظیموں سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اس خاندان کے ارکان کو اب بھی یقین نہیں آرہا ہے کہ علی حیدر گیلانی اغوا کنندگان کی چنگل سے آزاد ہوچکے ہیں۔ علی حیدر گیلانی نے انٹرویو میں بتایا کہ اغوا کنندگان نے نہ صرف بھاری تاوان کا مطالبہ کیا بلکہ القاعدہ کے سرفہرست قیدیوں کی رہائی کی بھی مانگ کی تھی۔ ساتھ ہی ان کے اغوجا کنندگان نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے والد یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں القاعدہ کو نشانہ بنایا گیا تھا اس لئے آپ ہمارے دشمن ہیں اس دشمنی کے نتیجہ میں آپ کا اغوا کیا جارہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ جس وقت القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کو مارا گیا تھا اس وقت ان کے والد یوسف رضا گیلانی عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز تھے انہوں نے جنوبی وزیرستان میں راست کارروائی کا بھی آغاز کیا تھا۔ اغوا کنندگان نے انہیں یہ بھی بتایا کہ وہ دراصل ان کے والد سے انتقام لینے کے خواہاں ہیں اور اسی لئے ان کا اغوا کیا گیا۔
علی حیدر گیلانی کے مطابق اغوا کے بعد سب سے پہلے انہیں صنعتی ٹاؤن فیصل آباد لے جایا گیا اور پھر وہاں سے ان کی صوبہ خیبرپختونخواہ کے قبائلی علاقہ شمالی وزیرستان میں منتقلی عمل میں آئی۔ انہوں نے تین برسوں سے القاعدہ کی قید میں رہنے کے دوران پیش آئی مشکلات پر بھی اپنے انٹرویو میں تفصیلی روشنی ڈالی اور بتایا کہ دوبرسوں تک انہیں زنجیروں میں جکڑکر رکھا گیا تھا۔ اپنی ایام قید کی داستان وہ اس طرح بیان کرتے ہیں ’’مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھا گیا زائد از ایک سال دو ماہ تک آسمان کو دیکھنے سے محروم رہا۔ اس وقت میں بھول چکا تھا کہ سورج کی روشی جلد پر بڑنے سے کیسا محسوس ہوتا ہے۔ میرے پاس ایک ڈائری تھی جس میں وقت بہ وقت کی یادیں تحریر کیا کرتا تھا اور ذہن میں جو کچھ بھی آتا اسے الفاظ کی شکل دے کر ڈائری میں تحریر کردیتا لکھنے پڑھنے کے باعث ہی میں اپنے ہوش و حواس کو برقرار رکھ سکا ورنہ یرغمالی بنے رہنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آدمی پاگل ہو جاتا ہے۔ القاعدہ کی قید میں میں بہت زیادہ عبادت کرتا بارگاہ رب العزت میں دعائیں مانگتا اس دوران مجھے اپنے بیٹے کا خیال آتا اور میں اپنے آپ سے مخاطب ہوکر یہی کہتا کہ مجھے اپنے بیٹے کے لئے زندہ رہنا ہے‘‘۔ علی حیدر کو جس وقت اغوا کیا گیا تھا اس وقت ان کا بیٹا محمد جمال الدین شیرخوار تھا۔ علی حیدرگیلانی کو القاعدہ کے چنگل میں رہنے کے دوران سب سے زیادہ تکلیف اس امر پر ہوئی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کی شرارتوں، اس کی قلقاریوں، کھیلوں اور باتوں سے محروم رہے۔ یہاں تک کہ وہ یہ نہیں دیکھ سکے کہ ان کا بیٹا جب پہلی مرتبہ اسکول جارہا تھا اس وقت وہ کیسا لگ رہا تھا اس کے کیا جذبات و احساسات تھے۔ گھر میں اس کی سالگرہ کیسے منائی جاتی رہی، غرض وہ اپنے فرزند کی زندگی کے اہم ترین لمحات دیکھنے سے قاصر رہے۔
اگرچہ القاعدہ کے عسکریت پسندوں نے علی حیدر گیلانی کو جسمانی اذیتیں نہیں دیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں نے نفسیاتی طور پر انہیں توڑنا چاہا۔ ذہنی اذیتوں میں مبتلا کیا۔ ایک سوال پر علی حیدر نے بتایا ’’وہ لوگ مجھ سے کہتے تم ایک مسلمان نہیں ہو تمہارا باپ بھی مسلمان نہیں تم لوگ جہنم میں جاؤ گے‘‘ تمہاری مدد کے لئے تمہارے ارکان خاندان کچھ نہیں کررہے ہیں‘‘ ۔ علی حیدر گیلانی کے مطابق ہر روز انہیں اپنی زندگی کو خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ حیدرگیلانی نے بتایا کہ جولائی 2014 کے بعد پاکستانی فوج نے طالبان اور القاعدہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں شدت پیدا کردی تھی۔ اس وقت میں دراصل ایک جنگی علاقہ میں تھا وہاں ڈرونس، دبابوں مارٹروں اور طیاروں کے ذریعہ حملے کئے جارہے تھے۔ ڈرونس کی آواز دل و دماغ کو دہلا دینے والی ہوا کرتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ایک دیوہیکل مکھی آپ کے اطراف بھنبھنارہی ہوں، صرف ایک ڈرون ہی اڑان بھرتا دکھائی نہیں دیتا تھا بلکہ ایک ایک دن میں تین چار یا 5 ڈرونس بھی اڑان بھرتے دکھائی دیتے تھے۔ جنوری 2016ء میں کیا گیا ڈرون حملہ ہی تھا جس کے باعث القاعدہ علی حیدرگیلانی کو طالبان کے حوالے کرنے پرمجبور ہوئے۔ اس بارے میں وہ یوں بتاتے ہیں ’’ان لوگوں نے مجھے علاقہ شوال میں پاکستانی طالبان کے حوالے کردیا، یہ علاقہ شمالی وزیرستان میں ہے تاکہ مجھے محفوظ رکھا جاسکے، لیکن جیسے ہی پاکستانی فوج علاقہ میں داخل ہوئی اور طالبان عسکریت پسند افغانستان کے صوبہ پکتیکہ فرار ہوئے اپنے ساتھ مجھے بھی لے گئے۔ اس سفر کے دوران مجھ پر کڑی نظر رکھی گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ طالبان کو میرے فرار ہونے کا خدشہ تھا۔ پاکستانی طالبان کے حوالے کئے جانے کے بعد سے میری حالت میں بہتری آئی۔ مجھے زنجیروں سے آزاد کردیا گیا۔ چلنے پھرنے اور سورج کو دیکھنے کی اجازت دی گئی ۔ انٹرویو میں جونیر گیلانی نے مزید بتایا کہ محروس کے دوران پاکستان طالبان نے انہیں ایک ریڈیو فراہم کیا جس کے ذریعہ وہ اکثر و بیشتر بی بی سی سناکرتے جو باہر ی دنیا سے ان کا واحد رابطہ تھا، علی حیدر گیلانی کے مطابق طالبان کرکٹ کھیلنا پسندکرتے ہیں۔ ایک دن انہوں (گیلانی) نے ایک کرکٹ میچ کی کامنٹری سننے کے لئے ریڈیو مانگا وہ ورلڈ کپ میں جنوبی آفریقہ کے خلاف پاکستان کا میچ تھا جس میں پاکستان کو کامیابی حاصل ہوئی۔ افغانستان میں علی حیدر گیلانی صرف دو ماہ رہے۔
ان ہمراہ ایک پاکستانی طالبان اور القاعدہ کا ایک رکن رہا کرتا تھا۔ 9 مئی کو ان کے اغوا کنندگان نے بتایا کہ اس کمپاؤنڈ کا انہیں تخلیہ کرنا پڑے گا کیونکہ خفیہ اطلاع ملی ہے کہ امریکی فورس فضائی حملہ کرنے والی ہے۔ ہم رات میں اس کمپاؤنڈ کو چھوڑ کر نکل گئے اور تین تا چار گھنٹوں تک چلتے رہے۔ اس دوران میں نے ہیلی کاپٹروں اور پھر بندوقیں چلنے کی آوازیں سنی میں زمین پر گرگیا اس دوران کسی نے مجھے شرٹ اتارنے اور ہاتھ اوپر کرلینے کی ہدایت دی اس وقت کوئی میرے قریبآیا اور میرے ہاتھ باندھ دیئے ’’میں نے کہا کہ میرا نام علی حیدر ہے اور میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم علی رضا گیلانی کا بیٹا ہوں، پہلے تو انہیں یقین نہیں آیا لیکن بعد میں انہیں پتہ چل گیا کہ میں سچ کہہ رہا ہوں‘‘۔ ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے تک مجھے طالبان کے چنگل سے اپنی آزادی کا یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے کے ساتھ ہی امریکی فورس کے ایک سپاہی نے کہا کہ مسٹر گیلانی آپ گھر جارہے ہیں۔ محروسی اور پھر اپنی آزادی کی داستاں کا سلسلسہ جاری رکھتے ہوئے گیلانی نے بتایا کہ امریکی فورس نے انہیں پہلے بگرام فضائی اڈہ لے گئے اور پھر ان کی کابل منتقلی عمل میں آئی جہاں انہوں نے پہلی مرتبہ اپنے بھائی کو دیکھا وہ ہنوز حیرت میں غرق تھے، انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ جو دیکھ رہے ہیں خواب ہے یا حقیقت ہے۔ کچھ دیر پہلے وہ طالبان کے قبضہ میں تھے اور کسی بھی وقت موت کی نیند سوسکتے تھے اور اب میں اپنے خاندان کو دیکھ رہا ہوں‘‘۔ گیلانی کے مطابق اپنی گھر واپسی پر انہوں نے دیکھا کہ ان کا بیٹا بالکل بدل گیا یہاں تک کہ اس نے انہیں پہچان بھی لیا۔ علی حیدر گیلانی فی الوقت ایک کتاب تحریر کرنے میں مصروف ہیں اور بقول علی حیدر سیاست ان کے خون میں شامل ہے۔ ایسے میں وہ عملاً سیاست میں واپس جائیں گے۔