محمد عبدالعزیز سہیل
علامہ اقبال 9؍نومبر1877ء کو سیالکوٹ (موجودہ پاکستان)میں پیدا ہوئے ۔1899ء میں فلسفہ سے ایم اے کیا اور اورینٹل کالج لاہور میں عربی کے استاد مقرر ہوئے۔ 1905 ء میں انہوںنے اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان کا سفر کیا۔1907ء میں انہوںنے جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے Ph.D.کی ڈگری حاصل کی اور بعد میں لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔1908ء میں وہ واپس لاہور آئے اور وکالت کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ علامہ اقبال کو 1923 میں حکومت کی جانب سے ’’سر‘‘ کا خطاب ملا اور 21؍اپریل1938 ء کو علامہ اقبال اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
اردو میں علامہ اقبال کی شاعری کے چار مجموعے بانگ درا، بال جبرئیل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز شائع ہوئے۔علامہ اقبال اردو کے پہلے شاعر ہیں جن کا اپنا ایک مستقل پیام ہے اور فلسفہ حیات بھی ہے اسی بنیاد پر ان کو پیامبر شاعر بھی کہاجاتاہے ۔ ابتداء میں انہوںنے غزل گوئی کی اور داغؔ کے رنگ میں غزلیں بھی کہی تھیں لیکن انہوںنے غزل کے ساتھ ساتھ نظم گوئی شروع کی اور نظم کی طرف مائل ہوگئے۔ اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز بطور غزل گو شاعر کے کیا لیکن اقبال کو نظم کا شاعر کہا جاتاہے ان کی نظموں میں حب الوطنی کی نمایاں تصویر نظر آتی ہے علامہ اقبال کی وہ نظمیں جس میں ہمیں حب الوطنی اور امت مسلمہ کو دعوت عمل کا درس ملتا ہے ۔ ان میں ہندوستانی بچوں کا قومی گیت،ترانہ ملی، نیا شوالہ، وطنیت، خطاب بہ نوجوانان ِ اسلام ،ہلال عید، آفتاب، تصویرِ درد، ترانہ ہندی شامل ہیں۔
موجودہ دور میں علامہ اقبال کے کلام کے ذریعہ امت مسلمہ درس لے اور اپنی زندگیوں کی قدیم روش کو چھوڑ کر ایک نئے جوش وجذبہ کے تحت بامقصد زندگی گذارے۔ ہمارے دلوں میں جوش وہ ولولہ پیدا کرنے کے لئے علامہ اقبال کایہ کلام کافی ہے جس کو مشعل راہ بناتے ہوئے ہم اپنے زندگی کے مقصد کو حاصل کریں۔
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
علامہ اقبال اس شعر میں انسان کو اپنے اندر زندگی کوتلاش کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں کیونکہ انسان اگر خدا کا بندہ نہیں بنتاہے تو وہ اپنے آپ کو نہیں پہچان سکتاہے لہٰذا زندگی کوکامیاب طریقے سے گذارنا ہے تو انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کا بندہ نہ بنے بلکہ خدا کا بندہ بن کر زندگی گذارے۔
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو کہ مسلمان بھی ہو
علامہ اقبال اس شعر میں کہتے ہیں کہ آج مسلمان دنیا میں پریشان حال ہیں ہر جگہ ستائے جارہے ہیں اوراپنے اعمال کی وجہ سے ذلت و رسوائی حاصل کررہے ہیں ایسے میں ہمیں سید، مرزا اور افغان ہونے پر ناز ہے مگر خد انے ہمیں مسلمان پیدا کیا اور ہمارا نام مسلمان رکھا جس کا احساس ہمیں نہیں ہے ہم اپنے رب کے طریقے کو چھوڑ کر دوسرے طریقوں کو اختیار کررہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں اوراپنے رب سے اپنے تعلقات کو مضبوط کریں۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
علامہ اقبالؒ نے اس شعر میں ہمارے اسلاف کے عظیم کارناموں کو جو انہوںنے قرآن مجید کو تھام کر حاصل کئے تھے اس کو بیان کیا ہے اور ہمارے پسپا ہونے کی وجہ بیان کی ہے کہ ہم کس طرح قرآن کو چھوڑ نے سے دنیا میں دیگر قوموں کے مقابلہ زوال پذیر ہوتے جارہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن مجید پر عمل پیراہوں۔
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
اس شعر میں علامہ اقبال نے امت مسلمہ کو اپنی زندگیوں میں تبدیلیاں پیدا کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ کیونکہ یہی وہ امت ہے جو ہر وقت انقلاب برپا کرسکتی ہے اگر وہ اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا نہ کرسکی تو اس کا انجام موت ہی ہوگا۔ لہٰذا اس شعر کے ذریعہ علامہ نے امت مسلمہ میں جذبہ ایمان پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرانشیں کیا تھے
جہاںگیر وجہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
اس شعر میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کے اسلاف کا ذکر کیا ہے کہ ہماری قوم کیاتھی اور اتحاد و اتفاق نہ ہونے سے زوال کا سبب بنی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد واتفاق قائم کریں۔
نہ تو زمیں کیلئے ہے نہ آسماں کیلئے
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کیلئے
علامہ اقبالؒ نے اس شعر میں انسانوں کے وجود کے مقصد کو بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا اور انہیں اطاعت کرنے کاحکم دیا لیکن انسان خود دنیا کا تابع ہوکر رہ گیا ہے ہمیں چاہئے کہ اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے دین کو دنیا پر غالب کریں۔
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کانبیؐ دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
اقبال ان اشعار میں کہتے ہیں کہ قوم کا فائدہ اور نقصان ایک ہی ہے اور ہمارا رب بھی ایک اور دین وایمان بھی ایک ہے لیکن ہمارے اندر اتحاد نہیں ہے ۔ ہم مختلف فرقوں میں بٹ گئے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک جسم کی طرح ہوجائیں اور ہمیشہ متحد رہیں دیگر قوموں کے مقابلہ میں ہم تب ہی ترقی کرسکتے ہیں ورنہ ہمیشہ نقصان میں رہیں گے۔علامہ اقبالؒ کا کلام مسلمانوں اور خاص کر نوجوانوں کے لئے ایک نوشتہ دیوار ہے کاش موجودہ دور میں علامہ کے پیام کو مشعل راہ بناکر ہم اپنے دین کی سربلندی کے لئے جدوجہد کریں۔ موجودہ دور میں بے دینی بے حیائی اور فحاشی و عریانیت اور مخرب اخلاق لٹریچر کا چلن عام ہے ایسے میں ہمیں چاہئے کہ قرآن مجید سیرت النبیﷺ اور ہمارے اسلاف کے کارناموں ساتھ ہی علامہ اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں اور ان پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب و کامران ہوں۔